سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اکثر ’’پارٹ ٹائم انقلابی‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم نے ’’گورا صاحب‘‘ سے تو آزادی حاصل کرلی مگر آزادی کے بعد ہم پر ’’کالا صاحب‘‘ مسلط ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے جاگیردار اور صنعت کار کالا صاحب کے اتحادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ تنظیمیں نئی نسلوں کی تعلیم میں اہم کردار ادا کرتی تھیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے ان کا گلہ گھونٹ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار طلبہ یونین کی بحالی کی کوشش کی مگر اسٹیبلشمنٹ آڑے آگئی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ طلبہ یونین کی بحالی کی صورت میں تعلیمی اداروں کی ایسی تصویر پیش کرتی ہے جس میں مایوس اور تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
رضا ربانی کا یہ تجزیہ سو فی صد درست ہے کہ ہم نے سفید فام انگریزوں سے تو آزادی حاصل کرلی مگر آزادی کے بعد ہم پر کالے انگریز مسلط ہوگئے۔ رضا ربانی کی یہ بات بھی درست ہے کہ ملک کے جاگیردار، وڈیرے اور صنعت کار کالے انگریزوں کے اتحادی اور آلہ کار ہیں۔ لیکن یہ بات کہہ کر رضا ربانی نے پیپلز پارٹی اور خود اپنی ذات پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ اس لیے کہ پیپلز پارٹی کل بھی جاگیرداروں کی پارٹی تھی اور آج بھی جاگیرداروں کی پارٹی ہے۔ مگر رضا ربانی بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی کالے انگریزوں کی اتحادی جماعت کا حصہ تھے اور آج بھی کالے انگریزوں کی آلہ کار جماعت کا حصہ ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی قومی سیاست کا ایک اہم نام ہیں مگر بھٹو صاحب صرف نام کے نہیں کام کے بھی جاگیردار تھے۔ یعنی ان کی ذہنیت بھی جاگیردارانہ تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھٹو صاحب کی فکر کا سنجیدہ تجزیہ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حقیقی تصویر قوم کے سامنے نہ آسکی۔ بھٹو صاحب کی فکر کا ایک پہلو ان کا یہ نعرہ تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ اس نعرے کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اس نعرے کے تینوں اجزاء ایک دوسرے کی ضد تھے۔ اسلام کا سوشلزم سے اور سوشلزم کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس نعرے کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ اس نعرے کے تینوں اجزاء اپنی اپنی جگہ جداگانہ وحدت تھے اور ان کے درمیان کوئی نامیاتی یا Organic رابطہ نہ تھا۔ اس نعرے کی تیسری ’’مشکل‘‘ یہ تھی کہ خود بھٹو صاحب نہ اسلامسٹ تھے، نہ جمہوری تھے، نہ سوشلسٹ تھے۔ اسلام بھی ان کے لیے ایک نعرہ تھا۔ جمہوریت بھی ان کے لیے ایک نعرہ تھی اور سوشلزم بھی ان کے لیے محض ایک نعرہ تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ بھٹو صاحب صرف اور صرف ایک مفاد پرست اور اقتدار پسند تھے۔ ان کی عوام دوستی بھی ایک ڈھکوسلا تھی،
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار انہوں نے اصغر خان سے کہا تھا کہ اگر تم میرے ساتھ مل جاؤ تو ہم دونوں طویل عرصے تک عوام کو بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب سے متعلق یہ حقائق ’’راز‘‘ نہ تھے مگر رضا ربانی کو بھٹو صاحب کی پوری زندگی میں کبھی ان حقائق کا ادراک نہ ہوا۔ بھٹو صاحب کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر پیپلز پارٹی کی سربراہ بن گئیں۔ مگر بدقسمتی سے وہ بھی اپنے والد کی طرح جاگیردار ہی تھیں۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح کبھی پیپلز پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہ ہونے دیا۔ رہا سوشلزم تو بے نظیر کے لبوں پر کبھی سوشلزم کا لفظ نہ دیکھا گیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، سوشلزم 1991ء میں ’’آنجہانی‘‘ ہوچکا تھا اور ایک مردہ نظریے کو سینے سے لگانا سیاسی اعتبار سے سود مند نہ تھا۔ مگر بے نظیر کے زمانے میں بھی رضا ربانی کو کبھی خیال نہ آیا کہ پیپلز پارٹی کالے انگریزوں کی اتحادی ہے۔ اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں اور بے نظیر ایک جدید اور تعلیم یافتہ جاگیردارنی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
