انسانی فکر میں خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی سب سے بڑے اور سب سے اہم معاملے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ خدا کو موجود ماننے یا نہ ماننے سے زندگی کی معنویت یکسر بدل جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف خدا کے موجود ہونے یا نہ ہونے ہی کا نہیں ہے۔ انسانی فکر میں ’’تصورِ خدا‘‘ کی اہمیت بھی اساسی اور بنیادی ہے۔ اس لیے کہ تصورِ خدا کے بدل جانے سے بھی سب کچھ بدل کر رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چار مثالیں اہمیت کی حامل ہیں۔
پہلی مثال ہندو ازم کی ہے۔ ہندو ازم کی مقدس کتابوں میں ایک خدا کا تصور موجود ہے مگر تاریخ کے طویل سفر میں ہندو ایک خدا کے تصور پر قانع نہ رہے۔ انہوں نے پہلے ایک خدا کو تین خداؤں یعنی برہما، وِشنو اور شِو میں تقسیم کیا اور بالآخر ان کی مذہبی فکر کی روایت میں 33 کروڑ خدا نمودار ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو مذہب اپنی اصل میں ’’توحید پرست‘‘ تھا وہ بدترین شرک کی مثال بن گیا۔ اس سے ہندو ازم میں بت پرستی پیدا ہوئی اور بت پرستی نے ہندوؤں کی مذہبی اور تہذیبی فکر کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
عیسائیت بھی اپنی اصل میں توحید کی علمبردار تھی۔ لیکن تثلیث کے نظریے نے خدا کے دو شریک ایجاد کرلیے۔ عیسائی کہنے لگے کہ نعوذباللہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں اور وہ اس حیثیت سے خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ عیسائیوں نے روح القدس یعنی حضرت جبرئیلؑ کے سلسلے میں بھی ہولناک غلو سے کام لیا اور انہیں بھی خدا کا شریک کار بنادیا۔ خدا کے تصور کی یہ تبدیلی عیسائیت کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوئی ہے۔ ان کے فن تعمیر تک پر۔ آپ جب کسی گرجا گھر کو دیکھتے ہیں تو اس پر اسرارِ مسیح یا Mystry of the christ سایہ فگن نظر آتی ہے۔
یورپ کی تاریخ میں ایک مرحلے پر ڈی ازم کا فلسفہ پیدا ہوا۔ یہ فلسفہ خدا کا منکر نہیں تھا لیکن اس فلسفے کا تصور خدا یہ تھا کہ خدا نے کائنات بنائی ضرور ہے مگر وہ کائنات بنانے کے بعد اس کائنات سے وابستہ نہیں رہا۔ چناں چہ یہ کائنات اب فطرت کے قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اس فلسفے نے یورپ میں انکار خدا کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔
اسلامی تاریخ میں معتزلہ نے اسلام کے تصور خدا کو بدلنے کی کوشش کی مگر معتزلہ کا تصور خدا ان کے ساتھ تاریخ کے قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا اور مسلمانوں کا سواد اعظم اسی تصور خدا کا قائل ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ اسلام کے تصور خدا کی خاص بات یہ ہے کہ اسلام کا خدا ایک قادر مطلق خدا ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں۔ وہ حی وقیوم ہے۔ اسلام کا خدا ایسا خلاق اور ایسا قادر مطلق ہے کہ اس نے کُن کہا اور پوری کائنات وجود میں آگئی۔ اس کی قدرت کاملہ ایسی ہے کہ اس نے حضرت آدم کو ماں اور باپ کے بغیر تخلیق کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کو والد کے بغیر دنیا میں لے آیا۔ اس کے حکم سے آتش نمرود سرد ہوگئی اور اس نے حضور اکرمؐ کو جسمانی معراج سے نوازا۔ سرسید کے سلسلے میں تصور خدا کی بحث اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ بعض لوگ مولانا قاسم نانوتوی سے متعلق اس روایت کا حوالے دیتے ہیں جس میں کسی شخص نے مولانا نانوتوی سے سرسید کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا سرسید ایک خدا، حضور اکرمؐ کی رسالت اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں؟ سوال پوچھنے والے نے جب کہا کہ جی وہ ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں تو مولانا نانوتوی نے کہا کہ پھر وہ صاحب ایمان ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی کے استفسار سے ظاہر ہے کہ انہیں سرسید کے تصورِ خدا کی نوعیت معلوم نہیں تھی ہوتی تو وہ اس سلسلے میں سوال ہی نہ کرتے۔ بلاشبہ سرسید خدا کے منکر نہیں تھے مگر بدقسمتی سے ان کا تصورِ خدا اسلام اور امت مسلمہ کے اجماع سے نمودار ہونے والا تصور خدا نہیں ہے بلکہ جس طرح ہندو ازم، عیسائیت اور ڈی ازم کے پیرو کاروں نے تصور خدا کو بدل لیا تھا اسی طرح سرسید کا خدا بھی سرسید کے ذہن کی تخلیق ہے۔ لیکن اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
