امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ بن حمید نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں جیو نیوز کو جو انٹرویو دیا ہے اس کے مندرجات ایسے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کے سینے میں دل ہو تو اس کو ’’ہارٹ اٹیک‘‘ ہوجائے۔ اگر اس کی رگوں میں خون ہو تو اسے ’’بلڈ پریشر‘‘ کا عارضہ لاحق ہوجائے۔ اگر اس کی کوئی نفسیات ہو تو وہ نفسیاتی مریض بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں امام کعبہ کے انٹرویو کے مندرجات پڑھ کر اقبال اور عزیز حامد مدنی کا ایک ایک شعر اور اکبرالٰہ آبادی کا وہ مصرعہ یاد آگیا جس کی تشریح میں پانچ سو صفحات کی کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے
الفاظ و معانی میں تفارت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
مدنی صاحب کا شعر ہے
جو بُت کدے میں تھے وہ صاحبانِ کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
رہے اکبر تو انہوں نے سرسید کی عقل پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
جو عقل ہے وہ ’’سرکاری‘‘ ہے
مگر سوال یہ ہے کہ امام کعبہ نے کہا کیا ہے؟
امام کعبہ نے ایک بات تو وہی کہی ہے جو جنرل باجوہ اور احسن اقبال بھی کہہ چکے ہیں۔ یعنی یہ کہ جہاد ریاست کا کام ہے، مگر امام کعبہ نے اس بات کو مزید پھیلایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے اسلامی حکومتیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں جہاد و قتال کا اختیار انہی کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ایک مسلمان کمزوری کے باعث احکامات بجا لانے کے سلسلے میں معذور ہوتا ہے اسی طرح حکومت بھی معذور ہوسکتی ہے اور جہاد اور قتال کے قابل نہیں ہوسکتی۔ البتہ اسے مضبوط کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی حکومت کا ساتھ دیں تا کہ مسلمان امت کی حفاظت کرسکیں۔ آج پاکستان کیا سعودی عرب کے حکمرانوں اور ان کے آلہ کاروں کو یہ اصول یاد آرہا ہے کہ جہاد کا اعلان ریاست کا حق ہے مگر جب افغانستان میں جہاد ہورہا تھا اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر سے مجاہدین افغان جہاد میں شرکت کے لیے آرہے تھے اس وقت کسی شاہ، کسی جرنیل اور کسی امام کعبہ کو یہ یاد نہ آیا کہ جہاد ریاست کا حق ہے اور پاکستان سمیت کسی اسلامی ریاست نے افغانستان میں جہاد کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اتفاق سے افغان جہاد دو چار ماہ نہیں دس سال جاری رہا مگر کسی عالم دین اور کسی مسلم حکمران کو یاد نہ آیا کہ وہ ایک ایسے جہاد میں حصہ لے رہے ہیں جس کا کسی ریاست نے اعلان ہی نہیں کیا۔ آخر یہ کیسا اصول اور ریاست کا کیسا حق ہے جو دس دس سال کسی کو یاد نہیں آتا؟ کیا افغان جہاد کے موقعے پر مسلم حکمرانوں اور علما کے حافظے کی کمزوری یا نسیان کا سبب یہ تھا کہ اس وقت ’’امریکا بہادر‘‘ اور ’’یورپ بہادر‘‘ بھی جہاد کی حمایت کررہے تھے؟ اس سوال کا جواب سو فی صد اثبات میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلم حکمرانوں اور ان کے زیر اثر علما کا ’’اصل اصول‘‘ اسلام نہیں ’’امریکا‘‘ ہے۔ امریکا جہاد کی حمایت کرے تو کسی کو ریاست کا حق یاد نہیں آتا۔ لیکن جیسے ہی امریکا جہاد کی مخالفت کرنا شروع کرتا ہے سب کو اسلام کا یہ اصول یاد آنے لگتا ہے کہ جہاد کا اعلان ریاست کا حق ہے۔ تو کیا مسلم حکمرانوں کو ’’ریاست کا جہاد‘‘ عزیز ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تو اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور ملا عمر اس کے امیر تھے۔ اتفاق سے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی کیا ہوا تھا۔ ہوا یہ کہ امریکا کی جارحیت کے آغاز کے ساتھ ہی ملا عمر نے امریکا کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ جہاد کا یہ اعلان حکومت کا اعلان بھی تھا۔ ریاست کا اعلان بھی تھا چناں چہ جو مسلم حکمران اور ان کے زیر اثر جو علمائے کرام اب جہاد کے سلسلے میں ریاست ریاست کررہے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ چوں کہ ایک اسلامی حکومت اور ایک اسلامی ریاست نے جہاد کا اعلان کیا ہے اس لیے یہ جہاد شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہ آیا، بلکہ جنرل پرویز مشرف نے تو ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مظلوم مجاہدوں کو جنہوں نے پاکستان سمیت کسی مسلم ملک کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا تھا پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا گیا اور جنرل پرویز کے بقول ’’مسلمانوں کی فروخت‘‘ سے انہوں نے کروڑوں ڈالر کمائے۔ آپ نے دیکھا ہے یہ جہاد کے اعلان کے سلسلے میں ریاست کی دلیل کی ’’اوقات‘‘۔ اس اوقات سے معلوم ہوا کہ اگر امریکا اور یورپ نہ ہیں تو مسلم دنیا کے حکمران اعلان جہاد کے سلسلے میں ’’ریاست‘‘ کو بھی خاطر میں نہ لائیں گے۔ اس لیے کہ ان حکمرانوں کا مسئلہ اسلام کا حق ہونا ہے ہی نہیں۔ یہ حکمران تو صرف امریکا کو ’’حق‘‘ مانتے ہیں۔
امام کعبہ نے اپنے انٹرویو میں ایک اور غضب یہ کیا ہے کہ انہوں نے فرد کی کمزوری اور ریاست کی کمزوری کو ایک سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح فرد اسلام کے احکامات کو بجا لانے سے معذور ہوسکتا ہے اسی طرح ریاست بھی ہوسکتی ہے۔ یہ اصول غلط ہے مگر ہم اما کعبہ کی دلیل یا اجتہاد ہی کو درست مان لیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے گزشتہ تین چار صدیوں میں کبھی جہاد کا اعلان نہیں کیا۔ اس عرصے میں جہاں جتنا جہاد ہوا ہے سید منور حسن کی اصطلاح میں ’’نجی شعبے‘‘ میں ہوا ہے۔ بدقسمتی سے حالات یہی رہے تو آئندہ بھی دو سو تین سو سال تک تو مسلم حکمران جہاد کا اعلان کرنے والے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم عوام کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ قرآن و سنت سے جو جہاد ثابت ہے اس کے برپا ہونے کا بہت دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اتفاق سے امام کعبہ نے مسلم حکمرانوں یا ریاستوں کی جہاد کے سلسلے میں ان کی معذوری کو ان کی کمزوریوں سے منسلک کیا ہے تو کیا مسلم حکمران واقعتاً کمزور ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے جرنیل ہوں یا بادشاہ یا نام نہاد جمہوری حکمران سب کے سب اپنے عوام کو کچل رہے ہیں، فتح کررہے ہیں، ان کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلم حکمران اور مسلم ریاست بڑی طاقت ور ہیں۔ مسلم دنیا بالخصوص عرب ریاستوں کے پاس گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے پیٹرو ڈالرز کے دریا بہہ رہے ہیں۔ یعنی یہ حکمران معاشی اعتبار سے بھی طاقت ور ہیں، مسلم حکمرانوں نے چاہا ہوتا تو وہ جدید ترین اسلحے سے بھی لیس ہوتے، پاکستان اگر ایٹم بن بنا سکتا ہے تو دوسرے ممالک بھی ایسا کرکے خود کو مضبوط کرسکتے تھے۔