دانش وروں اور صحافیوں کا اصل تصور یہ ہے کہ وہ شعور اور ضمیر کے علمبردار ہوتے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دانش وروں اور صحافیوں کی اکثریت شعور اور ضمیر کے غداروں پر مشتمل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل دل دہلا دینے والی ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ابتدا میں قیام پاکستان کے خلاف تھی لیکن بعدازاں اس نے پاکستان کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹی کو ایک ’’نئی مملکت‘‘ میں ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ کے حوالے سے خوش گمانیاں لاحق ہوگئی تھیں۔ غالباً انہیں ’’ماسکو‘‘ سے بھی یہی مشورہ ملا ہوگا۔ یہاں ماسکو کا ذکر اتفاقاً نہیں ہوا ہے۔ ماسکو کمیونسٹوں کا کعبہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد سوشلسٹوں نے اپنے شعور اور اپنے ضمیر کو ماسکو کے تابع کردیا۔ ان کے لیے اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ بے معنی الفاظ تھے۔
انہیں پاکستان اور پاکستانی قوم کے روحانی، تہذیبی، تاریخی اور ملی نصب العین سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ نہ اپنے ذہن سے سوچتے تھے نہ اپنے ذہن سے سمجھتے تھے۔ ماسکو سے ان کے لیے جو پالیسی یا فکری غذا آجاتی تھی وہ اس پر قناعت کرتے تھے۔ پاکستان عصر حاضر کا سب سے بڑا خواب تھا، پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی، پاکستان برصغیر کی ملت اسلامیہ کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز تھا، قیام پاکستان ایک معجزہ تھا۔ مگر اس ملک سے بائیں بازو کا تعلق یہ تھا کہ اردو کا سب سے بڑا سوشلسٹ فیض احمد فیض نے قیام پاکستان پر شاعرانہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
قیام پاکستان پر اس سے زیادہ شرمناک اور سفاک تبصرہ ممکن نہیں تھا۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے حوالے سے ہونے والے مسلم کش فسادات میں لاکھوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں عصمتیں تار تار ہوئیں۔ لیکن تاریخ میں بڑی جدوجہد کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب 4 کروڑ افراد کو نگل گیا۔ روس کے کمیونسٹ انقلاب میں 80 لاکھ لوگ قتل ہوئے۔ لیکن ہم نے آج تک کسی سوشلسٹ کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ان کا انقلاب داغ داغ اجالا تھا اور ان کے انقلاب کی صبح شب گزیدہ تھی۔ ایک وقت تھا کہ روس اور چین ’’بھائی بھائی‘‘ تھے لیکن چین نے روس کو اپنا استیصال کرتے دیکھا تو اپنا راستہ الگ کرلیا۔ اس صورتِ حال سے پاکستان میں سوشلسٹوں کے دو گروپ بن گئے۔ ایک روسی گروپ تھا، ایک چینی گروپ تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جس طرح روسی گروپ کا اپنا کوئی شعور اور اپنا کوئی ضمیر نہ تھا اسی طرح چینی گروپ بھی چین کی ’’ہدایات‘‘ کا منتظر رہتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ملک میں بائیں بازو کے تمام دانش ور اور صحافی انفرادی شعور اور ضمیر سے عاری تھے اور شعور اور ضمیر کے عالمگیر تصور کے باغی اور اس کے غدار تھے۔
