گواہ عدالتوں میں جج کے روبرو کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ہم سچ کہیں گے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہیں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ جب تاریخ کے روبرو کھڑے ہوتے ہیں تو صرف غلط کہتے ہیں اور غلط کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ اس سلسلے میں فوجی اور سول حکمرانوں کے درمیان مقابلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس دوڑ میں کبھی فوجی آمر آگے نکل
جاتے ہیں اور کبھی نام نہاد سول حکمران فتح مند ٹھیرتے ہیں۔
اس سلسلے کی تازہ ترین واردات جنرل پرویز مشرف کا انٹرویو ہے۔ جنرل صاحب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ فوجی آمروں نے ہمیشہ ملک کو ٹھیک کیا ہے البتہ جب بھی سول حکمران آتے ہیں ملک کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ایوب کے دس سالہ دور میں ملک نے ریکارڈ ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان توڑنے میں فوج کا نہیں بھٹو کا قصور تھا۔ البتہ کچھ الزام یحییٰ خان پر بھی آتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جنرل ضیا الحق کا دور متنازع تھا۔ جنرل پرویز کے بقول جنرل ضیا نے ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی جانب دھکیلا۔ جنرل پرویز نے مزید کہا کہ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت، کمیونزم ہو یا سوشلزم یا بادشاہت عوام کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ عوام کو ترقی، خوشحالی اور تحفظ درکار ہوتا ہے۔
وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں باالخصوص فوجی حکمرانوں کو ’’نیم خواندہ‘‘ تسلیم کرنا بھی محال محسوس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ان کی تہذیبی، علمی اور فکری پسماندگی ہے۔ اب مثلاً مسلمان کہلانے والے جنرل پرویز مشرف کا تصور انسان یا تصور عوام یہ ہے کہ وہ حیوانوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ جس طرح حیوانوں کو صرف غذا اور تحفظ درکار ہوتا ہے اس طرح عوام کو بھی روٹی روزی کے سوا کچھ درکار نہیں ہوتا۔ لیکن مذہب، تہذیب اور تاریخ کا تجربہ ہمیں کچھ اور ہی بتاتا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ انسان اپنی اصل میں ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلاشبہ اسے روٹی روزی بھی درکار ہوتی ہے لیکن روٹی روزی سے انسان کی تعریف متعین نہیں ہوتی اس لیے سیدنا عیسیٰؑ نے فرمایا ہے کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے عوام کو حیوانات کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ سوویت یونین کمیونزم کی جنت تھا اور سوویت یونین میں ہر شخص کے پاس گھر تھا۔ ہر شخص کے پاس روزگار تھا۔ ہر شخص کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے غذا تھی۔ یہاں تک کہ سوویت یونین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہوئے تھے تاہم ان تمام باتوں کے باوجود سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ ریاست نے اپنے شہریوں کی گہری روحانی، نفسیاتی اور ذہنی ضروریات کو نظر انداز کیا۔ چناں چہ سوویت یونین کے عوام کی عظیم اکثریت خوشحالی، ترقی اور تحفظ کی دستیابی کے باوجود سوویت یونین سے غیر متعلق ہوگئی۔ مغربی دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مادی ترقی کی معراج حاصل کرچکی ہے۔ لیکن مغربی دنیا کے فلسفی، مورخین اور دانش ور کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب مر رہی ہے۔ ان امور کو پیش نظر رکھ کر جنرل پرویز مشرف کے خیالات کو دیکھا جائے تو ان کی سطحیت پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آجاتی ہے اور آدمی سوچنے لگتا ہے کہ کیا جنرل پرویز نے کبھی اسکول کا منہ بھی دیکھا ہوگا؟
جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی تاریخ کو فوجی اور سول حکمرانوں کی تاریخ قرار دیا ہے۔ یہ خیال دس بیس فی صد نہیں سو فی صد غلط ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ فوجی اور سول حکمرانوں کی تاریخ نہیں ہے۔ بلکہ فوجی اور نیم فوجی حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ اس فقرے کی مزید وضاحت کی جائے تو کہا جائے گا کہ پاکستان کے 70 سال میں سے 34 سال جرنیل پاکستان کے حکمران رہے ہیں۔ رہا باقی عرصہ تو وہ اس عرصے میں پردے کے پیچھے بیٹھ کر نام نہاد سول حکمرانوں کو ’’Dictation‘‘ دیتے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی پوری تاریخ ہی دراصل فوجی آمروں کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں صرف بھٹو صاحب کے پانچ سال ایسے ہیں جن پر جرنیلوں کا سایہ نہیں ہے۔ لیکن جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ اُلٹا تو ثابت ہوگیا کہ بھٹو دور میں جرنیل خاموش تھے مگر سیاست اور اقتدار سے لاتعلق نہیں تھے۔ انہیں جیسے ہی موقع ملا انہوں نے ’’کام‘‘ دکھا دیا۔ ان حالات میں سول حکمران ملک کا بیڑا غرق نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب تو جرنیل سول حکمرانوں کو نااہل اور کرپٹ کہتے ہیں اور دوسری جانب ملک کی پوری تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جرنیلوں کو ’’اہل‘‘ اور ’’ایماندار‘‘ سول قیادت درکار ہی نہیں۔ ایسا ہوتا تو جرنیل نواز شریف اور الطاف حسین جیسے کردار تخلیق کرتے نہ انہیں طاقت ور بناتے۔ مگر جرنیلوں کو اہل اور ایماندار قیادت کیوں درکار نہیں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ اہل اور ایماندار لوگ جرنیلوں کی کٹھ پتلیوں میں نہیں ڈھل سکیں گے اور اگر ڈھل جائیں گے تو ’’تماشا‘‘ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔
