ان بنیادی تصورات اور ان تصورات سے پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیے بغیر کسی شے، رجحان یا رویے کی اہمیت کا تعین نری جہالت ہے۔ اس میں ترقی کے تصورات بھی ہیں اور پستی کے تصورات بھی، علم کے تصورات بھی اور جہالت کے تصورات بھی۔
اس سلسلے میں مغربی تہذیب نے جو فکری سفر طے کیا ہے، وہ دلچسپ نہیں مضحکہ خیز ہے۔ اسی لیے اہل فکر و نظر نے اسے فکر کے ارتقا کے بجائے فکر کی Degeneration سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا آغاز یہاں سے ہوا کہ خدا کی نفی کرکے اس کی جگہ انسان کو بٹھادیا گیا اور پوپ نے اعلان کیا کہ:
’’Proper study of makind is man‘‘ خدا کی جگہ انسان کو بٹھانے سے انسان پرستی (Humanism) وجود میں آئی مگر پھر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ انسان (Human being) کیوں، انسان تو ایک نوع ہے۔ فرد Individual کیوں نہیں۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو سوال پیدا ہوا کہ فرد کی سب سے توانا فیکلٹی کون سی ہے؟ معلوم ہوا کہ عقل جزوی (Reason) ہے۔ چناں چہ عقل کو اتھارٹی مان لیا گیا مگر پھر کہا گیا کہ نہیں جناب Rationalism بھی ٹھیک نہیں۔ Reason تو جبلت کے پیچھے چلتی ہے۔ چناں چہ بات جبلت پرستی تک آگئی اور پھر بالآخر اضافیت اور Paragmatism تک بات پہنچی اور Paragmatism کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پہنچ کر فلسفہ ختم ہوگیا۔ Paragmatism سے افادیت پرستی کے تصورات پیدا ہوئے اور ہمارے یہاں اللہ بخشے سرسید احمد خان نے افادیت پرستی کے رجحانات کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور صاف کہہ دیا کہ مذہب کی جو چیزیں خلافِ عقل ہیں، وہ مسترد کیے جانے کے قابل ہیں اور جن رسوم میں ’’افادہ‘‘ نہیں، اُنہیں چھوڑ دینا ہی عین عقل ہے۔ مگر یہ دوسرا قصہ ہے۔ اصل میں ہم کہہ یہ رہے تھے کہ مغربی تہذیب انہی تین مرکزی یا بنیادی تصورات کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ نظر کا نتیجہ ہے، جن کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے اور یہ بات ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ان بنیادی تصورات کا مغربی فکر نے کیا جواب دیا ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے آغاز میں چوں کہ انکار کا شدید رجحان موجود تھا، اس لیے اہل مغرب ان بنیادی تصورات کے بارے میں منفی طور پر سہی مگر سوچتے ضرور تھے۔ لیکن اب ان کی تہذیب جس منزل پر آگئی ہے، وہاں جس چیز کی اہمیت ہے، وہ صرف روزمرہ کی زندگی یعنی Day to day life ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اہل فکر و نظر کی زندگی بھی یہی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیش تر سرگرمیوں کا مرکز یہی ہے۔ ان کی بین الاقوامیت اور ان کی سائنسی و تیکنیکی ترقی کا رخ بھی ’’روزمرہ‘‘ کی زندگی کی جانب ہے اور وہ دوسری قوموں کے بارے میں جس ’’فکری مندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے سلسلے میں پچیس اور پچاس سال کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں، اُن کا ہدف بھی اپنی روزمرہ زندگی کو قائم رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس صورت میں ان کی ترقی کا کوئی تصور ہمارے لیے کیوں کر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ہم خدا کو ہر چیز کا خالق و مالک سمجھتے ہیں۔ انسان کو زمین پر اس کا خلیفہ کہتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم ہر تصور کے سلسلے میں قرآن و سنت کو اپنا بنیادی حوالہ بناتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہیں مگر ’’ترقی‘‘ کے تصور کے سلسلے میں نہ ہم قرآنی تصورات کا ذکر کرتے ہیں، نہ صحابہؓ کی زندگیوں سے حوالہ پیش کرتے ہیں، نہ سنت رسول کو مشعل راہ بناتے ہیں۔ بس اس کو جوں کا توں مان لیتے ہیں جیسے یہ ثابت شدہ چیز ہے۔ کیا یہ بھی ہمارا کوئی خوشگوار مغالطہ ہے یا کم علمی؟ بدنیتی ہے یا مغربی تہذیب کا سحر؟ یا کچھ اور؟؟؟
ہمارا ایک خوشگوار مغالطہ یہ ہے کہ تہذیب کا حاصل سائنسی و تیکنیکی و اقتصادی ترقی ہے۔ یہ بات جدید مغربی تہذیب کے پس منظر میں تو درست ہے مگر اسلامی پس منظر میں نہیں۔ نبی اکرمؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا تھا یا خلفائے راشدین کے زمانے کا جو معاشرہ تھا، وہ سائنسی و تیکنیکی اور اقتصادی ترقی والا معاشرہ تو نہیں تھا، وہ تو ایمان کی روشنی والا معاشرہ تھا اور یہی معاشرہ ہمارے لیے ماڈل ہے۔ اس معاشرے میں سائنسی، تیکنیکی اور اقتصادی ترقی بھی ہوسکتی ہے مگر وہ کبھی بھی ’’معیار‘‘ نہیں ہوگی اور جو چیز معیار نہیں ہوگی اس کے لیے انسان کی ساری توانائیوں کو وقف نہیں کیا جاسکے گا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ تو نہیں پوچھے گا کہ تم نے کتنے سائنسی نظریے پیش کیے تھے یا مریخ پر جانے کے لیے کتنے خلائی جہاز تیار کیے تھے، وہ تو مجھ سے کچھ اور ہی پوچھے گا اور یہ ’’کچھ اور‘‘ جس کے پاس جتنا زیادہ ہوگا وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔
مغربی تہذیب کے بارے میں ان خیالات کے اظہار کا مقصد یہ نہیں کہ ہم مغرب سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر یہ بات کہ ہم وہ غلطیاں نہ کریں جو مغرب کرچکا ہے۔ ان تجربوں سے بچیں جو خود مغرب کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب کا کئی صدیوں پر محیط ایک وسیع تجربہ ہمارے سامنے ہے اور یہ اللہ کا بڑا کرم ہے۔ اگر ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور اپنے دینی سرمائے سے قریبی تعلق استوار کرلیں تو اس نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوسکتا ہے جو صدیوں سے ہمارا خواب ہے۔ سقراط نے اس سوال کے جواب میں کہ ’’تم نے دانش کس سے سیکھی ہے‘‘ کہا تھا کہ احمقوں سے۔ اگر کوشش کریں تو ہم بھی مغرب کی حماقتوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ہمیں خود اپنی حماقتوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ ان حماقتوں سے بھی جو عملیت کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