قیافہ شناسی کی طرح ذہن شناسی بھی ایک کام ہے۔ اس کام میں مہارت کے بغیر آپ افراد، گروہوں اور قوموں کے مزاج، رویوں اور نفسیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا جواب نہیں۔ یہ عناصر کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ ان کے یہاں ایک ہی بات کے دو معنی ہوتے ہیں، ایک ان کے اپنے لیے اور ایک دوسرے کے لیے۔ مسعود اشعر پاکستان کے سیکولر اور لبرل ادیبوں اور صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والا کالم سیکولر اور لبرل عناصر کے ذہن اور نفسیات کو سمجھنے کے سلسلے میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کالم 21 نومبر 2017ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ کالم کا موضوع ختم نبوت کے حوالے سے اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا ہے۔ آئیے اس کالم کے مندرجات کے تجزیے کے ذریعے پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کے اجتماعی ذہن اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ مسعود اشعر لکھتے ہیں۔
’’ ہمارے لبرل دوست خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن عربی کا یہ محاورہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہ ’’عوام کا لانعام‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کے لیے صرف کسی عقیدے یا نظریے کی گولی کھلا دینا کافی ہے‘‘۔
مسعود اشعر کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ختم نبوت کے مسئلے پر اسلام آباد میں دھرنا دیا وہ کالانعام یعنی ’’جانور‘‘ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر عوام سیکولر ازم، سوشلزم یا لبرل ازم کے لیے جدوجہد کریں تو عوام ’’باشعور‘‘ ہوتے ہیں۔ عوام اور ان کی رائے ’’مقدس‘‘ ہوتی ہے۔ ان کی ’’اکثریت‘‘ جمہوریت کہلاتی ہے اور اکثریت کی حکومت کی ایک تقدیس ہوتی ہے۔ لیکن اگر عوام اسلام کا پرچم لے کر کھڑے ہوجائیں۔ توہین رسالت پر احتجاج کرنے لگیں، ختم نبوت پر حملے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں تو اچانک عوام کالانعام یعنی جانور ہوجاتے ہیں۔ ’’بے شعور‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ’’قدامت پسند‘‘ نظر آنے لگتے ہیں بلکہ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کی گالی دی جائے۔ اس حوالے سے تاریخ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ روس اور چین میں عوام انقلاب لائے اور دنیا بھر کے سوشلسٹ، مارکسٹ اور سیکولر عناصر روس اور چین کے عوام کو ’’انقلابی‘‘ کہتے ہیں۔ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی سیکولر دانش ور یا ادیب کہہ رہا ہو کہ روس اور چین کے عوام ’’جانور‘‘ تھے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لائی۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اس تجربے پر گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ 1970ء میں پاکستان کے عوام ’’باشعور‘‘ ہوگئے تھے۔ حالاں کہ کہا جانا چاہیے کہ 1970ء میں پاکستان کے عوام جانور بن گئے تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی گولی کھلا کر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں تبدیل کردیا تھا۔ سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کا ایک پورا گروہ ان دنوں میاں نواز شریف کے ساتھ لگا ہوا ہے اور وہ اپنے کالموں اور گفتگو میں لاکھوں مرتبہ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں اور ووٹ ’’مقدس‘‘ ہے۔ چناں چہ اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ بہت اچھی بات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کو اقتدار میں لانے والے بھی تو ’’کالانعام‘‘ یعنی جانور ہیں۔ بھیڑ بکریاں ہیں پھر ان کے ووٹ کا کیوں احترام کیا جائے؟ اس ضمن میں ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر کا معاملہ مغرب کے پالیسی سازوں اور ذرائع ابلاغ سے مختلف نہیں۔ مسلم دنیا میں امریکا اور یورپ کے آلہ کار اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے اقتدار میں آنے کا عمل ’’جمہوریت‘‘ کہلاتا ہے اور جمہوریت چوں کہ مغرب کا ایک ’’مقدس‘‘ تصور ہے اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے لیکن اگر مسلم دنیا میں کوئی اسلامی تحریک انتخاب جیت جاتی ہے یا اقتدار میں آجاتی ہے تو ایسی جمہوریت کی راہ روکنا، اسے سبوتاژ کرنا، اس پر مقامی جرنیلوں کو چھوڑ دینا ’’تہذیب و تمدن‘‘ کی ’’بقا‘‘ کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے۔ واہ کیا جمہوریت ہے؟ کیا ’’جمہوریت پسندی‘‘ ہے؟ کیا ’’عوام دوستی ہے‘‘؟ کیا عقل پرستی یا ’’Rationalism‘‘ ہے؟۔
مسعود اشعر نے اپنے کالم میں ایک جگہ فرمایا ہے۔ ’’ہم نے ارون دتی رائے کے ناول کے حوالے سے ایک جگہ لکھ دیا تھا کہ کرپشن کرپشن کی رٹ لگا کر اگر ہم اپنے تمام سیاست دانوں کو گاؤں بدر کردیں گے تو میدان میں کون رہ جائے گا؟ وہی عوام کی اندھی عقیدت کا فائدہ اٹھانے والے‘‘۔
