جو لوگ گزشتہ بیس پچیس سال میں جوان ہوئے ہیں ان کی اکثریت کو معلوم بھی نہیں 25 دسمبر 1991ء سے پہلے آدھی دنیا پر سوشلزم کا قبضہ تھا۔ سوشلزم کا بانی کارل مارکس تھا اور کارل مارکس مذہب کے سخت خلاف تھا، یہاں تک کہ وہ مذہب کو ’’عوام کی افیون‘‘ کہتا تھا۔ اس اعتبار سے سوشلزم یا مارکسزم میں مذہب کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ دنیا بھر کے سوشلسٹ سوشلزم سے ویسی ہی تقدیس وابستہ کرتے تھے جیسی تقدیس مذہب کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ وہ مارکس کو ’’پیغمبر‘‘ سمجھتے تھے۔ اس کا ایک ننھا منا سا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے ترقی پسند ادیب سبط حسن کی ایک کتاب کا عنوان ہے ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘۔ سیدنا موسیٰؑ کا نام مارکس کے ساتھ لینا سیدنا موسیٰؑ کی توہین اور مارکس کی عزت افزائی ہے۔ لیکن سوشلزم کے عہد عروج میں ایسی ’’واردات‘‘ عام تھیں۔ سوشلسٹوں کے نزدیک مارکس کی کتاب داس کی پیتال ایک ’’آسمانی کتاب‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ کمیونسٹ مینی فیٹو کی اہمیت بھی ’’وحی‘‘ سے کم نہ تھی۔ سوویت یونین سوشلسٹوں کا ’’کعبہ‘‘ تھا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ شیطان رحمن کی نقل کرتا ہے۔ جھوٹ ہمیشہ خود کو سچ باور کراتا ہے اور کھوٹا سکہ کھرے سکے کے دھوکے میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتا ہے۔ سوشلزم اور اس کے پیرو کاروں کا معاملہ بھی یہی تھا۔
سوشلزم کے غلبے کے زمانے میں سوشلسٹوں کے لیے یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ سوشلزم کو کبھی زوال کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ حالاں کہ کارل مارکس خود کہہ گیا تھا کہ سوشلزم انسانی فکر کے ارتقا کی ایک منزل ہے اور انسانی فکر کا اگلہ مرحلہ کمیونزم ہوگا۔ اس مرحلے میں ریاست کا وجود بھی تحلیل ہوجائے گا۔ کارل مارکس کی فکر کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ایک جانب وہ انسانی فکر کو مسلسل ارتقا پزیر کہتا تھا اور دوسری جانب کمیونزم دنیا آخری منزل تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر ارتقا ہمیشہ جاری رہنے والا عمل تھا تو کمیونزم کو بھی طویل سند کی ایک منزل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بیچارہ مارکس کمیونزم سے آگے سوچنے سے قاصر تھا۔ لیکن بدقسمتی سے انسانی فکر نے ’’ارتقا‘‘ ظاہر کرنے کے بجائے اُلٹی جست بھرلی۔ یعنی دیکھتے ہی دیکھتے سوویت یونین ختم ہوگیا اور سوشلسٹ ریاستیں کمیونسٹ ریاستوں میں ڈھلنے کے بجائے سرمایہ دار ریاستوں کا روپ اختیار کرگئیں۔ یعنی بیچارے ترقی پسندوں کی ’’ترقی پسند تاریخ‘‘ اچانک ’’رجعت پسند‘‘ ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ تاریخ نے مارکزم کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ بہر حال تاریخ کی اس ’’جہالت‘‘ نے سوشلزم اور سوشلسٹ ریاستوں کو روئے زمین سے اس طرح غائب کیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
