مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ’’تم‘‘ ایک نواز شریف کو ہٹاؤ گے تو دوسرا شریف آجائے گا۔ دوسرے شریف کو سیاست سے منہا کرو گے تو تیسرا شریف آجائے گا۔ تیسرے شرف کو چلتا کرو گے تو چوتھا شریف آجائے گا۔ تجزیہ کیا جائے تو خواجہ سعد رفیق نے اس بیان کے ذریعے پاکستان اور پاکستانی قوم کی توہین کی انتہا کردی ہے۔ کیا پاکستان اتنا گھٹیا ملک اور پاکستانی قوم اتنی حقیر قوم ہے کہ اس کے مقدر میں شریفوں کی قیادت کے سوا کچھ نہیں لکھا ہوا؟ لوگ کہتے ہیں بادشاہت کا زمانہ گزر گیا مگر سعد رفیق نے بتایا ہے کہ پاکستان اس وقت بھی بادشاہت کے عہد میں سانس لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کے اجتماعی ذہن میں ایک ’’شریف بادشاہ‘‘ کے بعد دوسرا شریف بادشاہ طلوع ہورہا ہے۔ مگر بدقسمتی سے میاں نواز تو بادشاہ بھی نہیں۔ بادشاہت کے ادارے میں ہزار خامیاں ہوں گی مگر ایک خوبی بھی تھی اور وہ یہ کہ بادشاہت کا ادارہ بادشاہ کو اہل ترین بنانے کی پوری کوشش کرتا تھا۔ چناں چہ شہزادوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اتالیق مقرر کیے جاتے تھے جو انہیں مروجہ علوم و فنون کی تعلیم دیتے تھے۔ بادشاہوں کے لیے فن حرب کی تعلیم و تربیت کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا تھا۔ اس کے بعد بھی بادشاہ ’’بادشاہت‘‘ کے لیے کم پڑتا تھا تو اس کو بہترین وزیر اور مشیر مہیا کیے جاتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اکبر تقریباً ناخواندہ تھا مگر اس کے وزیروں اور مشیروں میں نو رکن یا نو ہیرے موجود تھے۔ اورنگ زیب کی شہرت یہ ہے کہ وہ علما کی صحبت کو پسند کرتا تھا۔ مگر میاں نواز شریف اور دیگر شریفوں کو علوم و فنون چھو کر بھی نہیں گزرے۔ ان کے علم، فہم اور ذہانت کا یہ عالم تھا کہ ایک زمانے میں وہ طاہر القادری کو ’’امام مہدی‘‘ سمجھا کرتے تھے۔ خیر سے میاں صاحب کے وزیروں اور مشیروں میں آج تک کسی پڑھے لکھے شخص کو نہیں دیکھا جاسکا۔ حالاں کہ میاں صاحب پچیس تیس سال سے بادشاہ سلامت بادشاہ سلامت کھیل رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو ایک شریف کے بعد دوسرے شریف کے خیال کی پشت پر تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کے نعرے کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے۔ لیکن ایک بھٹو کے بعد جو ’’بھٹوز‘‘ آئے ان کی حقیقت سے پوری قوم واقف ہے۔ ایک بار ہم نے پروفیسر غفور سے پوچھا کہ آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی قریب سے دیکھا ہے اور بے نظیر بھٹو کو بھی، آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ کو ان دونوں میں کیا فرق نظر آیا؟ کہنے لگے کہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی ذہانت کا سایہ بھی نہیں ہیں البتہ تکبر میں وہ اپنے والد سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ یہ ’’دوسرے بھٹو‘‘ کا معاملہ تھا۔ تیسرے بھٹو آصف علی زرداری تھے۔ بدقسمتی سے ان کا اصل تشخص یہ ہے کہ وہ پاکستان کے بدعنوان ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ چوتھے بھٹو بلاول ہیں۔ بلاشبہ ابھی تک انہوں نے کوئی بدعنوانی نہیں کی ہے مگر ان کی ذہنی صلاحیت آصف علی زرداری سے بھی کم ہے۔ ان کے فہم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ پینٹ شرٹ پہن کر سندھی ٹوپی کا دن مناتے ہیں اور اس موقع پر انگریزی میں تقریر فرماتے ہیں۔ اس تناظر میں دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک و قوم کو پہلے شریف کے بعد دوسرے، تیسرے اور چوتھے شریف کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے۔
میاں نواز شریف جب سے مشکل میں آئے ہیں ان کے حواری ان کے سلسلے میں اس تاثر کو عام کررہے ہیں کہ میاں صاحب سول اور فوجی کی کش مکش میں ’’سول‘‘ ہیں اور فوجی آمریت کے تناظر میں ’’جمہوری‘‘ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے میاں صاحب نہ ’’سول‘‘ ہیں، نہ جمہوری ہیں۔ ایسا ہوتا تو ان سے اختلاف رکھنے والے بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میاں صاحب کی مدد کرتے۔ یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کی زندگی تک میاں صاحب سادہ کپڑوں میں بھی ’’فوجی‘‘ تھے۔ جنرل ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد وہ مکمل فوجی سے ’’نیم فوجی‘‘ میں تبدیل ہوگئے۔ اس لیے کہ ایک جانب وہ جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہتے تھے اور دوسری جانب وہ سیاست میں تاجروں اور صنعت کاروں کے طبقے کی علامت بن کر اُبھرنا شروع ہوگئے تھے۔ اگرچہ میاں صاحب اب جنرل ضیا، جنرل جیلانی اور جنرل حمید گل کے زمانے سے بہت دور نکل آئے ہیں لیکن جنرل ضیا لحق کے فرزند اعجاز الحق نے چند روز پیشتر ہی فرمایا ہے کہ میاں نواز شریف کو آج بھی جنرل ضیا الحق سے تعلق کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں اعجاز الحق کا حوالہ ایک کمزور حوالے کی حقیقت رکھتا ہے۔ میاں صاحب کے اب بھی نیم فوجی ہونے کے سلسلے میں خود میاں صاحب کی فراہم کی ہوئی شہادتیں زیادہ قوی ہیں۔ ان میں سے ایک شہادت یہ ہے کہ میاں صاحب اقتدار میں آئے تھے تو وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے مگر جنرل راحیل شریف نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا اور میاں صاحب کو بالآخر اس آپریشن کی حمایت کرنی پڑی۔ جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ بھی اہم تھا۔ میاں صاحب جنرل پرویز پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے اور جنرل پرویز پر مقدمہ ضرور چلنا چاہیے تھا۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے جنرل پرویز کو بچا لیا اور ملک سے فرار ہونے میں ان کی ہر ممکن مدد کی۔ بدقسمتی سے یہاں بھی میاں صاحب نے بالآخر وہی کیا جو جرنیلوں نے چاہا۔ عمران خان کے دھرنے کی پشت پر بھی جرنیل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میاں صاحب دھرنے پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کیا تو میاں صاحب نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ غالباً اتنی مثالیں میاں صاحب کو ’’نیم فوجی‘‘ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بدقسمتی سے میاں صاحب کا ریکارڈ جمہوریت کے سلسلے میں اور بھی خراب ہے۔ نواز لیگ کو قائم ہوئے دو دہائیاں ہوگئیں مگر میاں صاحب کی جماعت میں آج تک حقیقی انتخابات کی راہ ہموار نہیں ہوسکی ہے۔ حالاں کہ نواز لیگ پر شریف خاندان کا ایسا قبضہ ہے کہ انتخابات ہوں گے تو ان میں میاں صاحب ہی فتح مند رہیں گے۔ مگر میاں صاحب یہ درد سر مول نہیں لیتے۔ چناں چہ نواز لیگ میں ’’نمائشی انتخابات‘‘ ہوتے رہتے ہیں۔ میاں صاحب کی جمہوریت بیزاری کی ایک مثال یہ ہے کہ اہم فیصلے کرتے ہوئے وہ کسی اور سے کیا اپنی کابینہ سے بھی مشورہ نہیں کرتے۔ میاں صاحب کی جمہوریت نوازی اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ میاں صاحب قومی اسمبلی میں مشکل ہی سے تشریف لاتے ہیں۔ اس کے باوجود نواز لیگ کے رہنما جمہوریت جمہوریت کا شور مچاتے رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ساری جمہوریت اس بات میں ہے کہ میاں صاحب کی جماعت کو باقی جماعتوں سے زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں۔ تو کیا جمہوریت صرف انتخابات اور اکثریت کا نام ہے؟ لیکن اکثریت تو قومی سطح پر ہٹلر، مودی اور شہری سطح پر الطاف حسین کو بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ حالاں یہ تینوں شخصیات اپنی اصل میں فاشسٹ ہیں۔ دیکھا جائے تو انسان ایک انتہائی پیچیدہ مخلوق ہے۔ بعض اوقات وہ ایسی ’’عادتوں‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے تباہ کرنے والی ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود وہ ان عادتوں کو نہیں چھوڑتا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ لوگ سگریٹ پیتے ہیں۔ ان سب لوگوں کو معلوم ہے کہ سگریٹ صحت کے لیے خطرناک ہے مگر وہ سگریٹ نوشی ترک نہیں کرتے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 25 سے 30 لاکھ کے درمیان ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر سگریٹ نوشی یا منشیات کے استعمال کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ وطن عزیز میں قوم پرستی، لسانیت اور صوبہ پرستی بھی ایک ’’سیاسی نشے‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ چناں چہ میاں نواز شریف سمیت کسی بھی رہنما کو اپنی اکثریت یا ووٹوں کی تعداد پر ’’اترانا‘‘ نہیں چاہیے۔ خاص طور پر نواز لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو۔ دیکھا جائے تو ملک میں صرف ایک جماعت ہی حقیقی معنوں میں قومی جماعت ہے۔ یعنی جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی کا اصل تشخص نسل، زبان اور جغرافیہ نہیں اسلام ہے۔ چناں چہ جماعت اسلامی کسی کی جماعت نہیں اور سب کی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کو ووٹ کم ملتے ہیں مگر جماعت اسلامی کا ایک ووٹ دوسری جماعتوں کے ہزار ووٹوں پر بھاری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ نظریے کی بنیاد پر پڑنے والا ووٹ ہوتا ہے، پالیسی کی بنیاد پر پڑنے والا ووٹ ہوتا ہے۔