سرسید کے قرآن میں معجزات، معجزات نہیں بلکہ ایسے واقعات ہیں جن کو سرسید کے بقول صرف عقل کے ذریعے سمجھنا چاہیے۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع سرسید کا تصور خدا ہے۔
سرسید کے تصور خدا کا ایک اور ہولناک نقص یہ ہے کہ سرسید نے برصغیر پر انگریزوں کے قبضے اور مسلمانوں سمیت برصغیر کے تمام لوگوں کی غلامی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ سرسید نے لکھا۔
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے‘‘۔ (روئداد محمدن ایجوکیشنل کانفرنس۔ صفحہ169۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری صفحہ242)
ایک اور مقام پر سرسید نے تحریر فرمایا۔
’’مذہب کی رو سے ہمارا فرض ہے کہ ہم بادشاہ وقت کی، گو وہ کافر ہی کیوں نہ ہو دل سے اطاعت کریں‘‘۔ (مکمل مجموعہ لیکچرز، صفحہ134۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ242)
سرسید نے یہ دعویٰ تو کردیا کہ ہندوستان میں برٹش حکومت اللہ کی رحمت ہے۔ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں قرآن و سنت سے کوئی حوالہ دیا نہ ماضی و حال کے کسی اجماع کی مثال دی۔ یہاں تک کہ وہ اس سلسلے میں کوئی ’’شخصی رائے‘‘ بھی پیش نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی رائے دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ سرسید کا خدا قرآن و سنت سے ثابت خدا نہیں ہے۔ بلکہ سرسید نے ایسا خدا خود ایجاد کیا ہے جو غلامی کو مسلمانوں کے لیے رحمت قرار دیتا ہے۔ ورنہ اسلام کا خدا تو ایسا خدا ہے جو غزوۂ بدر میں 313 مسلمانوں کو ایک ہزار کے لشکر کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ قرآن کا خدا ایسا خدا ہے جو مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم مظلوموں کی مدد کے لیے نکلو خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ مسلمان کیا خدا اور مذہب کے کھلے منکر بھی سرسید کی طرح غلامی کو celebrate نہیں کرتے بلکہ اس کی ہر ممکن مزاحمت کرتے ہیں مگر سرسید نے انگریزوں کی حکومت اور ان کے تسلط کو خدا کی رحمت بنادیا ہے۔ گویا انہوں نے خدا سے ایک ایسی بات منسوب کی ہے جس کی کوئی سند موجود نہیں۔
سرسید نے یہ کہہ کر بھی اسلام پر بہتان باندھا ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے کہ بادشاہ وقت کی اطاعت کریں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا حکم واضح ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور ان اولی الامر یا حکمرانوں کی اطاعت کرو جو ’’تم میں سے ہوں‘‘۔ مگر سرسید نے انگریزوں کی محبت میں قرآن کے اس حکم کو بھی بدل ڈالا ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور خدا کے کلام کو بدلنے والے کا تصور خدا اسلام کا تصور خدا نہیں۔ امت کا تصور خدا نہیں۔ اس لیے کہ امت میں خدا کے حکم کی تعبیر کے حوالے سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر پوری امت مل کر بھی قرآن کے کسی حکم کو بدل یا مسخ نہیں کرسکتی۔ مگر سرسید نے یہی کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرسید کا تصور خدا شخصی، ذاتی یا انفرادی اور من گھڑت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کا تصور خدا ہی درست نہ ہو اس کی فکر کیسے درست ہوسکتی ہے؟ اور وہ شخص مسلمانوں کا محسن کیسے ہوسکتا ہے؟ مگر ’’عاشقان سرسید‘‘ کا معاملہ عجیب ہے۔ آپ کہیں گے کہ سرسید نے مسلمانوں کا تصور خدا بدل دیا تو عاشقان سرسید کہیں گے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ انہوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کا بندوبست کیا۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک علی گڑھ یونیورسٹی کی اہمیت اسلام اور امت کے تصور خدا سے بھی زیادہ ہے۔ غور کیا جائے تو یہ طرزِ عمل اعلان کیے بغیر اسلام کے تصور خدا کی توہین ہے۔
سرسید کے تصور خدا کا ایک پہلو وہ ہے جس کے حوالے سے برصغیر کے بڑے بڑے علما کفر کے فتوے دینے پر مجبور ہوئے۔ لیکن ان فتوؤں کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ یہاں ہماری دلچسپی صرف یہ بتانے میں ہے کہ سرسید نے اپنی تحریروں میں خدا کا کیا تصور پیش کیا اور اس کا ذکر کن الفاظ کے ذریعے ہوا۔ سرسید نے لکھا ہے۔
’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے، نہ مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب، نہ یہودی، نہ عیسائی وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو نیچری کہتا ہے، پھر ہم بھی اگر نیچری ہوں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری صفحہ63)
سرسید مغرب کے تصور فطرت یا concept of nature سے مرعوب تھے چناں چہ انہوں نے خدا کو بھی نیچری قرار دیا ہے۔ یہ اسلام کے تصور خدا کی توہین ہے کیوں کہ جدید مغربی تہذیب میں لفظ فطرت کا جو مفہوم ہے اس کا قرآن و سنت سے کیا ہندوازم، عیسائیت اور چینی مذہب کی روایت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سرسید کی فکر کے اس پہلو کی تفصیل ایک اور کالم میں بیان ہوگی۔ البتہ یہاں اس امر پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اردو زبان کی روایت میں ’’چھٹا ہوا‘‘ کی ترکیب صرف بدمعاشوں کے لیے استعمال ہوئی ہے، مثلاً جب ہمیں کسی شخص کی بدمعاشی پر زور دینا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ’’ارے وہ تو چھٹا ہوا بدمعاش ہے‘‘۔ مگر سرسید نے اظہار کا یہ سانچہ پوری بے خوفی کے ساتھ خدا کے لیے استعمال کیا ہے اور فرمایا ہے کہ معاذ اللہ خدا چھٹا ہوا نیچری ہے۔