سرسید کی مذہبی فکر کا ایک المناک اور ہولناک پہلو ہے کہ انہوں نے قرآن مجید میں بیان ہونے والے کسی ایک معجزے کا نہیں تمام معجزات کا انکار کیا ہے اور ان معجزات کی ایسی شرمناک اور رکیک ’’عقلی تاویلات‘‘ پیش کی ہیں کہ اسلام کی پوری تاریخ میں ایسی شرمناک اور رکیک تاویلات کسی شخص سے منسوب نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا سرسید کے تصور خدا سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام اور امت مسلمہ کا خدا ایسا قادر مطلق ہے کہ وہ جب چاہے قوانین فطرت کو بدل بلکہ اُلٹ سکتا ہے۔ ایسے قادرِ مطلق خدا کے لیے معجزہ اور کرامت ’’معمولی‘‘ اور ’’معمول ‘‘کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا و مرسلین معجزات اور اولیا کرامات کے حامل رہے ہیں۔ مگر سرسید نے پروٹسٹنٹ ازم سے جو عقل مستعار لی تھی اس نے سرسید میں یہ جرأت پیدا کی کہ وہ تمام معجزات کا انکار کردیں۔ سرسید نے ایسا ہی کیا۔ سرسید کے اس انکار سے ثابت ہے کہ سرسید کا خدا، خدا تو ہے مگر قادر مطلق نہیں ہے۔ بلکہ وہ خدا اپنے پیدا کیے ہوئے نام نہاد قوانین فطرت کا پابند ہے اور کسی بھی صورت میں قوانین فطرت کے خلاف کام نہیں کرسکتا۔ چوں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا اس لیے معجزات کا ظہور ممکن نہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلام قوانین فطرت کی موجودگی کا منکر نہیں اور نہ امت میں کوئی بڑا عالم ایسا گزرا ہے جس نے فطرت کے قوانین کا انکار کیا ہو مگر اسلام کہتا ہے کہ خدا قادر مطلق ہے۔ وہ چاہے تو قوانین فطرت کو معطل کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید اور اسلام کے تصور خدا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسلام کا خدا قادر مطلق اور ہر چیز پر متصرف ہے اس کے برعکس سرسید کا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کا پابند بلکہ ان کا ’’اسیر‘‘ ہے اور اپنے ہی قوانین کا اسیر خدا اسلام اور امت مسلمہ کا خدانہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید خدا کے تو نہیں مگر ’’مطلق خدا‘‘ کے ’’منکر‘‘ ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ قرآن کے جزو کا منکر بھی کافر ہے۔ یہ ہماری ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں بلکہ پوری امت کی رائے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرسید کا تصور خدا ہی امت کے تصور خدا سے مختلف نہیں بلکہ ان کا تصور قرآن بھی امت کے تصور قرآن سے مختلف ہے کہ امت کے قرآن میں معجزات قرآن کا جزو لاینفک ہیں۔
سرسید کے قرآن میں معجزات، معجزات نہیں بلکہ ایسے واقعات ہیں جن کو سرسید کے بقول صرف عقل کے ذریعے سمجھنا چاہیے۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع سرسید کا تصور خدا ہے۔
سرسید کے تصور خدا کا ایک اور ہولناک نقص یہ ہے کہ سرسید نے برصغیر پر انگریزوں کے قبضے اور مسلمانوں سمیت برصغیر کے تمام لوگوں کی غلامی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ سرسید نے لکھا۔
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے‘‘۔ (روئداد محمدن ایجوکیشنل کانفرنس۔ صفحہ169۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری صفحہ242)
ایک اور مقام پر سرسید نے تحریر فرمایا۔
’’مذہب کی رو سے ہمارا فرض ہے کہ ہم بادشاہ وقت کی، گو وہ کافر ہی کیوں نہ ہو دل سے اطاعت کریں‘‘۔ (مکمل مجموعہ لیکچرز، صفحہ134۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ242)
