تمام اسلام دشمن طاقتوں کا مشترکہ ’’مفروضہ‘‘ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اس مفروضے کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک چیز حسد ہے اور دوسری چیز جہالت ہے۔ اسلام سے حسد کا معاملہ یہ ہے کہ مذاہب عالم کی تاریخ میں اسلام سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔ رسول اکرمؐ کے دور نبوت سے حضرت عمرؓ کی خلافت تک کا عرصہ صرف 35 سال پر مشتمل ہے۔ لیکن اتنی قلیل مدت میں اسلام 22 لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط ریاست قائم کرچکا تھا۔ یہ اتنی بڑی اور حیرت انگیز کامیابی ہے کہ مغرب کے مورخین تک اس کا ذکر عصبیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی جدید ہندوستان کے بانی ہیں اور انہوں نے حضرت عمرؓ کے کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کو مزید دس سال مہیا ہو جاتے تو پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوتا۔ دوسرے مذاہب کے تھڑدلے لوگ اسلام کی اس تاریخ کو دیکھتے ہیں اور اپنے مذاہب کی تاریخ سے اس کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں حسد کا طوفان اُٹھتا ہے اور چیخنے لگتے ہیں کہ اسلام پھیلا ہے تو تلوار کے ذریعے۔ یہاں سے ان کی لاعلمی کا تماشا شروع ہوتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مسلمانوں نے جغرافیہ طاقت ہی کے ذریعے فتح کیا لیکن مسلمانوں نے صرف جغرافیہ ہی فتح نہیں کیا، مسلمان جہاں گئے انہوں نے ایک تہذیبی تجربہ خلق کیا اور تہذیبی تجربہ اس وقت تک خلق نہیں ہوسکتا جب تک آپ مفتوحین کے دل اور دماغ کو فتح نہ کریں۔ اس سلسلے میں تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دل اور دماغ کبھی طاقت سے فتح نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں نے مفتوحین کے دل و دماغ فتح کیے تو صرف دو چیزوں کے ذریعے۔ یعنی تقویٰ اور علم۔ تقوے کو اللہ تعالیٰ نے یہ استعداد عطا کی ہے کہ وہ دلوں کو مسخر کرتا ہے اور علم کا کمال یہ ہے کہ وہ اذہان کو ختم کرتا ہے۔
تقوے اور علم کے امتزاج سے مسلمانوں نے ایک برتر تہذیب پیدا کی۔ اس برتر تہذیب نے بھی مفتوحین کو اسلام کی جانب راغب کیا۔ مسلمانوں کے تقوے، علم اور ان کے تہذیبی تجربے کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ تاتاریوں نے عسکری قوت کے ذریعے مسلمانوں کے سیاسی مرکز بغداد پر قبضہ کرلیا تھا مگر مسلمانوں کے مذہب اور تہذیبی اوصاف نے تاتاریوں کی دوسری نسل کو منقلب کرکے مسلمان بنادیا۔ چناں چہ اقبال نے کہا
ہے یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مسلمانوں کے تہذیبی تجربہ خلق کرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان فتح کیا تو یہاں ایک نیا تہذیبی نمونہ یا ماڈل تخلیق کیا۔ اس نمونے کو ہند اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس تہذیب کے بنیادی اصول وہی ہیں جو مدینے اور بغداد کی تہذیب کے اصول تھے مگر ہندوستان میں ان اصولوں کے ’’اظہار‘‘ پر ’’مقامیت‘‘ کا رنگ غالب ہے۔ مسلمان اسپین گئے تو وہاں بھی انہوں نے ایک نیا تہذیبی نمونہ پیدا کیا۔ اس تہذیبی نمونے کے بنیادی اصول بھی وہی تھے جو مدینے اور بغداد کے تہذیبی نمونے کے اصول تھے مگر یہاں بھی اصول کے ’’اظہار‘‘ پر مقامی فن کا گہرا اثر تھا۔ غور کیا جائے تو ان باتوں کا ہمارے عصر سے گہرا تعلق ہے۔