سوشلزم کے زوال اور سوویت یونین کے انہدام نے پوری دنیا کے سوشلسٹوں کو یتیم الفکر بنادیا۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا۔ کچھ سوشلسٹ یا ترقی پسند کہتے تھے کہ سوویت یونین کا انہدام امریکی سی آئی اے کی سازش ہے۔ کچھ کہتے تھے کہ ریاست ختم ہوگئی تو کیا نظریہ تو زندہ ہے اور نظریہ کبھی نہیں مرتا۔ لیکن سوشلزم کے زوال اور سوویت یونین کے انہدام کے چند برس بعد پاکستان سمیت مسلم دنیا کے کئی ملکوں میں یہ المناک منظر دیکھا گیا کہ سوشلسٹ سوویت یونین کے پرستار دانش وروں کی اکثریت سرمایہ دار امریکا کی ایجنٹ بن گئی ہے۔ دنیا نے ’’نظریاتی ارتداد کی اس سے بدترین مثال کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن مسلم دنیا کے سوشلسٹ دانش وروں اور سیاست دانوں نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا کہ اگر تم اپنے دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو پھر اس کی فوج کا حصہ بن جاؤ۔ بدقسمتی سے ترقی پسند دانش وروں اور سیاست دانوں نے یہ کام اسلام کی دشمنی میں کیا۔ جب وہ سوویت یونین کے ساتھ تھے تب بھی ان کا حریف اسلام تھا چناں چہ انہوں نے امریکا کا ایجنٹ بننا قبول کیا تو بھی اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا دنیا میں اسلام دشمن طاقت بن کر اُبھر چکا تھا۔ کسی زمانے میں ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار تھا۔
’’خشکی کو بھول جائیے گلورا پل کو یاد رکھیے‘‘
مسلم دنیا باالخصوص پاکستان کے ترقی پسندوں کا اشتہاری نعرہ ہے۔
’’سوویت یونین اور امریکا کی رقابت کو بھول جائیے اسلام دشمنی کو یاد رکھیے‘‘
کہنے والے کہتے ہیں کہ وقت سے اچھا مرہم کوئی نہیں۔ اس لیے کہ وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ سابق سوشلسٹوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ چناں چہ بائیں بازو کے دانش وروں کو نہ صرف یہ کہ اب یقین آچکا ہے کہ ان کا نظریہ مرچکا ہے بلکہ اب انہیں اپنے نظریے میں وہ کیڑے بھی نظر آنے لگے ہیں جو انہیں 1917ء سے 1991ء تک کبھی نظر نہیں آئے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال روزنامہ جنگ کراچی کی حالیہ اشاعت میں شائع ہونے والا وجاہت مسعود کا کالم ہے۔ وجاہت مسعود نے سرد جنگ کو سی آئی اے اور کے جی بی کی کش مکش قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ شہری آزادیوں، جمہوریت اور کھلی منڈی کے اصول نے شہری یا بندیوں، آمریت اور پابند معیشت کو پچھاڑ دیا۔ وجاہت مسعود نے مزید لکھا ہے کہ کے جی بی کو شکست اس لیے ہوئی کہ اسے ایک ایسے نظریے کا بوجھ اُٹھا کر چلنا تھا جو تاریخ کے بہاؤ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وجاہت مسعود کے بقول سی آئی اے اپنے اہلکاروں اور عام امریکی شہری کی زندگی میں فاصلہ رکھنے میں کامیاب رہی مگر سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی اپنے شہریوں کی خواب گاہ تک چلی گئی۔ غور کیا جائے تو یہ تجزیہ کئی اعتبار سے شرمناک اور عبرت ناک ہے۔
ساری دنیا کے سوشلسٹ مارکس کو ایک ’’انقلابی مفکر‘‘ اور سوشلزم کو ایک ’’انقلابی نظریہ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ انقلابی مفکر اور انقلابی نظریہ کبھی ’’تاریخ کے بہاؤ‘‘ کو نہیں دیکھتا۔ اس لیے کہ انقلابیت تاریخ کے بہاؤ میں بہنے کا نہیں تاریخ کے دھارے یا تاریخ کے بہاؤ کو نئی سمت دینے کا نام ہے۔ مارکس جب جدلیاتی مادیت، قدرِ زائداور طبقاتی کش مکش کے نظریات پیش کررہا تھا تو تاریخ کا بہاؤ دراصل سرمایہ داری کا بہاؤ تھا۔ مارکس نے سرمایہ داری کو استحصالی نظام قرار دیا اور اس کی تنقید کے ذریعے اسے انسان دشمن نظام ثابت کیا۔ مارکس یہ نہ کرتا تو وہ سرمایہ دارانہ فکر کا مقلد ہوتا لیکن جیسا کہ ساری دنیا کے سوشلسٹ کہتے رہے ہیں مارکس مقلد نہیں انقلابی تھا چناں چہ اس نے اپنی فکر کے ذریعے تاریخ کے بہاؤ کو نئی سمت دینے کی کوشش کی۔ اتفاق سے مارکس کی فکر کو لینن جیسا رہنما میسر آگیا۔ لینن نے جب انقلابی جدوجہد شروع کی تو اس وقت بھی تاریخ کا بہاؤ دراصل جاگیر داری اور سرمایہ داری کا بہاؤ تھا۔ وجاہت مسعود کی اس دلیل کو درست مان لیا جائے کہ تاریخ کا بہاؤ ہی سب کچھ ہے تو لینن کو مارکس کے نظریات کی بنیاد پر تاریخ کے بہاؤ کی الٹی سمت نہیں تیرنا چاہیے تھا مگر لینن نے تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی جدوجہد کی اور بالآخر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہوا۔
یہی لینن کا اصل کارنامہ تھا، یہی اس کی اصل انقلابیت تھی۔ اس تناظر دیکھا جائے تو وجاہت مسعود اور ان جیسے ’’ترقی پسندوں‘‘ کا اصل مسئلہ نہ سوشلزم تھا اور نہ سرمایہ داری اور اس کے تصورات ہیں بلکہ ان کا اصل مسئلہ ’’کامیابی‘‘ ہے۔ کل سوشلزم ’’کامیاب‘‘ تھا تو وہ سوشلزم کے ساتھ تھے، آج سرمایہ داری، جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت ’’کامیاب‘‘ ہے تو وہ اس کے ساتھ ہیں، کل کو سرمایہ داری، جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت ناکام ہوگئی تو وجاہت مسعود اور ان جیسے ’’روشن خیال‘‘ سرمایہ داری میں بھی کیڑے نکالیں گے۔ غور کیا جائے تو یہ ’’نظریاتی بے حیائی‘‘ کی انتہا ہے۔ لیکن ’’کامیابی کی پوجا‘‘ صرف سابق سوشلسٹوں کا مسئلہ نہیں ہے۔
بعض ’’مذہب پرستوں‘‘ میں بھی ’’کامیابی کی پوجا‘‘ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تیونس میں راشد الغنوشی کی جماعت انہضہ نے ’’پائیدار‘‘ سیاسی کامیابی کے لیے اسلام اور سیاست کو الگ کرلیا ہے۔ چناں چہ انہفہ کا ایک حصہ اب صرف دعوت کا کام کرے گا اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ جماعت کا دوسرا حصہ صرف سیاست کرے گا اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے نظریہ ہی سب کچھ ہے۔ نظریہ کامیاب ہو تو بھی حق ہے۔ ساری دنیا میں کوئی بھی نظریے کے ساتھ نہ ہو تو بھی نظریہ حق ہے۔ سیاسی کامیابی بہت اہم ہے اور اس کے لیے اسلام پسندوں کو تن، من، دھن کی بازی لگادینی چاہیے مگر اس کے باوجود بھی کامیابی نہ ملے تو اپنے نظریے پر سودے بازی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی مایوس ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ سیاسی کامیابی حق کے حق ہونے کا پیمانہ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ ہے۔ مکے کے 13 سالہ دور میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے۔ رسول اکرمؐ اس بات پر افسردہ رہتے تھے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے فرمایا کہ آپؐ کا کام تو پہنچا دینا ہے۔ ہدایت دینا یا نہ دینا ہمارا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس چیز کے مکلف رسول اکرمؐ نہیں تھے اس کا مکلف کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے؟۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ناکام ہوتے ہی کروڑوں سوشلسٹ سوشلزم کو گڈبائے کہہ چکے ہیں۔ حالاں کہ 1991ء سے پہلے سوشلزم ان کی روح تھا، ان کا دل تھا، ان کا ذہن تھا، ان کا عقیدہ تھا، ان کا نظریہ تھا، ان کی محبت تھا، ان کا اوڑھنا تھا، ان کا بچھونا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انہضہ نے امریکا، یورپ اور تیونس کی سیکولر اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے مذہب اور سیاست کی تفریق کو قبول کرلیا ہے۔ یہ بھی اسلام کو گڈبائے کہنے ہی کی ایک صورت ہے۔