کروڑوں لوگوں کو اس بات پر حیرت ہورہی ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر بدعنوانی کے بڑے بڑے الزامات لگ رہے ہیں اور اس سلسلے میں جے آئی ٹی نے شہادتوں کا انبار لگا دیا ہے مگر میاں نواز شریف ’’اخلاقی بنیادوں‘‘ پر مستعفی ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح کہے چلے جارہے ہیں۔ ’’میں مزید کھیلوں گا۔ میں مزید کھیلوں گا۔ کیوں کہ مجھے اگلی باری میں جیتنے کی امید ہے‘‘۔ میاں صاحب کی ’’چمک‘‘ بدنام زمانہ ہے۔ اس سے وہ سیاست دانوں اور صحافیوں کو کیا علما، ججوں اور جرنیلوں کی بھی خرید سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ پاناما کیس میں اخلاقی جنگ ہار چکے ہیں۔ لیکن اس بنیاد پر جو لوگ ان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اخلاقیات کو مانو اور استعفا دو، وہ خیالی پلائو پکانے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اقبال نے کہا تھا؎
جلال بادشاہی ہوکہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کی بات درست ہے دین سے جدا ہو کر سیاست چنگیزی بن جاتی ہے۔ لیکن اقبال کا زمانہ بہتر زمانہ تھا۔ اس وقت حکمران سیاست کو دین سے الگ کرکے چنگیزی ہی کرتے تھے مگر ہمارے حکمران دین اور سیاست کی علیحدگی سے چنگیزی کے ساتھ ساتھ بدعنوانی بھی کرتے ہیں اور بدعنوانی بھی ایسی کہ طلسم ہو شربا بچوں کا کھیل محسوس ہو۔ لیکن زیر بحث موضوع کے اعتبار سے آج کی اہم بات یہ نہیں کہ ہمارے حکمران ڈاکو ہیں بلکہ آج کی اہم بات اس سوال سے عبارت ہے کہ ہماری سیاست میں اخلاقیات کیوں موثر نہیں؟۔
اس سوال کا ایک جواب انتہائی آسان ہے اور وہ یہ کہ اخلاقیات ہماری سیاست کیا قومی زندگی میں ایک ’’کالمی خبر‘‘ بھی نہیں ہے۔ اس پر نہ کوئی بیان دیتا ہے، نہ اس پر کوئی مظاہرہ ہوتا ہے، نہ اس پر کوئی جلوس نکلتا ہے، نہ اس پر کوئی مجلسِ مذاکرہ منعقد ہوتی ہے، نہ اس پر کوئی ٹاک شو ہوتا ہے، نہ اس پر صوبائی یا قومی اسمبلی میں بحث ہوتی ہے، نہ اس کے مجروح ہونے پر کوئی تحریک التوا پیش ہوتی ہے، نہ اس پر کوئی اداریہ تحریر ہوتا ہے، نہ اس پر کوئی کالم لکھا جاتا ہے۔ اس صورت حال کا مفہوم عیاں ہے، اخلاقیات سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نواز شریف سے یہ مطالبہ کرنا حماقت ہے کہ وہ پاناما کیس کے حوالے سے استعفا دیں۔
یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ سیاست دین سے جدا ہو کر طاقت اور پیسے کا کھیل بن جاتی ہے، طاقت اور پیسے کے کھیل بن جاتی ہے۔ طاقت اور پیسے کے کھیل کا ایک مطلب یہ ہے کہ طاقت اور پیسے کو معاشرے میں ’’اقدار‘‘ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اخلاقی فضیلت بہت ہی بڑی فضیلت ہے مگر جس معاشرے میں طاقت اور پیسے کو فضیلت حاصل ہو جائے وہاں اخلاقیات کو کون گھاس ڈالے گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت اور پیسے کے ہزاروں ’’خارجی مظاہر‘‘ ہیں۔ اس کے برعکس اخلاقیات ایک باطنی خوبی ہے۔ بلاشبہ اخلاقیات کے بھی خارجی مظاہر ہوتے ہیں مگر ان میں وہ رنگینی اور دھوم دھڑکا نہیں ہوتا جو طاقت اور پیسے کے مظاہر میں ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جن معاشروں میں طاقت اور پیسے کی فضیلت مستحکم ہو جاتی ہے اُن معاشروں میں ظاہر باطن پر مکمل طور پر غالب آجاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں اخلاقیات ایک دور کا منظر اور ایک دور کی آواز بن جایا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایک ایسا ہی معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔
