آخری حصہ
اس اقتباس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک باخبر مغربی دانش ور کی رائے ہے۔ اس اقتباس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ اس اقتباس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے قدیم یونان کے علوم، ان کے متون اور Techniques کو قرون وسطیٰ میں یورپ منتقل کیا اور اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو یہ علوم یورپ نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس اقتباس کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ اس اقتباس میں اسلامی تہذیب کو صرف تہذیب نہیں ’’عظیم تہذیب‘‘ تسلیم کیا گیا ہے اور اس بات پر افسوس کیا گیا ہے کہ اس عظیم تہذیب کو یورپی تاریخ کی خدمت کا شعبہ باور کرایا جاتا ہے۔
طاہر کامران صاحب نے دوسرا بڑا اور ہولناک جھوٹ بولتے ہوئے فرمایا ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو ’’آفاقی مذہب‘‘ بنا ڈالا ہے۔ یعنی اسلام آفاقی نہیں ہے مگر مسلمان کہتے ہیں۔ طاہر کامران نے لکھا ہے کہ مسلمان اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کہتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ وہ ہر علاقے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ طاہر کامران کے مطابق مسلمان ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اہل مغرب کے اس خیال کو جھٹلا سکیں کہ اسلام مسلم دنیا کے ’’نسلی تشخص‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ امر راز نہیں کہ مسلمانوں نے اسلام کو آفاقی بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اسلام کا ظہور ہی ایک آفاقی دین کے طور پر ہوا۔ مسلمانوں نے صرف اسلام کی آفاقیت کو پہچان کر اسے پوری دنیا میں پھیلایا۔ رسول اکرمؐ اگر صرف اہل عرب کے لیے معبوث ہوئے ہوتے تو اسلام شاید کبھی بھی عالم عرب سے نہ نکل پاتا۔ مگر اسلام یورپ پہنچا، افریقا پہنچا، چین پہنچا، روس پہنچا، انڈونیشیا اور جنوبی ایشیا میں پہنچا۔ اسلام کی آفاقیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام اپنی روح یعنی اپنے بنیادی تصورات پر اصرار کرتا ہے۔ خارجی ڈھانچے پر نہیں۔ تہذیب یا کلچر کے ظاہر پر نہیں۔ مثلاً اسلام لباس کے ’’ساتر‘‘ ہونے پر اصرار کرتا ہے، لباس چوغا ہے تو بھی ٹھیک ہے، پاجاما اور قمیص ہے تو بھی ٹھیک ہے، تہبند اور کرتا ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ طاہر کامران نے اپنے اس جھوٹ میں اسلام کو نسلی تشخص کا حامل قرار دیا ہے، انہوں نے پہلے جھوٹ میں بھی ایک جگہ مسلمانوں کے نسلی احساس کمتری کا ذکر کیا ہے حالاں کہ اسلام کا نہ کبھی کوئی نسلی حوالہ اور نسلی تشخص تھا، نہ ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ یورپ کے ذہن پر نسل پرستی اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ وہ سیدنا عیسیٰؑ کو ’’سفید فام‘‘ دکھاتے ہیں۔ حالاں کہ حضرت عیسیٰؑ ’’یورپی‘‘ نہیں تھے۔ وہ بیت المقدس میں پیدا ہوئے تھے۔ بیت المقدس مشرقِ وسطیٰ میں ہے اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کی رنگت گندمی ہوتی ہے، اصول ہے چوروں کو سب لوگ چور نظر آتے ہیں، اہل مغرب اور ان کے بندر چوں کہ خود نسل پرست ہیں اس لیے وہ اسلام کے ساتھ بھی نسلی تشخص وابستہ کرتے ہیں۔
طاہر کامران نے تیسرا بڑا اور ہولناک جھوٹ یہ بولا ہے کہ مسلمانوں نے تہذیبوں کے دائمی تصادم کا نظریہ بھی 20 ویں صدی میں مغرب سے سیکھا ہے۔ جب کہ سلطنت روما اور سلطنت فارس صرف دو سلطنتیں ہی نہیں تھیں دو تہذیبیں بھی تھیں۔ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے ابتدا ہی میں ان دونوں تہذیبوں کو چیلنج کردیا تھا اور ان کو مغلوب کرلیا تھا۔ امام غزالی کا زمانہ 12 ویں صدی کا زمانہ ہے، اس زمانے میں یونانی فلسفہ ایک فکر اور ایک تہذیب بن کر غزالی کے سامنے آکھڑا ہوا۔ یہ بھی تہذیبی تصادم کی ایک صورت تھی۔ امام غزالی نے تن تنہا یونانی فکر کے پورے لشکر کو زیر کرلیا۔ برصغیر میں سیدنا مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کے درمیان کشمکش کی پشت پر بھی اسلامی تہذیب کے جداگانہ تشخص کا شعور موجود تھا اور اورنگزیب عالمگیر اور دارا شکوہ کی کشمکش کا مرکز بھی یہ مسئلہ تھا کہ دارا شکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا اور وہ اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کا منصوبہ تیار کرنا چاہتا تھا اور ایک بلند علمی اور تہذیبی سطح پر۔ اورنگزیب کو اس خطرے کا شعور تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے یہ تمام واقعات جدید مغرب کے مسلمانوں پر اثر انداز ہونے سے بہت پہلے کے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے شعور کے لیے مسلمان کبھی مغرب کے مرہونِ احسان نہیں رہے۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد اکبر، اقبال اور مولانا مودودی کے یہاں تہذیبوں کا جو تصادم برپا نظر آتا ہے اس کا تعلق اسلام کی قدیم روایت سے ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جدید عہد میں تہذیبوں کے تصادم کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا ہے اور اس کی شدت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزالی کے زمانے میں تہذیبوں کا تصادم صرف فکر کے دائرے میں تھا مگر اب زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں اسلامی تہذیب کو جدید مغربی تہذیب کی شیطنت کا سامنا نہ ہو۔ ان حقائق کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سیکولر عناصر ہماری نئی نسلوں کے قلوب اور اذہان میں کیا زہر انڈیل رہے ہیں اور ان کے جھوٹ اور مکر کا کیا عالم ہے۔