پاکستانی صحافت کے اہم مورخ ضمیر نیازی نے اپنی کتاب Press in Chains میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب نے ملک کے شاعروں، ادیبوں کو خریدنے کے لیے گلڈ کے نام سے ایک ادارہ بنایا تو بائیں اور دائیں بازو کے تمام اہم ادیب اور شاعر ’’مشرف بہ جنرل ایوب‘‘ ہوگئے۔ ملک کے صرف دو ادیبوں نے اس صورتِ حال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ان میں سے ایک کا نام محمد حسن عسکری تھا۔ عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ انہیں روس کے سوشلزم ہی نے نہیں امریکا کی سرمایہ داری سے بھی شدید نفرت تھی۔ ان کی نظر میں ادیب اور دانش ور کا مقام بہت بلند تھا۔ عسکری صاحب شاہد احمد دہلوی کے رسالے ساقی میں ہر ماہ ادبی کالم لکھا کرتے تھے مگر ساقی مشرف بہ جنرل ایوب ہوا تو عسکری صاحب نے ساقی کے لیے لکھنا بند کردیا۔ جنرل ایوب کی گلڈ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والی دوسری شخصیت ممتاز ادبی رسالے نئی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین تھے۔ جنرل ایوب نے ادیبوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ادیبوں پر اعتراض کیا تو مولانا صلاح الدین نے اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی۔ جنرل ایوب نے انہیں اس کی اجازت نہ دی تو مولانا نے بھری محفل میں کہا کہ صدر صاحب ادیبوں کے آزادی اظہار پر قدغن لگا رہے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق جنرل ایوب نے بالآخر مارشل لا ختم کیا تو معروف صحافی میر خلیل الرحمن نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا کیوں اُٹھالیا ملک و قوم کو ابھی اس کی ضرورت تھی۔ جنرل ایوب نے یہ سنا تو کہا کہ آپ کل اپنے اخبار کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں دوبارہ مارشل لا لگادوں گا۔
بدقسمتی سے بھٹو کی ’’سول آمریت‘‘ اور جنرل ضیا کی فوجی آمریت کی مزاحمت کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ بھٹو کی سول آمریت میں روزنامہ جسارت حزب اختلاف کا سب سے بڑا اخبار تھا اور اس نے کبھی بھٹو آمریت کے سامنے سر نہ جھکایا۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے جسارت سے تنگ آکر بلا آخر اسے بند کردیا۔ بھٹو صاحب کی سول آمریت بائیں بازو کے دانش وروں اور صحافیوں کو ہڑپ کر گئی تو جنرل ضیا کی آمریت نے دائیں بازو کے دانش وروں اور صحافیوں کے شعور اور ضمیر کا جنازہ نکال دیا۔ جنرل پرویز کی فوجی آمریت میں دائیں اور بائیں بازو کو ایک گھاٹ پر پانی پیتے دیکھا گیا۔ اس دور میں روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل نے فوجی آمریت کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر نے دانش وروں اور صحافیوں کے رہے سہے شعور اور ضمیر کے بھی پرخچے اڑا دیے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر کے 25 برسوں میں ملک باالخصوص کراچی کے اخبارات و رسائل میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک فقرہ بھی شائع نہیں ہوا۔ اس عرصے میں بڑے بڑے اخبارات کے مالکان، دانش وروں اور صحافیوں کو نائن زیرو پر الطاف حسین کے جوتے چاٹتے ہوئے دیکھا گیا۔
ان لوگوں میں آزادی اظہار کے بڑے بڑے ’’Champions‘‘ شامل تھے۔ اس زمانے میں ہمارے عزیز دوست یحییٰ بن زکریا نے لاہور میں مقیم ممتاز دانش ور اور صحافی ارشاد احمد حقانی سے شکایت کی کہ آپ دنیا کے ہر موضوع پر لکھتے ہیں مگر ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے کہ میں لکھ تو دوں مگر میں نے سنا ہے کہ الطاف حسین اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ ارشاد احمد حقانی غلط نہیں کہہ رہے تھے۔ الطاف حسین کی ’’شہرت‘‘ یہی تھی۔ لیکن جو شخص اپنے ایقان یا Conviction کو بسر نہ کرے اسے دانش ور یا صحافی کہنا دانش وری اور صحافت دونوں کو گالی دینا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ روزنامہ جسارت نے جس طرح بھٹو آمریت اور مشرف آمریت کی مزاحمت کی اس نے اس طرح الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر کی بھی مزاحمت کی۔ لیکن مثل مشہور ہے اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ بدقسمتی سے شعور اور ضمیر کے خلاف غداری کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والا سلیم صافی کا حالیہ کالم ہے۔
