فحاشی، گلوبل ولیج اور لاہور ہائی کورٹ میں کیا قدرِ مشترک ہے! فحاشی، فحاشی ہے۔ گلوبل ولیج، گلوبل ولیج ہے اور لاہور ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ ہے۔ آپ کے سوالات غلط نہیں مگر اِک ذرا صبر کر لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ لیکن فحاشی، گلوبل ولیج اور لاہور ہائی کورٹ میں قدر مشترک ثابت کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پاکستان کی ممتاز ڈراما نویس حسینہ معین کے چند فقرے ملاحظہ کرلیں۔
حسینہ معین نے روزنامہ جنگ کے مڈویک کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں فرمایا ہے کہ ’’پاکستانی ٹی وی چینلوں کے ڈراموں سے ہماری زبان، اخلاق اور تہذیب خراب ہورہی ہے۔ حسینہ معین نے کہا کہ آج کل کے ڈراموں کے بعض سین اور مکالمے ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہ کسی ملا، مولوی، کسی مذہبی جماعت کے رہنما کی رائے نہیں ہے۔ یہ ایک ’’ماہر کی رائے‘‘ ہے اور ماہر کہہ رہا ہے کہ ہمارے ڈراموں نے ہماری زبان، اخلاق اور تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہاں تک کہ ڈراموں کو خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔
حسینہ معین کو جو کہنا تھا وہ کہہ چکیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں لاہور ہائی کورٹ ایسے ہی ایک مسئلے کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے۔ 19 جولائی 2017ء کے روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی ایک خبرکے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان میں بھارتی فلمیں، ڈرامے اور آڈیو ویڈیو مواد دکھانے کی اجازت دیتے ہوئے پاکستان الیکٹرونک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے جاری کیا گیا، بھارتی مواد پر پابندی کا اعلامیہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کیس کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ’’سیّد‘‘ منصور علی شاہ نے کی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کی وکیل عاصمہ جہانگیر بھی پوری طرح کھل کر سامنے آئیں۔ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں بھارتی فلمیں دکھانے پر پابندی نہیں مگر بھارتی ڈرامے دکھانے کی اجازت نہیں۔ خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فرمایا کہ اگر بھارتی فلموں اور ڈراموں میں پاکستان مخالف اور غیر اخلاقی مواد موجود ہے تو اسے سینسر کیا جاسکتا ہے۔ جج صاحب نے مزید فرمایا کہ اگر وفاقی حکومت کی جانب سے بھارتی فلموں یا ڈراموں اور دیگر مواد پر کوئی پابندی نہیں تو پیمرا کیوں الگ ڈگر پر چل رہا ہے۔ جج صاحب نے کہا کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ہم کب تک بلا جواز پابندیاں عائد کرتے رہیں گے۔
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو بھارتی ڈراموں پر پابندی برقرار رکھتے ہوئے بھارتی فلموں پر بھی پابندی عائد کردینی چاہیے تھی مگر اس کے برعکس انہوں نے بھارتی فلموں کے ساتھ ساتھ بھارتی ڈراموں کو نشر کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی ممتاز ڈراما نویس حسینہ معین کہہ رہی ہیں کہ بھارتی ڈرامے نہیں پاکستانی ڈرامے بھی اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں پورے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکے۔ مگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب یہ ماشا اللہ ’’سیّد‘‘ بھی ہیں۔ انہوں نے بھارت کی ثقافتی یلغار کے لیے مزید دروا کردیے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ’’سیّد صاحب‘‘ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’اگر‘‘ بھارتی ڈراموں میں غیر اخلاقی مواد ہے تو اسے سینسر کردیا جائے۔ سید صاحب کا اگر بھی خوب ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ’’سیّد صاحب‘‘ ابھی دوچار سال پہلے دنیا میں تشریف لائے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ بھارت کی فلموں اور ڈراموں میں کیا ہوتا ہے؟۔ بھارت کی فلموں کی بات کی جائے تو بھارت کی 99.99 فی صد فلمیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے 60 سے 70 فی صد حصے کو سینسر کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی فلم اگر آدھی یا اس سے بھی کم رہ جائے تو اُسے کون دیکھے گا؟ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ بات معلوم ہی نہیں۔ رہے بھارت کے ڈرامے تو ان کا پورا مزاج ’’فلمی‘‘ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بھارت کو فلم بنانی تو آتی ہے مگر ڈراما بنانا نہیں آتا۔ بالکل اس طرح جس طرح پاکستان کو ڈراما بنانا تو آتا ہے مگر فلم بنانی نہیں آتی۔ چناں چہ پاکستان میں جو فلمیں بن رہی ہیں ان پر ڈراموں کے ’’مزاج‘‘ کا گہرا اثر ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ان حقائق سے کیا لینا دینا؟۔
