ہمارے ایم اے کرنے کے ایک سال بعد ایک دن وہ تقریباً روتے ہوئے ہمارے پاس آئے۔ کہنے لگے کہ صاحب آپ کی دوستی نے تو آج کلاس میں ہمیں ’’ذلیل‘‘ کرادیا۔ ہم نے اس اجمال کی تفصیل پوچھی تو کہنے لگے کہ آج نثار زبیری کی کلاس میں ہم نے ان سے ایک سوال پوچھ لیا تو انہوں نے ہمیں جھڑک دیا۔ کہنے لگے کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ سوال تمہیں کون بنا کر دیتا ہے؟۔ احمد زاہد نے حیرت سے پوچھا کہ مجھے کون سوال بنا کر دیتا ہے یا مجھے کون سوال سکھاتا ہے؟ زبیری صاحب نے فرمایا۔ شاہنواز فاروقی اور کون؟۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ سے سوال پوچھنے اور ان کے ساتھ بحث کرنے کے نتائج کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں؟۔ لیکن مسئلہ صرف ایک نثار زبیری کا نہیں تھا۔
شعبے کے ایک استاد متین الرحمن مرتضیٰ بھی تھے۔ وہ ساری دنیا پر تنقید کرنے کی شہرت رکھتے تھے مگر وہ خود اپنے طالب علموں سے احترام آمیز سوال یا احترام آمیز تنقید سننے کے روا دار نہیں تھے۔ ایک دن وہ کلاس میں خاکہ نگاری پڑھا رہے تھے۔ کہنے لگے خاکہ نگاری سنجیدہ اسلوب میں بھی ہوتی ہے اور قدرے مزاح آمیز اسلوب میں بھی اور خاکہ نگاری کی اس قسم کو برتنا مشکل ہے۔ ہم نے کہا کہ آپ اپنے اداریوں میں یہی اسلوب برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری بات سنتے ہی متین صاحب کا رنگ غصے سے سرخ، پھر نیلا اور پھر پیلا ہوا۔ لیکن عملاً اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ہم سے گفتگو بند کردی۔ یہاں تک کہ ہمارے سوال کا جواب دینا بھی ترک کردیا۔ یہ دیکھ کر ہم اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ ان کے گھر پہنچے اور غلطی نہ کرنے کے باوجود ان سے معذرت کی۔ ہم سمجھے کہ استاد مکرم نے ہماری معذرت کو قبول کرلیا ہے لیکن چند روز بعد استاد مکرم نے بھری کلاس میں ہم پر بھرپور حملہ کیا۔ اس زمانے میں ہماری عادت تھی کہ ہم کالم یا شعر لکھتے وقت لاشعوری طور پر بال پین کو منہ میں رکھ لیتے تھے جس سے رفتہ رفتہ بال پین کا پچھلا حصہ ٹوٹ جاتا تھا اور بال پین ’’مجروح‘‘ نظر آنے لگتا تھا۔ اس دن ایک مجروح پین کلاس روم میں ہمارے سامنے رکھا ہوا تھا۔ متین صاحب یہ دیکھ کر تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ہمارے بال پین کو اُٹھا لیا اور پھر پوری کلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمانے لگے۔
’’اب دیکھیے ان کی جارحیت اور جارحانہ رویے کا شاخسانہ‘‘
استاد مکرم یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوگئے بلکہ وہ پین سب کی طرف دکھا کر کہنے لگے، دیکھا آپ نے۔ اس سے ہمارا تو کوئی نقصان نہ ہوا البتہ کلاس کے طالب علم عرصے تک اس بات پر متین صاحب کا مذاق اڑاتے رہے۔ لیکن یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ ہم نے ایم اے کے دوسرے سمسٹر میں مشفق خواجہ کے فکاہیہ کالموں پر تحقیق کا ارادہ کیا تو اس خیال سے متین صاحب کے پاس پہنچے کہ متین صاحب بھی روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ تکبیر سے وابستہ رہے ہیں اور مشفق خواجہ بھی۔ ہم نے متین صاحب پر مشفق خواجہ کے حوالے سے تحقیق کا ارادہ ظاہر کیا تو اس موضوع پر تحقیق کرانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ کہنے لگے آپ کوئی اور موضوع لے لیجیے۔ ہم نے کہا کہ چوں کہ ہم نے بچپن سے جسارت میں خواجہ صاحب کے کالم پڑھے ہیں اس لیے ہم ان کے کالموں کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں۔ بڑی بحث کے بعد طے ہوا کہ ہم خواجہ صاحب کے ادبی فکاہیہ کالموں کے بجائے سیاسی فکاہیہ کالموں پر تحقیق کریں گے۔ مشفیق خواجہ پر متین صاحب تحقیق کے لیے کیوں آمادہ نہ تھے اس کی وجہ خالد جامعی نے بہت بعد میں ہمیں بتائی۔ ان کے بقول خواجہ صاحب نے متین صاحب کا ایک مضمون پڑھ کر انہیں جاہل کہہ دیا تھا۔ یہ فقرہ کسی نے متین صاحب تک پہنچادیا۔ بہر حال موضوع طے ہوگیا تو ہم نے خواجہ صاحب سے ملاقات کی اور تحقیقی مواد حاصل کیا۔ بدقسمتی سے چند روز بعد جمعیت اور پی ایس اے کے درمیان تصادم ہوگیا اور جامعہ کراچی تین ماہ کے لیے بند کردی گئی۔ ہم نے سوچا کہ ہمیں یہ تین ماہ ضائع نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اپنی تحقیق جاری رکھنی چاہیے۔ چناں چہ ہم نے فرصت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تین ماہ میں تحقیقی کام مکمل کرلیا۔ تین ماہ بعد جامعہ کھلی تو ہم متین صاحب کے پاس پہنچے اور یہ سوچ کر متین صاحب یقیناً ہمیں داد و تحسین سے نوازیں گے ان سے کہا کہ صاحب یہ رہا ہمارا تحقیقی مقالہ۔ کہنے لگے کہ اس دوران آپ نے مجھ سے تو کچھ پوچھا ہی نہیں۔ ہم نے کہا کہ نارتھ ناظم آباد سے کسی پوائنٹس کی بس کے بغیر جامعہ آنا آسان نہ تھا۔ بہر حال آپ مقالہ پڑھ لیجیے اور جو خامی آپ بتائیں گے ہم اسے دور کریں گے اور جو تبدیلی اور ترامیم آپ کہیں گے کرلی جائیں گی۔ کہنے لگے کہ جی نہیں آپ کا یہ رویہ میرے لیے ناقابل قبول ہے۔ آپ اب کسی اور کے ساتھ تحقیق کرلیں۔ ہم نے کہا کہ اب ہمارے مقالے کی نگرانی کون قبول کرے گا؟۔ کہنے لگے کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ میں آپ کے ساتھ اس مقالے کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ محض ایک ’’سیاسی بیان‘‘ تھا۔ ورنہ حقیقت یہ تھی کہ متین صاحب ہمارے جوش انتقام سے بھر چکے تھے۔ چناں چہ جب ہم نے شعبے میں لیکچرار کی پوسٹ کے لیے درخواست دی تو نثار زبیری کے ساتھ متین صاحب بھی شعبے کے چیئرمین کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر آپ نے شاہنواز فاروقی کو لیکچرار بنایا تو میں استعفا دے دوں گا۔ ہمیں اس دھمکی کا کوئی علم ہی نہ تھا۔ اتفاق سے ایک روز شعبے کے ایک استاد نے اس ’’راز‘‘ سے پردہ اُٹھاتے ہوئے بتایا کہ ہمارے دو اساتذہ نے ہمیں سوال اور بحث کرنے کی کیا سزا دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جامعات بھی سوال اٹھانے اور بحث کرنے کے لیے نہیں ہیں تو پھر طالب علم یہ کام کرنے کہاں جائیں؟؟۔
(جاری ہے )