اس کالم میں شعور اور ضمیر کے خلاف سازش کا ایک پہلو یہ ہے کہ سلیم صافی نے دو مقامات پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا موازنہ کرتے ہوئے ان کا نام ایک ساتھ لیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آب زم زم اور گٹر کے پانی کو ’’ایک صف‘‘ میں کھڑا کردیا جائے۔ سلیم صافی نے ایک اور ظلم یہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی کو انہوں نے ’’مذہبی جماعت‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ جیسے کہ ایم کیو ایم۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم پہلے دن بھی ایک ’’مافیا‘‘ تھی۔ آج بھی ایک مافیا ہے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی سیاسی جماعت کے اعلیٰ ترین معیارات کے اعتبار سے کل بھی ایک سیاسی جماعت تھی اور آج بھی ایک سیاسی جماعت ہے۔ مگر سلیم صافی مافیا کو سیاسی جماعت اور سیاسی جماعت کو صرف مذہبی جماعت قرار دے رہے ہیں۔ سلیم صافی نے اپنے کالم میں ایم کیو ایم کے پانچ چھ بڑے بڑے عیب گنوائے ہیں مگر اس کے بعد انہوں نے فرمایا ہے کہ اگر ایم کیو ایم میں تشدد کا عنصر نہ ہوتا تو وہ ملک کی ’’مثالی جماعت‘‘ ہوتی۔ ایم کیو ایم مہاجروں کا مذہب کھا گئی، ان کی تہذیب ہڑپ کرگئی، ان کی تاریخ ہضم کر گئی، ان کی زبان و بیان کو ایم کیو ایم نے تباہ کردیا، ان کو تعلیم اور اہلیت سے محروم کردیا،
الطاف حسین اور ان کی مافیا نے دس بیس لوگ نہیں 20 سے 25 ہزار لوگوں کو قتل کرایا۔ مگر اس کے باوجود سلیم صافی اسے ’’روشن خیال‘‘ اور مڈل کلاس کی جماعت قرار دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ایم کیو ایم بڑی ہی منظم جماعت ہے۔ لیکن مافیا ایم کیو ایم سے بھی زیادہ منظم ہوتی ہے اور اس کے اراکین عموماً معاشرے کے نچلے طبقات سے فراہم ہوتے ہیں مگر اس وجہ سے مافیا کو ’’شاندار‘‘ باور کرانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ سلیم صافی نے ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے ’’امتیاز‘‘ پر بھی گفتگو کی ہے۔ حالاں کہ ان تینوں میں کوئی فرق ہی نہیں۔ الطاف حسین نے جو جرائم کیے ہیں وہ تنہا ان کے جرائم نہیں۔ ان کے جرائم میں پوری ایم کیو ایم ملوث ہے۔ ریاست کے خفیہ ادارے خواہ کیسی ہی ’’لانڈری‘‘ کیوں نہ لگالیں، آفاق، مصطفی کمال ان کے ساتھیوں اور فاروق ستار کے ہولناک جرائم کبھی دھل نہیں سکتے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے جرائم کی نوعیت ’’انفرادی‘‘ نہیں اجتماعی ہے اور اگر ایک معافی کے ذریعے آفاق، مصطفی کمال اور فاروق ستار کے جرائم معاف ہوسکتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جیلوں میں قید لاکھوں قیدیوں کو بھی معافی کا ایک موقع فراہم کرکے ’’پاک دامن‘‘ اور ’’حب الوطنی‘‘ کی اسناد مہیا کی جانی چاہئیں۔ لیکن یہ باتیں شعور اور ضمیر کی تذلیل کرنے والے دانش ور اور صحافی کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