بھٹو صاحب کی شخصیت میں کئی کمزوریاں تھیں مگر بھٹو صاحب بدعنوان نہ تھے مگر بے نظیر بھٹو کے دور میں ان کے شوہر آصف زرداری ملک میں بدعنوانی کی بڑی علامت بن کر اُبھرے اور بدعنوانی کالے انگریزوں کا ایک بڑا مرض ہے۔ مگر رضا ربانی کو کبھی اس بات پر اعتراض کرتے نہیں دیکھا گیا کہ پیپلز پارٹی کا ’’امیج‘‘ ایک کرپٹ پارٹی کے ’’امیج‘‘ میں کیوں تبدیل ہوگیا ہے؟۔ رضا ربانی کو اگر کچھ دکھائی دیتا ہے تو بس یہ کہ پیپلز پارٹی ایک ’’ترقی پسند‘‘ جماعت ہے۔ مگر کیا کالے انگریزوں کا اتحادی ہونا، جمہوریت کو پارٹی سے باہر کھڑے رکھنا اور بدعنوانی کے ریکارڈ توڑنا ہی ’’ترقی پسندی‘‘ ہے؟ تجربہ بتاتا ہے کہ پارٹ ٹائم انقلابی انسان کو کبھی ایسے سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرنے دیتی۔
رضا ربانی کی گفتگو میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا ذِکر بھی خوب ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور رضا ربانی بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مختصر سے عرصے کے سوا پیپلز پارٹی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی رہی ہے۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی ’’ایجاد‘‘ تھے اور وہ احتراماً جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ 1970ء کی دہائی کے ابتدائی عرصے میں بھٹو صاحب اور جنرل یحییٰ کا گٹھ جوڑ بدنام زمانہ تھا۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کی شاندار مزاحمت کی۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے جنرل پرویز کی حمایت میں جلوس نکالا اور جنرل پرویز کی آمد کا خیر مقدم کیا۔ جنرل پرویز دس سال ملک پر مسلط رہے اور اس طویل عرصے میں پیپلز پارٹی نے فوجی آمریت کو ’’اُف‘‘ تک نہ کہا۔ بلکہ پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز کے ساتھ این آر او پر دستخط کیے۔ جنرل پرویز کے دور میں بے نظیر قتل ہوئیں اور انہوں نے کہہ رکھا تھا کہ اگر میں قتل ہوئی تو اس کے ذمے دار جنرل پرویز ہوں گے مگر بے نظیر کے قتل کے بعد آصف علی زرداری پانچ سال تک ملک کے صدر رہے۔
وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی مگر بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیق ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کردیا گیا۔ بے نظیر یہ تو کہتی رہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کا قاتل کون ہے مگر انہوں نے کبھی اس قاتل کا نام قوم کو نہ بتایا۔ سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے اس صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا مگر بے نظیر میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے یہ لفظ زبان پر لاتیں۔ یہ بات بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی۔ اس سلسلے میں سینیٹ سے بل منظور ہوا تو رضا ربانی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر بل کی حمایت کی۔
اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو ضرورت اس بات کی تھی کہ رضا ربانی سینیٹ کی چیئرمین شپ اور پیپلز پارٹی کی رکنیت سے استعفا دیتے اور کہتے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے پر مہر تصدیق ثبت کرکے ملک میں آزاد عدلیہ کی اہمیت پر کوئی سمجھوتے بازی نہیں کرسکتے۔
مگر رضا ربانی اس اہم موقعے پر صرف آنکھوں میں آنسو بھر کر رہ گئے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس موقعے پر ان کا کردار خود ایک کالے انگریز کا تھا۔
رضا ربانی نے یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو کام کرتے نہیں دیکھنا چاہتی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بات کہنے والوں نے اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کی کتنی مزاحمت کی ہے۔ جنرل ضیا الحق کے بعد پیپلز پارٹی تین بار اقتدار میں آئی ہے مگر اس نے ایک بار بھی طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے۔ وہ چاہے تو سندھ کے دائرے میں طلبہ یونین بحال ہوسکتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت سندھ نے اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے برعکس نیب کو غیر موثر بنانے کے لیے تو قانون سازی کی ہے مگر طلبہ یونین کی بحالی آج تک سندھ اسمبلی میں زیر بحث بھی نہیں آسکی ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ مزے کی بات ہے کہ اس کے باوجود رضا ربانی خود کو اور اپنی جماعت کو ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ باور کراتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رضا ربانی صاحب کی پارٹ ٹائم انقلابیت پارٹی ٹائم بھی نہیں رہتی۔ اس کے برعکس اس سے ’’جعلی انقلابیت‘‘ کی بُو آنے لگتی ہے۔