سرسید نے یہ دعویٰ تو کردیا کہ ہندوستان میں برٹش حکومت اللہ کی رحمت ہے۔ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں قرآن و سنت سے کوئی حوالہ دیا نہ ماضی و حال کے کسی اجماع کی مثال دی۔ یہاں تک کہ وہ اس سلسلے میں کوئی ’’شخصی رائے‘‘ بھی پیش نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی رائے دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ سرسید کا خدا قرآن و سنت سے ثابت خدا نہیں ہے۔ بلکہ سرسید نے ایسا خدا خود ایجاد کیا ہے جو غلامی کو مسلمانوں کے لیے رحمت قرار دیتا ہے۔ ورنہ اسلام کا خدا تو ایسا خدا ہے جو غزوۂ بدر میں 313 مسلمانوں کو ایک ہزار کے لشکر کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ قرآن کا خدا ایسا خدا ہے جو مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم مظلوموں کی مدد کے لیے نکلو خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ غلامی اتنی ہولناک چیز ہے کہ مسلمان کیا خدا اور مذہب کے کھلے منکر بھی سرسید کی طرح غلامی کو celebrate نہیں کرتے بلکہ اس کی ہر ممکن مزاحمت کرتے ہیں مگر سرسید نے انگریزوں کی حکومت اور ان کے تسلط کو خدا کی رحمت بنادیا ہے۔ گویا انہوں نے خدا سے ایک ایسی بات منسوب کی ہے جس کی کوئی سند موجود نہیں۔
سرسید نے یہ کہہ کر بھی اسلام پر بہتان باندھا ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے کہ بادشاہ وقت کی اطاعت کریں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا حکم واضح ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور ان اولی الامر یا حکمرانوں کی اطاعت کرو جو ’’تم میں سے ہوں‘‘۔ مگر سرسید نے انگریزوں کی محبت میں قرآن کے اس حکم کو بھی بدل ڈالا ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور خدا کے کلام کو بدلنے والے کا تصور خدا اسلام کا تصور خدا نہیں۔ امت کا تصور خدا نہیں۔ اس لیے کہ امت میں خدا کے حکم کی تعبیر کے حوالے سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر پوری امت مل کر بھی قرآن کے کسی حکم کو بدل یا مسخ نہیں کرسکتی۔ مگر سرسید نے یہی کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرسید کا تصور خدا شخصی، ذاتی یا انفرادی اور من گھڑت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کا تصور خدا ہی درست نہ ہو اس کی فکر کیسے درست ہوسکتی ہے؟ اور وہ شخص مسلمانوں کا محسن کیسے ہوسکتا ہے؟ مگر ’’عاشقان سرسید‘‘ کا معاملہ عجیب ہے۔ آپ کہیں گے کہ سرسید نے مسلمانوں کا تصور خدا بدل دیا تو عاشقان سرسید کہیں گے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ انہوں نے علی گڑھ میں مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کا بندوبست کیا۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک علی گڑھ یونیورسٹی کی اہمیت اسلام اور امت کے تصور خدا سے بھی زیادہ ہے۔ غور کیا جائے تو یہ طرزِ عمل اعلان کیے بغیر اسلام کے تصور خدا کی توہین ہے۔
سرسید کے تصور خدا کا ایک پہلو وہ ہے جس کے حوالے سے برصغیر کے بڑے بڑے علما کفر کے فتوے دینے پر مجبور ہوئے۔ لیکن ان فتوؤں کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ یہاں ہماری دلچسپی صرف یہ بتانے میں ہے کہ سرسید نے اپنی تحریروں میں خدا کا کیا تصور پیش کیا اور اس کا ذکر کن الفاظ کے ذریعے ہوا۔ سرسید نے لکھا ہے۔
’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے، نہ مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب، نہ یہودی، نہ عیسائی وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو نیچری کہتا ہے، پھر ہم بھی اگر نیچری ہوں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری صفحہ63)
سرسید مغرب کے تصور فطرت یا concept of nature سے مرعوب تھے چناں چہ انہوں نے خدا کو بھی نیچری قرار دیا ہے۔ یہ اسلام کے تصور خدا کی توہین ہے کیوں کہ جدید مغربی تہذیب میں لفظ فطرت کا جو مفہوم ہے اس کا قرآن و سنت سے کیا ہندوازم، عیسائیت اور چینی مذہب کی روایت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ لیکن سرسید کی فکر کے اس پہلو کی تفصیل ایک اور کالم میں بیان ہوگی۔ البتہ یہاں اس امر پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ اردو زبان کی روایت میں ’’چھٹا ہوا‘‘ کی ترکیب صرف بدمعاشوں کے لیے استعمال ہوئی ہے، مثلاً جب ہمیں کسی شخص کی بدمعاشی پر زور دینا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ’’ارے وہ تو چھٹا ہوا بدمعاش ہے‘‘۔ مگر سرسید نے اظہار کا یہ سانچہ پوری بے خوفی کے ساتھ خدا کے لیے استعمال کیا ہے اور فرمایا ہے کہ معاذ اللہ خدا چھٹا ہوا نیچری ہے۔