انسان کا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ ’’مفاد‘‘ ہے۔ دنیاوی مفاد۔ اربوں انسان خدا اور مذہب کی تعلیمات کو مانتے تو ہیں لیکن اس وقت تک جب تک یہ چیزیں ان کے مفاد سے نہ ٹکرائیں۔ جیسے ہی یہ چیزیں انسان کے مفاد سے ٹکراتی ہیں یہ چیزیں ’’ثانوی‘‘ اور مفاد ’’بنیادی‘‘ حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے۔ امریکا اپنے نوٹوں پر god bless america شائع کرتا ہے مگر جب امریکا کا قومی مفاد سامنے ہوتا ہے تو امریکا اس کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے نہیں چوکتا۔ ایسے حالات میں وہ خدا اور اس کی رحمت کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ اس موقع پر اس کو اخلاقیات کا خیال تک نہیں آتا۔ یہ صرف امریکا کا معاملہ نہیں دنیا کی ہر ریاست ’’قومی مفادات‘‘ کے حصول کے سلسلے میں یہی کررہی ہے۔ ایک بار جنرل حمید گل صاحب نے بھی ایک بیان میں فرمایا تھا کہ ریاستی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں خفیہ اداروں سے اخلاقی سوالات نہیں پوچھے جانے چاہئیں۔ اخلاقیات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی اصل میں مطلق یا Absolute ہوتی ہے۔ وہ کبھی اضافی، جزوی یا Relative نہیں ہوتی۔ چناں چہ ہماری قوم ہو یا کوئی دشمن اخلاقی اصولوں کا اطلاق ہر جگہ یکساں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مذہبی معاشرے اور ایک مذہبی ریاست کا ایک بڑا انفرادی اور قومی مفاد خود اخلاقیات ہے۔ اخلاقیات نہیں تو نہ فرد اہم ہے نہ قوم نہ ریاست۔ مگر انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ مفاد کے تحفظ کے لیے وہ اخلاقیات کو ایک طرف پھینک دیتا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان تو اربوں روپے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے اور اخلاقیات کو پامال کررہا ہے، لوگ تو سو روپے کے لیے بھی جھوٹ بول دیتے ہیں، سو روپے کے لیے بھی اخلاقیات کو کچل دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی خود کو ’’اخلاق کش‘‘ نہیں کہلانا چاہتا۔ چناں چہ وہ اخلاقیات کو ہمیشہ ایک تاثر، ایک پس منظر ایک Backdrop اور ایک Posturing کے طور پر استعمال کرتا رہتا ہے۔ البتہ اس کا اصل ہدف مفاد کا حصول یا اس کا تحفظ ہی ہوتا ہے۔
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو دنیا ’’نقد‘‘ اور آخرت ’’اُدھار‘‘ نظر آتی ہے۔ چناں چہ انسان نقد پر جان چھڑکتا ہے اور اُدھار کو نظر انداز کردیتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں بھی انسان کو اخلاقیات سے ہزاروں فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر اخلاقیات کا زیادہ تعلق آخرت کے فوائد کے ساتھ ہے۔ چناں چہ ہماری ساری توجہ اور ساری توانائی ’’نقد‘‘ پر صرف ہوتی ہے۔ ہم کہتے ضرور ہیں کہ آخرت ہی سب کچھ ہے مگر یہ بات ایک ’’سیاسی بیان‘‘ سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ ایسا سیاسی بیان جو اگلے دن کسی اور کو کیا خود بیان دینے والے کو بھی یاد نہیں رہتا۔ جو چیز ہمارا حقیقی بیان ہوتی ہے وہ یہ کہ دنیا بے انتہا اہم ہے۔ چوں کہ دنیا بے انتہا اہم ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والا نقد بھی بے انتہا اہم ہے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اخلاقیات اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے اور مذہب کے بارے میں یہ بات اربوں بار دہرائی جاسکتی ہے۔ ہم مذہب کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر ہم مذہب کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ ’’بسر کرنے‘‘ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مذہب اور اس کی اخلاقیات کہیں سے بنی بنائی نہیں مل جاتی۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے بدقسمتی سے اب اخلاقیات نہ ہماری تعلیم کا حصہ ہے اور نہ تربیت کا۔ مطلب یہ کہ اخلاقیات نہ ہمارا علم ہے، نہ شعور ہے اور نہ ہم نے اسے مشاہدے یا تجربے سے حاصل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں افراد معاشرہ کیسے ’’صاحب اخلاق‘‘ ہوں گے؟ اور ان کی زندگی کس طرح بدعنوانی کی مختلف صورتوں سے پاک ہوتی؟ ایک وقت تھا کہ اخلاقیات کے حامل ’’کرداری نمونے‘‘ گھر اور خاندان میں بھی مل جاتے تھے۔ گلی محلے اور اساتذہ میں بھی۔ چناں چہ اگر تعلیم میں کوئی نقص رہ جاتا تھا تو اس کی تلافی مشاہدے اور تجربے سے ہو جاتی تھی۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے کرداری نمونے کمیاب نہیں نایاب ہوگئے ہیں۔
اس مسئلے کی نشاندہی بھی لاکھوں بار کی جانی چاہیے کہ اب ہمارے معاشرے کا ’’مطلوب‘‘ متقی، صاحب علم یا صاحب اخلاق انسان نہیں ہے بلکہ اب معاشرے کا مطلوب ’’کامیاب انسان‘‘ ہے اور کامیاب انسان کی تعریف یہ ہے کہ اس کے پاس دولت ہوگی، طاقت ہوگی، عہدہ ہوگا، مطلب ہوگا۔ شہرت ہوگی، اچھا گھر ہوگا، بہترین گاڑی ہوگی۔ میاں نواز شریف متقی، صاحب علم اور صاحب اخلاق نہیں ہیں مگر وہ ’’کامیاب انسان‘‘ ضرور ہیں۔ میاں نواز شریف اتنے کامیاب ہیں کہ ایک اور کامیاب انسان آصف علی زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ جے آئی ٹی نے جو شہادتیں نواز شریف کے خلاف جمع کی ہیں اگر اتنی شہادتیں میرے خلاف جمع ہو جاتیں تو لوگ ایوان صدر میں گھس کر مجھے مارتے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ طاقت ور انسان اور کامیاب انسان اخلاقیات کا پابند تھوڑی ہوتا ہے۔ بلکہ کامیاب افراد نے اخلاقیات کے بارے میں کہہ رکھا ہے کہ اخلاقیات کمزوروں کے ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ چوں کہ کمزور لوگ طاقت ور اور کامیاب لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس لیے وہ اخلاقیات کی آڑ لیتے ہیں۔
میاں صاحب کی طاقت اور پیسے کی قوت کا یہ عالم ہے کہ ایک عیسائی تنظیم نے میاں صاحب کے پرستار بیرسٹر ظفر کے حوالے سے تھانے میں شکایت کی ہے کہ ان کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ قائم کیا جائے کیوں کہ عیسائی تنظیم کے بقول بیرسٹر ظفر نے اپنی گفتگو میں میاں صاحب کا موازنہ حضرت عیسیٰؑ سے کیا۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کراچی نے ایک تفصیلی خبر شائع کی ہے۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذکورہ خبر میں حیرت کی کوئی بات نہیں اس لیے کہ کمزور لوگ طاقت ور اور دولت مندوں المعروف کامیاب لوگوں کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آخر نمرود نے خدائی کا دعویٰ کیا ہی تھا اور اس کے دعوے پر یقین کرنے والے موجود تھے۔