ہمارے یہاں ہی نہیں دنیا کے اکثر معاشروں میں لوگ مذہب اور سیاست پر اس طرح گفتگو کے دریا بہاتے ہیں جیسے ان سے زیادہ سیاست اور مذہب کا جاننے والا کوئی نہ ہو۔ مذہب تو خیر بڑی چیز ہے ہم نے گزشتہ 25 سال میں سیاست پر بھی کوئی ایسا مضمون یا کالم نہیں پڑھا جس کے مطالعے سے ہمیں محسوس ہوا ہو کہ ہم اب سیاست کو زیادہ سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن آخر لوگ پھر مذہب اور سیاست کے ’’ماہر‘‘ کیوں بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ماحول میں سیاست اور مذہب کی ’’فراوانی‘‘ ہے۔ چوں کہ ماحول میں ہر طرف سیاست اور مذہب زیر بحث ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب اور سیاست پر ہمیں بھی ’’بصیرت‘‘ مہیا ہوگئی ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر کو معلوم نہیں ہوتا کہ معلومات اور علم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے ایک دانش ور ہیوسٹن اسمتھ نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ہیوسٹن اسمتھ نے لکھا ہے کہ میں امریکا کی ایک یونیورسٹی میں اسلامیات کی کلاس لینے پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کلاس میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسلم طلبہ کی بڑی تعداد موجود ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اسلامیات کیوں لی ہے تو انہوں نے فرمایا ہم مسلمان ہیں اور ہم اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، چناں چہ ہمیں اُمید ہے کہ اسلامیات کے مضمون میں ہمارے اچھے گریڈز آئیں گے۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ یہ کہ ہیوسٹن اسمتھ کی کلاس کے اکثر مسلم طلبہ اسلامیات میں فیل ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ مسلم طلبہ میں اسلام کی کتنی آگہی اور اس کی تشریح و تعبیر کا کتنا شعور موجود تھا۔ لیکن یہ مسئلہ طلبہ تک محدود نہیں۔
مولانا حسین احمد مدنی برصغیر کے بڑے علما میں سے ایک تھے۔ ایک موقعے پر انہوں نے فرمایا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اقبال نے یہ سنا تو بہت ناراض ہوئے اور مولانا کو یاد دلایا کہ مسلمانوں کا اصل تشخص وطن نہیں اسلام ہے اور اسلام کے دائرے میں قوم وطن یا جغرافیے سے نہیں کلمے سے بنتی ہے۔ بلاشبہ اقبال معروف معنوں میں عالم دین نہیں تھے مگر اس معاملے میں ان کا فہم دین مولانا حسین احمد مدنی سے بہتر تھا۔ بعد میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی مسلمانوں کے حوالے سے وطنیت کے تصور کو رد کیا اور دو قومی نظریے کی مذہبی تعبیر کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا۔ ہم نے سیرت طیبہ پر ایسی کئی کتب دیکھی ہیں جن میں حضور اکرمؐ کی ازدواج مطہرات کی تعداد کے حوالے سے ایک قسم کی ’’معذرت خواہی‘‘ موجود اور ان کتب کے تحریر کرنے والوں نے ازدواج مطہرات کی تعداد کی سماجی تناظر میں تشریح کی ہے۔ یہ تشریح کرنے والے بھول گئے رسول اکرمؐ باعثِ تخلیق کائنات ہیں۔ سردار الانبیاء ہیں، خاتم النبین ہیں اور آپؐ کے مقام کے حوالے سے ازدواج کی تعداد کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ سیّدنا عیسیٰؑ کی شادی ہی نہیں ہوئی تو کیا اس سے آپ کے مقام اور مرتبے میں کوئی فرق آگیا۔ سیّدنا سلیمانؑ کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ ان کی سو بیویاں تھیں اور ایک روایت یہ ہے کہ ان کی 700 بیویاں تھیں۔ ہندو شری کرشن کو پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں اور ہندوؤں کی ایک روایت یہ ہے کہ شری کرشن کی 6000 بیویاں تھیں اور دوسری روایت یہ ہے کہ ان کی گیارہ ہزار سے زیادہ بیویاں تھیں۔
ہم نے آج تک ہندوازم اور شری کرشن کی سیرت پر گفتگو کرنے والے کسی ہندو عالم کو اس بات پر معذرت خواہ نہیں دیکھا کہ شری کرشن کی اتنی بیویاں کیوں تھیں۔ مگر مستشرقین کے اعتراضات کے زیر اثر ہمارے کئی علما حضور اکرمؐ کی ازدواج کی تعداد کے حوالے سے چوں کہ چناں چہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ یہیں تک محدود نہیں۔ کچھ عرصے قبل ایک قابل بھروسا صحافی ایک بہت ہی بڑے عالم دین کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر کہہ رہے تھے کہ انہوں نے اس کتاب میں فرمایا ہے کہ عورتوں کو سورۂ یوسف نہیں پڑھانی چاہیے کیوں کہ وہ معاذ اللہ اس سورۂ سے عشق و عاشقی سیکھ سکتی ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات رتی برابر بھی حیرت انگیز نہیں ہے کہ شاہد اورکزئی نام کے ایک صاحب سپریم کورٹ میں ایک درخواست لے کر پہنچے ہیں، اس درخواست میں انہوں نے فرمایا ہے، کہ چوں کہ صادق اور امین کے تصورات صرف رسول اکرمؐ کی ذات سے متعلق ہیں اس لیے انہیں کسی اور شخص کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ ایسا کرنا توہین رسالت کا ارتکاب کرنا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ صادق اور امین آپؐ کے لیے مخصوص القاب تھے لیکن یہ القاب اپنی اصل میں تصورات ہیں اور ان کے ذریعے دو اعلیٰ صفات کا ابلاغ کیا جاتا ہے، اس لیے ان الفاظ کو مقام اور مرتبے کا امتیاز ذہن میں رکھتے ہوئے عام لوگوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاسکتا ہے۔