اس وقت بساط عالم پر نظر ڈالی جائے تو اسلام اور مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس نہ عسکری طاقت ہے، نہ سیاسی طاقت ہے، اسلام اور مسلمانوں کے پاس نہ اقتصادی قوت ہے نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہتھیار ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود دنیا میں ہر سال ہزاروں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں۔ ان لوگوں میں مفکرین بھی ہیں، دانش ور بھی، سفارت کار بھی ہیں، صحافی بھی، گلوکار بھی ہیں اداکار بھی، پیشہ ور بھی ہیں اور عام لوگ بھی۔ ان افراد میں ہندو بھی ہیں، یہودی بھی اور عیسائی بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسلام کو ’’عورت دشمن‘‘ مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں 60 فی صد خواتین ہیں۔ مغرب اور ہندوستان میں خواتین اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں، یہاں تک کہ ہندوستان میں ہندو لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کو ہندو انتہا پسندوں نے ایک ’’اسکینڈل‘‘ بنادیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمان Love Jihad کے منصوبے کے تحت ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر مسلمان کررہے ہیں۔
اس حوالے سے یوپی سمیت بھارت کی کئی ریاستوں میں زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ یوپی کے اسلام اور مسلمان دشمن وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی فرماچکے ہیں کہ مسلمان ہماری ایک لڑکی کو ’’Convert‘‘ کریں گے تو ہم مسلمانوں کی 100 لڑکیوں کو ’’Convert‘‘ کریں گے۔ اس حوالے سے بھارتی ریاست کیرل میں یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ ملک کے ایک خفیہ ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے کی تحقیق کرے۔ اس صورتِ حال کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان تعلیم، معاشیات، سماجیات اور سیاست کے میدانوں میں ہندوؤں سے بہت پیچھے ہیں۔ یعنی مسلمان لڑکے ان حوالوں سے ہندو لڑکیوں کے لیے ایک فی صد بھی ترغیب و تحریص یا Attraction کا سبب نہیں ہوسکتے۔ اس کے باوجود ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے بڑی تعداد میں شادیاں کرکے مسلمان ہورہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جدید دنیا میں اسلام کے پھیلنے کا راز کیا ہے؟
اس کا ایک راز اسلام کا ’’اصول توحید‘‘ ہے۔ مغربی دنیا میں مفکرین اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ یہ ہے کہ جدیدیت نے انسانی زندگی کی تفہیم کے کسی ایک اصول کو باقی نہیں رہنے دیا۔ مثلاً مغرب کا علم سیاست انسان کو سیاسی حیوان کہتا ہے۔ عمرانیات انسان کو معاشرتی حیوان کہتی ہے، اقتصادیات انسان کو معاشی حیوان سمجھتی ہے، حیاتیات انسان کو حیاتیاتی وجود قرار دیتی ہے۔ نفسیات انسان کو جبلتوں یا Instinct کا مجموعہ کہتی ہے۔ اس صورتِ حال نے انسان کی زندگی میں ’’معنی کا بحران‘‘ پیدا کردیا ہے۔ اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ اصول توحید کے ذریعے پوری زندگی اور کائنات کی تفہیم کو ممکن بنا دیتا ہے اور اس کا تصور انسان ظہور اسلام سے اب تک کبھی تبدیل نہیں ہوا۔ بلاشبہ اصول توحید دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے مگر ہندو ازم اور عیسائیت نے شرک ایجاد کرکے اس اصول کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم اسلام لانے والے ایسے درجنوں عیسائیوں کا احوال پڑھ چکے ہیں جنہوں نے بتایا ہے کہ عیسائیت کا اصول تثلیث کبھی ان کو سمجھ نہ آسکا۔
