جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے دو محترم اساتذہ نثار احمد زبیری اور متین الرحمن مرتضیٰ کے قصے آپ سن چکے اب ملاحظہ کیجیے میڈم شاہدہ مرزا کا قصہ۔
متین صاحب نے جب صاف کہہ دیا کہ وہ مشفق خواجہ کے کالموں سے متعلق تحقیقی مقالے کی نگرانی نہیں کرسکیں گے تو ہم حیرانی اور پریشانی کے عالم میں شعبہ ابلاغ عامہ کی ایک اور استاد میڈم شاہدہ مرزا کے پاس پہنچے اور ان سے اپنی مشکل کا ذِکر کیا۔ انہوں نے ازراہ عنایت ہمارے مقالے یا تحقیقی منصوبے کی نگرانی قبول کرلی۔ ہم نے اس صورتِ حال پر سکھ کا سانس لیا اور میڈم شاہدہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ مقالہ تقریباً مکمل تھا۔ اس میں چند چیزوں کا اضافہ کرنا تھا۔ مقالے کا حتمی مسودہ تیار ہوگیا تو ہم نے حسب ضرورت اسے ٹائپ کرالیا اور میڈم کی خدمت میں پیش کردیا۔ چند روز بعد اطلاع ملی کہ میڈم نے مقالہ پڑھ لیا ہے اور اس پر نمبر بھی دے دیے ہیں۔ ہم میڈم کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے ہمیں تحقیقی مقالے پر کتنے مارکس دیے ہیں۔ انہوں نے فرمایا 100 میں سے 75۔ ہم نے کہا کہ میڈم یہ ایک اوریجنل کام ہے۔ اور اس میں نہ صرف یہ کہ مشفق خواجہ کے 450 کالموں کا تجزیہ کیا گیا ہے بلکہ خواجہ صاحب کا شخصی خاکہ مرتب کرنے کے لیے خواجہ صاحب کے کئی طویل انٹرویوز بھی کیے گئے ہیں۔ میڈم ہماری بات سن کر مسکرائیں۔ کہنے لگیں تمہارا مقالہ اچھا ہے مگر سلیم احمد پر لکھے گئے تمہارے مقالے کے جتنا صخیم نہیں ہے۔ ہوتا تو میں تمہیں زیادہ نمبر دیتی۔ ہم نے عرض کیا کہ میڈم تحقیق کوکلو گرام کے حساب سے تو نہیں دیکھا جاتا۔ اس کا پیمانہ کچھ اور ہے۔ کہنے لگیں کہ بھائی بحث نہ کرو ہم نے جو نمبر دے دیے دے دیے۔ یہ سن کر ہم خاموش ہوگئے مگر خاموش ہوتے ہی ہمیں یاد آیا کہ گزشتہ سمسٹر میں ہم نے ٹیلی وژن جرنلزم کا جو پیپر دیا تھا اس میں کسی اور نے نہیں میڈم شاہدہ مرزا ہی نے ہمیں 100 میں سے 84 نمبر دیے تھے۔ حالاں کہ یہ ’’رٹے‘‘ کا پیپر تھا اور اتنا آسان کہ اگر کوئی ہمیں نیند سے بیدار کرکے پرچہ حل کرنے کو کہتا تو ہم نیم غنودگی کی حالت میں بھی ویسا ہی پیپر دیتے جیسا کہ ہم نے دیا اور جس پر ہمیں 100 میں سے 84 نمبر ملے۔ یہاں بتانے کی دو اور باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مشفق خواجہ نے ہمارا مقالہ پڑھا تو کہا کہ میاں جو کام آپ نے چوبیس پچیس سال کی عمر میں کیا ہے ویسا کام لوگ پینتالیس پچاس سال کی عمر میں بھی نہیں کر پاتے۔ ہم نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جس مقالے کے بارے میں فرما رہے ہیں اس پر ہمیں 100 میں سے صرف 75 نمبر ملے ہیں۔ اس کے جواب میں خواجہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہم اسے لکھنے سے قاصر ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ جن مقالوں پر ہمیں پچھتر، پچھتر نمبر ملے انہیں کچھ برسوں بعد جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ نے خود کتابی صورت میں شائع کیا۔ سوال یہ ہے کہ جن مقالوں پر جامعہ کے فاضل اساتذہ نے صرف 75 نمبر دینا پسند کیا انہیں خود شعبے نے کتابی صورت میں کیوں شائع کیا اور اگر یہ مقالے کتابی صورت میں شائع کیے جانے کے لائق تھے تو ان پر پچھتر پچھتر نمبر دینے والے اساتذہ کے کیا مسائل تھے؟ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ اگر پچھتر نمبر حاصل کرنے والے مقالے اس لائق تھے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جاسکتا تھا تو پھر ہماری وہ کاپی بھی کتابی صورت میں شائع ہونی چاہیے جس کو پڑھ کر میڈم شاہدہ مرزا نے ہمیں 100 میں سے 84 نمبر دیے تھے۔
