کہنے والوں نے کہا ہے کہ جھوٹ کی تین اقسام ہیں۔
(1) جھوٹ
(2) سفید جھوٹ
(3) اعداد و شمار
لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری جھوٹ کی ان تینوں اقسام کو پھلانگ گئے ہیں اور انہوں نے جھوٹ کی ایک نئی قسم ایجاد کرلی ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت حیدر آباد میں جلسے سے ان کا خطاب ہے۔
اس خطاب میں بلاول نے جھوٹ کی نئی قسم ایجاد کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے مخالفین مفادات کی سیاست کرتے ہیں مگر ’’ہم‘‘ نظریاتی کی سیاست کرتے ہیں۔ نظریات کی سیاست اور پیپلز پارٹی؟ نظریات کی سیاست اور بلاول زرداری؟ کیا واقعی قیامت قریب آپہنچی ہے؟۔
ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کے بانی اور ہمارے قومی سیاست کے اہم ترین کرداروں میں سے ایک تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نظریات کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ تھا۔ لیکن اسلامی سوشلزم کو نظریہ کہنا نظریے کی توہین تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ اسلام ایک لمحے کے لیے سوشلزم کو برداشت نہیں کرسکتا تھا اور سوشلزم اسلام سے سو کلو میٹر دور بھاگتا تھا۔ بھٹو صاحب کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کو نظر انداز کرکے سیاست نہیں کرسکتے تھے۔ دوسری جانب انہیں سوشلسٹ کہلانے کا بھی شوق تھا اور سوشلزم اس زمانے کے جدید تعلیم یافتہ طبقات کا ایک ’’شوق‘‘ تھا۔ اس شوق کے نعرے بلند کرکے جدید تعلیم یافتہ طبقات خود کو ’’جدید‘‘ ہی نہیں ’’انقلابی‘‘ بھی محسوس کرنے لگے۔ مگر بدقسمتی سے بھٹو صاحب سوشلسٹ بھی نہیں تھے۔ وہ ایک جاگیردار تھے۔ ایک وڈیرے تھے اور جاگیرداری اور وڈیرہ سوشلزم کی ضد تھی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ بھٹو صاحب کا اسلام بھی ایک دھوکا تھا اور سوشلزم بھی ایک فریب تھا۔ اس صورت حال کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھٹو صاحب کا کوئی نظریہ ہی نہیں تھا۔ وہ صرف عوامیت پسند یا populist تھے اور عوام سے بھی ان کی دلچسپی صرف اس لیے تھی کہ اس کے بغیر وہ نہ اقتدار میں آسکتے تھے اور نہ اقتدار میں رہ سکتے تھے۔
بھٹو صاحب کا ایک اور نعرہ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب کی زندگی سے ایک مثال بھی ایسی تلاش نہیں کی جاسکتی جس میں وہ اپنے ’’دین‘‘ کو ’’سر‘‘ کرتے نظر آتے ہوں۔ رہی جمہوریت تو بھٹو صاحب جب تک زندہ رہے انہوں نے پیپلز پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ بھٹو صاحب معیشت کے دائرے میں صرف اس حد تک سوشلسٹ ہوئے کہ انہوں نے تمام صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت کبھی سوشلزم کے خطوط پر استوار نہ ہوسکی بلکہ وہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی سرمایہ داری اور سوشلزم کے آمیزے کا منظر پیش کرتی رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ دین بھٹو صاحب کا نظریہ تھا، نہ جمہوریت ان کا نظریہ تھی اور نہ سوشلزم ان کا نظریہ تھا۔ بھٹو صاحب کے لیے یہ تمام چیزیں صرف نعرہ تھیں، ایسا نعرہ جو محض عوام کی تائید اور ان کے ووٹ کے لیے لگایا جاتا ہے۔ البتہ بھٹو صاحب امریکا مخالف ضرور تھے مگر اس سلسلے میں بھی ان کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ وہ امریکا کا نام لے کر اسے بُرا بھلا نہیں کہتے تھے بلکہ وہ اسے ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ بھٹو صاحب کی امریکا سے نفرت بھی گہری اور کسی نظریے کے مطابق نہ تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ’’سب سے بڑے بھٹو‘‘ نظریات کے حوالے سے اگر اتنے تہی دامن تھے تو باقی ’’بھٹوز‘‘ کا کیا حال ہوگا؟۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی میں یہ احساس پیدا ہوا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی میں امریکا کا بھی کردار ہے۔ چناں چہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں ’’امریکی سامراج‘‘ کے خلاف جذبات پیدا ہوئے۔ بے نظیر بھٹو بیرونِ ملک سے پاکستان آئیں تو ان کے تاریخی استقال میں جیالوں نے امریکا کے خلاف نعرے لگادیے۔ مگر یہ نعرے ڈیڑھ دو منٹ سے زیادہ فضا میں نہ گونج سکے۔ بے نظیر نے خود ہدایت کی کہ کارکن یہ نعرہ نہ لگائیں۔ بلاشبہ بے نظیر بھٹو مغرب کی ’’Darling‘‘ بن کر سامنے آئیں مگر ان کا ’’نظریاتی تشخص‘‘ بھٹو صاحب سے بھی زیادہ کمزور تھا۔ وہ نہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی بات کرتی تھیں، نہ انہیں اس بات پر اصرار تھا کہ وہ ’’سوشلسٹ‘‘ ہیں۔ وہ خود Democrate ضرور کہتی تھیں مگر جس طرح بھٹو صاحب کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری تھی، اسی طرح بے نظیر بھٹو کی شخصیت یا ان کی پیپلز پارٹی کا جمہوریت اور جمہوری رویوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگرچہ مغربی پریس جسے بے نظیر بھٹو بہت اہمیت دیتی تھیں انہیں ’’لبرل‘‘ کہتا تھا مگر بے نظیر بھٹو کے لبرل ازم کا یہ عالم تھا کہ وہ پسند نہ کرنے کے باوجود ہر وقت چادر اوڑھے رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے برسوں تک ہاتھوں میں تسبیح بھی تھامے رکھی۔ یہ عوام کے مذہبی جذبات کے استعمال نہیں ’’استیصال‘‘ کی ایک صورت تھی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کی لاٹری لگ گئی۔ مگر آصف علی زرداری کا نہ کوئی نظریہ تھا نہ ہے۔ ان پر بدعنوانی کے اتنے الزامات ہیں کہ لگتا ہے بدعنوانی ہی ان کا نظریہ حیات ہے۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی میں بھٹو ازم کا نعرہ بھی بلند ہوتا رہا ہے۔ لیکن بھٹو صاحب کا کوئی نظریہ نہ تھا تو نظریاتی اعتبار سے ’’بھٹو ازم‘‘ کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ بلاول زرداری کئی بار کہہ چکے ہیں پیپلز پارٹی ایک سیکولر پارٹی ہے، لیکن وہ ذرا بتائیں تو کہ ان کی پیپلز پارٹی نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں کتنی سیکولر پالیسیاں بنائی ہیں اور کتنے سیکولر اقدامات کیے ہیں؟ بلاشبہ بلاول، آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے دل میں سیکولر ازم موجود ہوگا مگر وہ اپنے اس سیکولر ازم کو عمل میں ڈھالنا تو دور کی بات ہے زبان پر بھی نہیں لاسکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاول زرداری کا سیکولر ازم بھی ایک ’’دھوکا‘‘ ہے۔
بلاول زرداری نے اپنے خطاب میں ایک عظیم الشان جھوٹ یہ بولا کہ سندھ میں ترقی صرف پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئی ہے۔ ہم نے ’’اندرون سندھ‘‘ کو بہت کم دیکھا ہے۔ لیکن جتنا دیکھا ہے اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ جب کوئی شخص اندرون سندھ کے سفر پر نکلتا ہے تو اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ کھنڈرات کے کسی ختم نہ ہونے والے سلسلے کے درمیان محو سفر ہے۔ سندھ کا سب سے بڑا اور سب سے جدید شہر کراچی ہے۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت بھی ہے، مگر کراچی کا یہ حال ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں مل کر کراچی کا کچرا بھی نہیں اُٹھوا پارہیں۔ کراچی کی اکثر گلیوں میں گٹر اُبل رہے ہیں، شہر میں چالیس پچاس لاکھ سے زیادہ افراد پانی کو ترس رہے ہیں، جنہیں پانی مل رہا ہے وہ آلودہ پانی پینے اور استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ واہ کیا ترقی ہے؟۔ بلاول نے ترقی کا لفظ تو استعمال کرلیا مگر وہ یہ بھی تو بتائیں کہ سندھ کی ترقی کی علامتیں کیا ہیں اور کہاں ہیں؟ پیپلز پارٹی نے اپنے چالیس سالہ دور حکومت میں کتنی صنعتیں لگائی ہیں۔ صوبے میں خواندگی اور تعلیم کی شرح کتنی بلند کی ہے؟ صوبے کی فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ کیا ہے؟ کتنے نئے ہسپتال قائم کیے ہیں؟۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایم کیو ایم مہاجروں کو کھا گئی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی سندھیوں کو ہڑپ کرگئی ہے۔ سندھ میں سیلاب آیا تو جماعت اسلامی کے کارکن کئی مقامات پر اپنے بھائیوں کی مدد کو پہنچے۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے پوچھا پیپلز پارٹی کا کوئی ضلعی عہدیدار آپ کی مدد کو آیا۔ انہوں نے کہا نہیں سائیں کوئی نہیں آیا۔ انہوں نے پوچھا صوبائی سطح کا کوئی رہنما یا وزیر آپ کی مدد کو آیا؟ جواب ملا نہیں سائیں کوئی نہیں آیا۔ انہوں نے پوچھا مرکزی سطح کا کوئی رہنما تمہاری مدد کو آیا، جواب ملا نہیں سائیں کوئی نہیں آیا۔
جماعت کے کارکنوں نے کئی کئی دن سے بھوکے بھائیوں کو کھلایا پلایا۔ انہیں خیمے اور دوسری ضروری اشیا فراہم کیں، یہاں تک کہ کئی مقامات پر انہیں ایک ایک کمرے کے مکانات تعمیر کرکے دیے۔ لیکن جماعت کے کارکنوں نے جب اپنے بھائیوں سے پوچھا کہ آئندہ ووٹ کس کو دو گے تو انہوں نے ایک ہی جواب دیا۔ سائیں ووٹ تو پیپلز پارٹی ہی کو دیں گے۔ بلاول بھٹو یہ جواب سنیں گے تو خوشی سے اچھل پڑیں گے۔ مگر اس جواب میں ایک بہت بڑا المیہ قید ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی نے دیہی سندھ کے لوگوں کا ’’سیاسی شعور‘‘ بھی ہڑپ کرلیا ہے اور انہیں پیپلز پارٹی کے کنویں کا مینڈک بنادیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم نے لاکھوں مہاجروں کا سیاسی شعور ہڑپ کرکے انہیں ایم کیو ایم کا کنویں کا مینڈک بنادیا ہے۔ کیا یہی سندھ کی ترقی ہے؟ بھلا سیاسی متبادل کا شعور چھین لینے سے بڑا سیاسی زوال کیا ہوسکتا ہے؟۔