اس کے برعکس انہوں نے اسلام میں اصول توحید کو دیکھا تو ان کو فوراً یقین آگیا کہ یہی خدا کا حقیقی اور Original تصور ہے۔ اس لیے کہ حقیقی خدا وہی ہوسکتا ہے جس کی خدائی میں کوئی شریک نہ ہو۔ ہندوستان میں ذاکر نائیک نے جتنے ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام کیا ہے ان کی بڑی تعداد کے لیے مقبول عوام ہندوازم کا شرک ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگی کا باعث بنتا تھا۔ ذاکر نائیک کی تقریروں سے انہیں معلوم ہوا کہ ہندوازم کی مقدس کتب میں ایک خدا کا تصور موجود ہے مگر مقبول عوام ہندو ازم میں ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 3 کروڑ خداؤں کا تصور موجود ہے۔ اس کے برعکس اسلام ابتدا سے اب تک صرف ایک خدا کے تصور پر کھڑا ہے۔
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس چیز سے متاثر ہوتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ مغرب جدیدیت کے زیر اثر خاندان کے ادارے سے محروم ہوچکا ہے۔ مسلمانوں میں بھی خاندان کے ادارے کی صورت حال خراب ہوچکی ہے مگر اس صورت حال کا مغرب کے تجربے سے موازنہ ممکن نہیں۔ مغرب کے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے درمیان موجود مسلمانوں کو ’’خاندانی زندگی‘‘ بسر کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ اچھی خاندانی زندگی ہر انسان کا خواب ہے مگر خواتین میں اچھی خاندانی زندگی کے لیے زیادہ کشش ہوتی ہے۔ مغرب میں اخلاقیات اور خاندان کے ادارے کی تباہی نے خاندانی انسان یا ’’Family man‘‘ کے تصور کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ بلاشبہ مسلم نوجوان بھی ہزاروں عیب در آئے ہیں مگر مغرب کی خواتین کو مسلم نوجوان مقامی نوجوانوں سے ہزار گنا زیادہ Family man اور ’’وفادار ساتھی‘‘ نظر آتے ہیں۔ یہی معاملہ ہندوستان میں لڑکیوں کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ہے۔
بھارت کے مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی حالت تو ہندوؤں کے مقابلے پر خراب ہے مگر ان کی تہذیبی اور خاندانی زندگی ہندوؤں کی تہذیبی اور خاندانی زندگی سے بہت بہتر ہے۔ یہ بات ہندو لڑکیاں اپنے مشاہدے اور تجربے سے جانتی ہیں۔ اس لیے وہ ہندو لڑکوں کے مقابلے پر مسلمان لڑکوں میں زیادہ ’’کشش‘‘ محسوس کررہی ہیں۔ یہ کشش صرف جسمانی کشش نہیں ہے بلکہ یہ پوری تہذیبی شخصیت یا Personality Package کی کشش ہے۔بدقسمتی سے خود مسلمانوں کو اپنی ان خوبیوں کا شعور نہیں، یہاں ہمیں جرمنی کے ممتاز دانش ور مراد ہوف مین سے ہونے والی ایک ملاقات یاد آرہی ہے۔ اس ملاقات میں ہم نے مراد ہوف مین سے پوچھا کہ آپ مسلمان کیوں ہوئے؟ کہنے لگے میں الجزائر کی جنگ آزادی کے زمانے میں الجزائر میں جرمنی کا سفیر تھا۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان جنگ آزادی میں بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔
ان کے گھروں سے روز جنازے اُٹھ رہے ہیں مگر مسلمان ان قربانیوں پر رونا دھونا نہیں مچارہے۔ ان پر شور و غوغا نہیں برپا کررہے۔ بلکہ وہ ان قربانیوں کے دُکھ کو بڑے وقار کے ساتھ برداشت اور جذب کررہے ہیں۔ میں ان کے اس طرز عمل سے بہت حیران ہوا اور میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس طرزِ عمل کی پشت پر کیا ہے؟۔ میں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ اس رویے کی پشت اسلام ہے۔ یہی چیز مجھے متاثر کن لگی اور میں مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں کے عیبوں، خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنا حماقت ہے لیکن مسلمانوں کی خوبیوں، ان کی مذہبی اور تہذیبی زندگی کے حسن و جمال پر پردہ ڈالنا اور اسے شعور میں نہ لانا بھی بہت بڑی حماقت بلکہ بہت بڑا ظلم اور جبر ہے۔ ہماری ضرورت ایک ’’متوازن شعور‘‘ ہے اس کے بغیر ہم اسلام اور اُمت مسلمہ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتے۔