تجزیہ کیا جائے تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تھیلے سے ایک دو نہیں ساری بلیاں اس وقت باہر آگئیں جب انہوں نے فرمایا کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ہم کب تک ناروا پابندیاں عائد کرتے رہیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایک ’’ریمارکس‘‘ سے ظاہر ہوا کہ بھارتی فلموں، ڈراموں کی نگرانی یا ان کے سینسر کی بات انہوں نے قوم کو دھوکا دینے کے لیے فرمائی ہے ورنہ ان کی اصل دلیل تو یہ ہے کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور تہذیب و اخلاق کی دہائی دینا تفریحی مواد پر ناروا پابندیاں عائد کرنا ہے۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کون بتائے کہ ایک مسلمان اور ایک مسلم معاشرے کے لیے اصل دلیل گلوبل ولیج نہیں قرآن و سنت کا حکم ہے۔ اس کی تہذیب کی اقدار اور اس کی تاریخ کا تجربہ ہے۔ مگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس اور فیصلے سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے لیے خدا اور رسولؐ کے احکامات اور مسلم تہذیب و تاریخ کے معیارات سرے سے اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کے لیے کچھ اہم ہے تو گلوبل ولیج۔ اب اگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے گلوبل ولیج ہی اہم ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ گلوبل ولیج میں تو جسم فروشی بھی ہورہی ہے۔ بلکہ چند ماہ پہلے تھائی لینڈ کے وزیراعظم نے اپنے ملک کی طوائفوں کا یہ کہہ کر شکریہ ادا کیا تھا کہ انہوں نے ایک سال میں ملک و قوم کو 5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کل کلاں کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب سید صاحب کسی درخواست کے جواب میں فیصلہ دے دیں گے کہ چوں کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور گلوبل ولیج میں جسم فروشی بھی ہوتی ہے اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جسم فروشی کو جائز سمجھا جانا چاہیے۔ کیوں کہ اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’قیمتی زرمبادلہ‘‘ بھی حاصل ہوگا۔ دیکھا جائے تو گلوبل ولیج میں تو ہم جنس پرستی بھی موجود ہے۔ بلکہ دنیا کے بعض ملکوں میں تو لاکھوں ہم جنس پرست جمع ہو کر جلوس نکالتے ہیں اور اپنی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ چوں کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے اصل دلیل گلوبل ولیج میں رہنا ہے اس لیے وہ کسی درخواست گزار کی درخواست کے جواب میں وہ ہم جنسی پرستوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جلسے جلوس کی اجازت بھی دے سکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح دنیا کے سامنے پاکستان کا ’’soft image‘‘ سامنے آئے گا۔ ایسا ہوا تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو حکمرانوں کی بھرپور تائید حاصل ہوگی اس لیے کہ پاکستان کے soft image کی برآمد حکمرانوں کو بھی بہت پسند ہے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ بھارت ہماری سرحد پر ہمارے ایک فوجی کو شہید کرتا ہے تو پاکستان بجا طور پر اس سلسلے میں احتجاج کرتا ہے اور بھارت کو ویسے ہی نقصان سے دوچار کرنے کی سبیل کی جاتی ہے۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بھارت اپنی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب و اخلاقی اقدار پر جوہری حملہ کرتا ہے اور ہمارے جرنیل اور سیاسی حکمران خاموش رہتے ہیں۔ بلکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان میں بھارت کی فلموں کے ساتھ ساتھ اس کے ڈرامے میں بھی چلنے چاہئیں۔
ظاہر ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا زیر بحث فیصلہ ’’تزویراتی‘‘ یا ’’strategic‘‘ ہے۔ اس طرح کے فیصلے حکمرانوں باالخصوص جرنیلوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جنرل باجوہ بھارت سے پاکستان کے جغرافیے کا تو دفاع کررہے ہیں مگر پاکستان کے نظریے کو بھارت کی تہذیبی و ثقافتی یلغار کی نذر کررہے ہیں۔ واہ کیا دفاع ہے۔ روح کو بھارت سے پامال کرایا جارہا ہے۔ لیکن جو قومیں اپنی روح کی حفاظت نہیں کر پاتیں ان کا جسم یعنی جغرافیہ بھی فتح ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ کتنا ہولناک منظر ہے کہ پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی تباہی کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور پورے پاکستان پر سناٹے کا راج ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ نظریاتی، تہذیبی اور ثقافتی زنخوں کا معاشرہ بن چکا ہے؟۔