چناں چہ مسلم معاشروں میں لڑکوں کے لیے جو نام پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں ان میں صادق اور امین جیسے نام بھی شامل ہیں۔ بلاشبہ حضور اکرمؐ جیسا صادق اور امین نہ کوئی تھا اور نہ ہوسکتا ہے لیکن صداقت اور امانت کی میراث رسول اکرمؐ پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ یہ آپؐ کے روحانی ورثے کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ موجود رہے گی اور انسانوں کو امانت اور صداقت کے پیمانوں پر پرکھا جاتا رہے گا۔ لیکن ملک کے سیکولر اور لبرل عناصر یہ چاہ رہے ہیں کہ ان القاب کو رسول اکرمؐ کی ذات تک محدود کرکے انہیں معاشرے میں زندہ تصورات کی حیثیت سے موجود نہ رہنے دیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کا کوئی شخص صداقت اور امانت کی پاسداری میں رسول اکرمؐ کی گردِ پا کے برابر بھی نہیں ہوسکتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف صداقت اور امانت تک محدود تھوڑی ہے۔ رسول اکرمؐ جیسی نماز پڑھتے تھے ویسی نماز کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تو کیا اس بنیاد پر یہ کہہ دینا چاہیے کہ عام لوگوں کو نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ رسول اکرمؐ کی نماز ہی نہیں ہر عبادت غیر معمولی تھی تو کیا عام مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے تمام عبادات سے روک دینا چاہیے کہ تم عبادتوں کے دائرے میں رسول اکرمؐ کی سطح تک نہیں پہنچ سکتے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ دین کی پوری روایت کو منہدم کرنے کی سازش ہے۔
سیکولر اور لبرل عناصر اس خیال کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ امانت اور صداقت کے تصورات تو مجرد یا Abstractہیں۔ بھلا ہم یہ فیصلہ کیسے کریں گے کہ کون امین ہے کون صادق ہے؟ اس سلسلے میں سیّدنا عمرؓ کا یہ قول، قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے کہ ہم تمہیں تمہارے اعمال کی بنیاد پر جانتے ہیں۔ یعنی انسان کی نیت کیا ہے یہ تو صرف اللہ ہی جانتا ہے مگر انسان کے عمل سے اس کے باطن کا اظہار ہوتا ہے۔ اب اگر ایک شخص کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرنے والا ہے یا اس حوالے سے اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے تو ایسے شخص کو امین نہیں کہا جائے گا یا اگر کسی شخص کی عام شہرت یہ ہے کہ وہ جھوٹا اور دھوکے باز ہے تو اسے صادق نہیں سمجھا جائے گا۔ سیکولر اور لبرل عناصر اس تاثر کو بھی عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ صادق اور امین کے تصورات اپنی اصل میں معیاری یا Qualitative ہیں، مقداری یا Quantitave نہیں۔ اس بات کو عام الفاظ میں بیان کیا جائے تو سیکولر اور لبرل عناصر کہہ رہے ہیں کہ صداقت اور امانت ’’سیرت‘‘ ہیں ’’صورت‘‘ نہیں۔ اب صورت کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’بدصورتی‘‘ سب کو نظر آجاتی ہے مگر ’’بدسیرتی‘‘ کو دیکھنے کے لیے ایک طرح کی روحانی یا اخلاقی اہلیت درکار ہوتی ہے۔
یہ فرق نظر آنے والے یا Seen اور نظر نہ آنے والی یعنی Unseen کے فرق سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مسلمان کچھ کر ہی نہیں سکتے اس لیے کہ ہمارا پورا دین Unseen پر کھڑا ہوا ہے۔ چناں چہ سیکولر اور لبرل عناصر آج صداقت اور امانت پر یہ کہہ کر اعتراض کررہے کہ انہیں صرف مشاہدے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا، کل وہ اسلام کے عقیدہ توحید پر اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ خدا موجود ہے تو اس کو ’’دکھاؤ‘‘۔ یہودی سیّدنا موسیٰؑ سے جو مطالبات کرتے تھے ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہوتا تھا کہ تم جس خدا پر ہمیں ایمان لانے کے لیے کہتے ہو کبھی اس کو دکھاؤ بھی تو۔ یہودیوں کا مسئلہ تو خیر دنیا پرستی تھا مگر سیکولر اور لبرل لوگوں کا مسئلہ سائنسی تناظر ہے۔ جدید سائنس کا تناظر یہ ہے کہ صرف وہ چیز وجود رکھتی ہے جو مشاہدے اور سائنسی تجربے سے ثابت ہو۔ لیکن سائنسی مشاہدہ اور سائنسی تجربہ صرف مادے کا تجزیہ کرسکتا ہے۔ جو حقیقت مادے سے ماورا ہے خواہ وہ خدا ہو یا اخلاقی اصول اور اخلاقی صفات ان کا وجود سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے کے دائرے سے ہے باہر کی چیز ہے۔ امانت اور صداقت پر اعتراض کرنے والے کہہ نہیں رہے مگر وہ ان تصورات کو بھی غیر سائنسی اور غیر عقلی ثابت کررہے ہیں اور یہ مذہب کی تعبیر پر اثر انداز ہونے کی ایک شرمناک کوشش ہے۔