بلاشبہ وطن عزیز میں جرنیلوں کے دور حکومت میں ملک کی معیشت قدرے بہتر رہی ہے۔ لیکن اس کا ایک سبب ہے۔ جنرل ایوب نے
پوری طرح امریکا کی غلامی اختیار کرلی تھی، چناں چہ امریکا کی اقتصادی امداد مسلسل پاکستان کو فراہم ہوتی رہی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں افغان جہاد کا معاملہ سامنے آگیا اور پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امداد مہیا کرنا امریکا کے لیے ضروری ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنا دیا۔ ان کی بش پرستی اتنی بڑھی کہ مغربی ذرائع ابلاغ انہیں ’’جنرل بشرف‘‘ قرار دینے لگے۔ جنرل پرویز کی بش پرستی نے پاکستان کو جہنم بنادیا۔ مگر اس کے صلے میں جنرل پرویز کو امریکا کی جانب سے مالی وسائل مہیا ہوتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجی آمروں میں سُرخاب کے پَر نہیں لگے ہوئے تھے بلکہ انہیں ایسا دور فراہم ہوا جب وہ مغرب کی ضرورت بن گئے اور اس ضرورت کی وجہ سے پاکستان کو غیر ملکی امداد مسلسل فراہم ہوتی رہی۔ لیکن پاکستانی قوم نے اس امداد کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ اس لیے کہ جرنیلوں نے ملک کی آزادی کا سودا کیا۔ قوم کو قرضوں کی معیشت کا عادی بنایا اور ملک کی معیشت کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا۔
جنرل پرویز کا کہنا ہے کہ ملک دولخت ہوا تو یہ بھٹو صاحب کا قصور ہے البتہ تھوڑی بہت غلطی جنرل یحییٰ سے بھی ہوئی۔ تجزیہ کیا جائے تو جنرل پرویز نے یہاں بھی غلط بیانی کی انتہا کردی ہے۔ بلاشبہ بھٹو صاحب سقوطِ ڈھاکا کے سانحے کا ایک اہم کردار ہیں مگر اصول ہے کہ ملک کی خوبی اور خرابی کا اصل ذمے دار ’’طاقت کا مرکز‘‘ ہوا کرتا ہے۔ یعنی ملک میں اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو اس کا سبب ’’طاقت کا مرکز‘‘ ہوتا ہے اور اگر ملک میں کچھ بُرا ہوتا ہے تو اس کی وجہ بھی طاقت کا مرکز ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 1971ء میں ’’طاقت کا مرکز‘‘ جنرل یحییٰ تھے۔ بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن نہیں۔ جنرل یحییٰ ہی ملک کے صدر تھے۔ وہی آرمی چیف تھے۔ سارے اختیارات انہی کے پاس تھے۔ بلاشبہ بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن عوام میں مقبول تھے۔ لیکن جرنیلوں کی نظر میں کبھی عوام کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ 1971ء میں بھی جنرل یحییٰ کی نظر میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہوتی تو وہ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کردیتے، اس لیے کہ شیخ مجیب کو ملک کے عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ بھٹو صاحب بھی مغربی پاکستان میں مقبول تھے مگر بھٹو صاحب تو 1977ء میں بھی عوام میں مقبول تھے لیکن جنرل ضیا الحق نے اس کی پروا نہ کی اور ایک ہلّے میں بھٹو صاحب کو اقتدار سے بھی محروم کردیا اور انہیں پھانسی پر بھی چڑھا دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھٹو 1971ء میں جنرل یحییٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے تھے۔ مطلب یہ کہ کیوں کہ بھٹو صاحب طاقت کا مرکز نہ تھے اس لیے وہ ملک کو توڑنے کے بھی ذمے دار نہ تھے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ طاقت سے محروم ہو کر بھی بھٹو صاحب ملک توڑ سکتے تھے تو پھر جنرل یحییٰ طاقت کا مرکز ہونے کی وجہ سے یہ کام بھٹو صاحب سے ہزار گنا بہتر طریقے سے کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ مگر جنرل پرویز کو حقائق، دلائل اور ملک و قوم سے کیا لینا دینا۔ ان کے لیے تو جرنیلوں کے ’’فرقے‘‘ کا دفاع ہی سب کچھ ہے۔ اصول ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔
ہمارے فوجی آمروں کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ فوجی حکمرانوں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے فوجی آسمان سے اُتری ہوئی مخلوق ہوں۔ حالاں کہ تمام فوجی، فوجی تربیت سے پہلے عام شہری ہی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز فوجی تربیت ہے۔ اب اگر فوجی تربیت انسان، فرشتہ، عقبری یا Genius اور حب الوطنی سے لبریز بنادیتی ہے تو جرنیلوں کو چاہیے کہ وہ پوری قوم کو فوجی تربیت مہیا کردیں۔ اس سے سول اور فوجی کی تفریق بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ حمام میں سب ہی ساتر لباس پہنے ہوں گے۔