اب ملاحظہ کیجیے جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کے استاد پروفیسر اظہر علی کا قصہ۔ بی اے آنرز میں ہم نے ضمنی مضمون کے طور پر سیاسیات بھی لیا ہوا تھا۔ دو سمسٹرز میں یہ مضمون پروفیسر اظہر علی نے ہمیں پڑھایا۔ پروفیسر اظہر علی کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کلاس میں پانچ سات منٹ لیٹ آتے تھے۔ پھر وہ ڈیڑھ سو طلبہ کی حاضری لیتے تھے اس میں دس بارہ منٹ مزید لگ جاتے۔ بچے کھچے منٹوں میں وہ ہمیں علم سیاسیات سکھاتے۔ لیکن مارکسزم پڑھانے کی باری آئی تو پروفیسر صاحب نے اچانک اپنا طریقہ کار بدل دیا۔ وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ حاضری نہیں ہوگی، چناں چہ جب تک انہوں نے ماکسزم پڑھایا حاضری نہ ہوسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے مارکسزم جم کر پڑھایا اور طلبہ کو مارکسزم سے متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آخری دن انہوں نے وقت سے دس منٹ قبل لیکچر ختم کیا اور طلبہ سے کہا کہ کوئی سوال ہو تو پوچھ لو۔ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔ یہ دیکھ کر وہ ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا فاروقی صاحب بھی کوئی سوال نہ پوچھیں گے؟ ہماری طبیعت سوال پر مائل نہ تھی مگر پروفیسر صاحب کے طنز نے ہمیں سوال پر مجبور کردیا۔ ہم نے کہا کہ سر آپ نے مارکسزم کے بارے میں سبھی کچھ بتادیا مگر یہ نہیں بتایا کہ مارکس مذہب کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کہنے لگے آپ ہی بتادیجیے کہ مارکس مذہب کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہم نے کہا کہ مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہہ کر پورے مذہب کو مسترد کرتا ہے۔ یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب پھٹ پڑے۔ کہنے لگے آپ نے میری علمی دیانت پر حملہ کیا ہے۔ آپ نے میری توہین کی ہے۔ آپ کلاس سے نکل جائیے۔ ہم نے کہا کہ ہم نے ہر گز آپ کی توہین نہیں کی ہم نے مارکس اور مارکسزم کے بارے میں ایک relevent سوال پوچھا ہے۔ چناں چہ ہم تو کلاس سے ہر گز نہ جائیں گے۔ یہ سن کر اظہر صاحب ناراض ہو کر خود کلاس سے نکل گئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ انہوں نے ہم سے گفتگو بند کردی اور ہم ان کے پرچے میں اگر آسمان سے تارے بھی توڑ لاتے تو بھی انہوں نے ہمیں 70 سے زیادہ مارکس کبھی نہ دیے۔ اس سے کم مارکس وہ ہمیں اس لیے نہیں دے سکتے تھے کہ ہماری عمومی شہرت اچھی تھی۔ پھر یہ کہ وہ دوسرے طلبہ کو 80 اور 90 مارکس دیتے رہے۔
ہم جامعہ کو علم کی جنت سمجھ کر جامعہ گئے تھے مگر جامعہ کے چار سال جامعہ کے اساتذہ کی وجہ سے اذیت، حیرانی اور پریشانی کے 16 سال بن گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے جامعہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے طلبہ کی سیاست اور اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم نے جامعہ کی کینٹین کے بیرے عبدل سے یہ سیکھا کہ اگر آپ محنت کریں تو ایک آدمی بیک وقت دس میزوں پر موجود لوگوں کو خوش اور مطمئن رکھ سکتا ہے۔ عبدل صبح سے شام تک پھرکی کی طرح کینٹین میں گھومتا رہتا۔ ہم نے چار برسوں میں کسی گاہک کو عبدل سے ناراض ہوتے نہ دیکھا۔ ہم نے شعبہ ابلاغ عامہ کے چپراسی بابا عبدالغفور سے یہ سیکھا کہ انسان کو اپنا کام لگن کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔ بابا عبدالغفور کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی 25 سال کی ملازمت میں صرف ایک دن چھٹی کی۔ خدمت اور لگن ہو تو ایسی ہو۔ مگر چار سال تک ہماری تمنا ہی رہی کہ ہم جامعہ کے اساتذہ اور جامعہ کے کلاس رومز سے بھی کچھ سیکھیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جامعہ میں کوئی استاد بھی استاد کہلانے کا مستحق نہ تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ جامعہ کے ہر شعبے میں ایک دو اچھے اساتذہ پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہوں گے لیکن ہمیں روزنامہ جسارت کی خبر کے ذریعے یہ جان کر حیرت اور ملال ہوا کہ جامعہ کے اساتذہ کی بڑی تعداد 1980ء اور 1990ء میں جس طرح طلبہ کو تکلیف دے رہی تھی اور انہیں خوف زدہ کررہی تھی، جامعہ کے اساتذہ کی اتنی ہی بڑی تعداد سن 2017ء میں بھی اسی طرح طلبہ کو اذیت دے رہی ہے اور انہیں خوف میں مبتلا کررہی ہے۔