سیکولر اور لبرل عناصر مسلم دانش وروں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ لکیر کے فقیر ہیں۔ ان کو تقلید کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اسلام میں تقلید ایک روحانی، تہذیبی اور علمی اصول ہے۔ آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول یا صاحب اصول کی پیروی کرو۔ ایسا نہیں کرو گے تو بھٹک جاؤ گے، گمراہ ہو جاؤ گے، اقبال اجتہاد پر بہت زور دیتے ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ انتشار کے زمانے میں تقلید ہی بہترین راستہ ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات لکیر کا فقیر یا مقلد ہونا بری بات ہوگی مگر سیکولر اور لبرل عناصر تو تقلید کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مغرب کے نقال کے سوا کچھ نظر نہیں آتے۔ نقالی انسانوں کا نہیں بندروں کا شیوہ ہے اس لیے انگریزی میں اسے Aping کہتے ہیں۔ انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور کالموں کی عظیم اکثریت میں مغربی فکر اور مغربی تناظر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آج کے کالم میں ہم اس کی ایک ایسی مثال کو زیر بحث لائیں گے جس کا ہماری فکر اور تہذیب سے گہرا تعلق ہے۔
ہم اپنے گزشتہ کالم میں طاہر کامران کا ذکر کرچکے ہیں۔ موصوف لاہور کی ایک نجی جامعہ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ’’دی نیوز‘‘ میں ہفتہ وار کالم تحریر فرماتے ہیں۔ انہوں نے اپنے 8 اکتوبر سن 2017 کے کالم میں ایک مغربی دانش ور سِمِل آئے ڈِن (Cemil Aydin) کی تصنیف The Idea Of Muslim World کے حوالے سے تین تاریخی اور ہولناک جھوٹ بولے ہیں۔
طاہر کامران نے مغربی دانش ور کے حوالے سے پہلا جھوٹ یہ گھڑا ہے کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ اصل میں ’’تہذیب‘‘ تھی نہ ہے۔ طاہر کامران کے بقول ’’اسلامی تہذیب‘‘ کی اصطلاح مسلم دانش وروں نے مغرب کے مقابلے پر اسلام کے ’’احساس کمتری‘‘ کے تناظر میں وضع کی۔ یعنی جب مغربی تہذیب سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش ہوا تو مسلمانوں کو اپنے اسلام کی ’’غربت‘‘ کا احساس ہوا اور انہوں نے اس احساس غربت اور اس سے پیدا ہونے والے احساس کمتری کو دور کرنے کے لیے ایک ’’اسلامی تہذیب‘‘ ایجاد کرلی۔ طاہر کامران کے بقول مسلم دانش وروں نے اس اصطلاح کو اتنے جوش و جذبے سے بیان کیا اور پھیلایا کہ اسلامی تہذیب کی اصطلاح بین الاقوامی یا Trans national اصطلاح بن گئی۔
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کا ظہور ایک بین الاقوامی یا Trans national مذہب کے طور پر ہوا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اکرمؐ سے پہلے آنے والے انبیا کی شریعتیں مقامی اور قومی تھیں لیکن چوں کہ حضور اکرمؐ پر نبوت ختم ہوگئی اس لیے دنیا کو ایک ایسی شریعت کی ضرورت تھی جو لازمانی اور لامکانی ہو۔ چناں چہ مسلمانوں کو پہلے ہی دن سے صرف تہذیب نہیں عالمگیر تہذیب کے امین تھے اور انہیں تہذیب یا بین الاقوامیت کسی سے ادھار لینے کی ضرورت نہ تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عیسائیت کی نہ آسمانی کتاب محفوظ رہی نہ سیدنا عیسیٰؑ نے حکومت قائم کی، نہ جہاد کیا نہ شادی کی، نہ کاروبار کیا۔ مگر اس کے باوجود ان کے دین یعنی عیسائیت نے ’’عیسائی تہذیب‘‘ تخلیق کر ڈالی لیکن رسول اکرمؐ جنہوں نے یہ تمام کام کیے وہ اور ان کی شریعت اتنی گئی گزری تھی کہ وہ ’’تہذیب‘‘ پیدا نہ کرسکی۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعلان نبوت کے ساتھ ہی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ دی گئی اور نہ صرف یہ بلکہ اس کی نشوونما شروع ہوگئی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپؐ کی نبوت نے انسانوں کے بنیادی عقائد کو بدل ڈالا۔ عقیدے کے بغیر کسی تہذیب کا تصور محال ہے، لیکن اسلام صرف عقائد بیان کرکے نہیں رہ گیا۔ اس نے عبادات کا ایک پورا نظام انسانوں کے حوالے کیا، اسلام نے خدا اور انسان کے بنیادی رشتے کی وضاحت کی۔ اس نے انسانوں کے باہمی روابط کو نیا تناظر فراہم کیا۔ اس نے سیاست اور جنگ کے سلسلے میں رہنمائی کی۔ سماجی زندگی کے بارے میں ہدایات دیں، معاشی زندگی کے بارے میں اصول مہیا کیے۔ اُٹھنے، بیٹھنے، گفتگو کرنے، سونے جاگنے، شادی بیاہ کے آداب سکھائے۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جس کے سلسلے میں اس نے انسانوں کو رہنمائی فراہم نہ کی ہو۔ اس کے باوجود طاہر کامران ایک مغربی دانش ور کے تھوکے ہوئے نوالوں کو چباتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اسلامی تہذیب جیسی کوئی شے موجود نہ تھی۔
جدید مغرب سے مسلمانوں کا رابطہ 19 ویں صدی میں ہوا۔ اس صدی میں کم و بیش پورا عالم اسلام یورپی طاقتوں کا غلام بن گیا۔ طاہر کامران صاحب کے بقول ’’اسلامی تہذیب‘‘ ایک جدید بلکہ جدیدیت کے زیر اثر وضع ہونے والی اصطلاح ہے۔ لیکن طاہر کامران کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ کی اصطلاح 14 ویں صدی میں ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں استعمال کی ہے۔ طاہر کامران اس سلسلے میں کچھ اور نہیں تو سید حسین نصر کی تصنیف Science and citilizavion in islam ہی کا مطالعہ کرلیں۔ حسین نصر نے اپنی اس تصنیف میں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے بارہویں، تیرہویں اور چودھویں صدی کے درمیان ایسی بہت سی شخصیات پیدا کیں جو کئی کئی علوم کی ماہر تھیں لیکن انہوں نے ایسی 19 شخصیات کا ذکر کیا ہے جو نصف درجن سے زیادہ علوم میں یکتائے زمانہ تھیں اور جن کا یورپ پر گہرا اثر ہوا۔ Al Kindi الکندی کا زمانہ دسویں صدی کا زمانہ ہے اور الکندی کو اسلام یا مغرب کی نہیں انسانیت کی 12 عظیم ترین شخصیات میں سے ایک کہا ہے۔ کیا علم کی اتنی بڑی روایت بھی تہذیب کہلانے کی مستحق نہیں؟ اور کیا حقیقی معنوں میں اس روایت کا جدید مغرب سے کوئی تعلق ہے؟
طاہر کامران نے اس خیال کی بھی تردید کی ہے کہ جدید مغرب کی ترقی اس اعتبار سے مسلمانوں کی مرہونِ منت ہے کہ مسلمانوں نے یونانی فکر کو اختیار کیا، اس میں اضافے کیے اور اسے یورپ منتقل کردیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایسی باتیں بھی اسلامی تہذیب کی قدر و قیمت اور عظمت قائم کرنے اور مسلمانوں کے نسلی اور تہذیبی اعتبار سے کمتر ہونے کے خیال سے بچنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ ان خیالات کی تردید کے لیے ایک دو نہیں کئی مغربی مصنفین کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن یہاں امریکا میں History of science کے ممتاز ماہر اور پروفیسر جور جیو ڈی سینٹیلانا Giorgio de san tillana کی تحریر کا ایک اقتباس ہی کافی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ “IslamicCulture is to often presented as the indispensable link between antiquity and our middle ages, but the achievement of its historic mission is implied when it has handed on the text and techniques of the greck. This is a way turning a great civilization into a service department of western history”
۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