یہ چند سطور ایسی ہیں کہ ان پر دو سو صفحے کی ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر یہاں ہم اختصار سے کام لینے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی سیاسی نظام کام کررہے ہیں ان میں کسی سطح پر بھی بدعنوانی یا کرپشن کی گنجائش نہیں۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل یا نیم سیکولر اور نیم لبرل رہنما مثلاً میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری کرپٹ ہیں تو ہمیں ان کی کرپشن کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کیوں کہ اگر یہ لوگ کرپشن کے الزامات کے تحت اقتدار یا سیاست سے باہر ہوگئے تو کیا ہوگا؟ پھر تو ہر طرف مذہب پرستوں کا راج ہوگا۔ واہ کیا ’’روشن خیالی‘‘ ہے۔ واہ کیا دلیل ہے۔ لیکن اگر بدقسمتی سے پاکستان کے دوچار مذہبی رہنماؤں پر بھی کرپشن کا الزام ہوتا تو سیکولر اور لبرل عناصر آسمان سر پر اٹھا لیتے۔ کہتے سیاست اور کرپشن؟؟ توبہ توبہ۔ یہ تو ’’سیاسی کفر‘‘ ہے۔ یہ تو ’’سیاسی شرک‘‘ ہے۔ کرپٹ عناصر کو تو سیاست میں حصہ لینے کا بھی حق نہیں ہونا چاہیے اور یہ بات درست ہوتی۔ مگر چوں کہ کرپشن کا عفریت سیکولر، لبرل اور روشن خیال سیاسی رہنماؤں کے تعاقب میں ہے اس لیے مسعود اشعر کہہ رہے ہیں کہ بھائی کرپشن کرپشن نہ کرو۔ یعنی ان کی خواہش ہے کہ سیکولر اور لبرل رہنما اور جماعتیں خواہ کتنی ہی کرپٹ کیوں نہ ہوں پاکستان کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ مذہبی عناصر خواہ کتنے ہی ایماندار کیوں نہ ہوں ملک ان کے ہاتھ میں نہیں دیا جانا چاہیے۔ کوئی صاحب جناب مسعود اشعر سے رابطے میں ہوں تو ان سے پوچھیں کہ اگر یہی ’’روشن خیالی‘‘ ہے تو ’’تاریک خیالی‘‘ کسے کہتے ہیں؟ مسعود اشعر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام سیاست دانوں کو کرپشن کرپشن کرکے گاؤں بدر کردیں گے تو پھر میدان میں وہی لوگ رہ جائیں گے جو ان کے بقول عوام کی ’’اندھی عقیدت‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کتنی مزیدار بات ہے کہ مذہبی لوگوں کی عقیدت تو ’’اندھی‘‘ ہوتی ہے مگر سیکولر اور لبرل لوگوں کی عقیدت ’’آنکھوں والی‘‘ ہوتی ہے۔ تالیاں۔ یہ تماشا ہمارے سامنے ہے کہ پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کی جگہ ان کی بیٹی نے لی اور بیٹی نہ رہی تو اس کا شوہر پیپلز پارٹی کا رہنما بن گیا۔ یہ رہنما نہیں رہے گا تو بے نظیر کا بیٹا بلاول ان کی جگہ آجائے گا۔ خدانخواستہ بلاول کو کچھ ہوگیا تو اس کی بہن بختاور اس کی جگہ لے لے گی۔ دلچسپ بات یہ کہ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی جاگیر بنی رہے گی اور جو لوگ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہیں گے ان کی عقیدت ہرگز ’’اندھی‘‘ نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر میاں نواز شریف کی جگہ ان کا بھائی یا بیٹی آجائے تو بھی نواز لیگ کے حامی کسی ’’اندھی عقیدت‘‘ کے بغیر نواز لیگ سے وابستہ رہیں گے اور اسے ووٹ دیتے رہیں گے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی جس میں نہ کوئی موروثیت ہے نہ کوئی خاندانی بھوت ہے، اس کے وابستگان ہمیشہ ’’اندھی عقیدت‘‘ میں مبتلا رہیں گے۔ شاندار۔ ایک بار امریکا کے ممتاز جریدہ ٹائم کا بیورو چیف ہمارے پاس آیا۔ پوچھنے لگا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ہم نے کہا کہ ایم کیو ایم دہشت گرد ہے، بھتا خور ہے اور اس پر ایک شخصیت کا غلبہ نہیں قبضہ ہے۔ کہنے لگا کہ ہاں یہ تو ہے مگر بہرحال ایم کیو ایم ایک ’’سیکولر جماعت‘‘ ہے۔ امریکی ہوں یا پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر ان کے لیے کرپشن اہم ہے نہ دہشت گردی اور بھتا خوری۔ بس آدمی اور پارٹی کو لادین یعنی سیکولر اور لبرل ہونا چاہیے۔ یہ ایک ’’خوبی‘‘ ہزاروں عیبوں کو چھپا لیتی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور، ادیب اور صحافی فوجی آمریت کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے، پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اصل میں صرف جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل ضیا ’’مذہبی‘‘ تھے۔ ورنہ ’’غاصب‘‘ تو جنرل ایوب بھی تھے، جنرل یحییٰ بھی اور جنرل پرویز مشرف بھی۔ مگر ہمارے سیکولر اور لبرل بھائیوں کی تحریروں میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف کی ’’آمریت‘‘کا ذکر آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا نخواستہ اگر کل کو ملک پر اگر ایسا جنرل قابض ہوجائے جو کرپٹ بھی ہو، نااہل بھی ہو، ظالم بھی ہو، جابر بھی ہو مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے خلاف ہو تو ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر اسے قائد اعظم سے بھی زیادہ ’’عظیم‘‘ قرار دیں گے۔ اس سے عیاں ہو جائے گا کہ ان کا مسئلہ فوجی آمریت یا فوج کا اقتدار نہیں ان کا مسئلہ اسلام ہے۔ جسے یہ عناصر ’’پرانا‘‘ خیال کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت مسعود اشعر کے زیر بحث کالم میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ ’’ہم اپنے بچوں کو وہ تعلیم دے رہے ہیں جو وہ عناصر ہم سے دلوانا چاہتے ہیں، جو ہمیں صدیوں پیچھے لے جارہے ہیں‘‘۔
اس اقتباس میں ’’وہ عناصر‘‘ سے مراد مذہبی عناصر ہیں اور مذہبی عناصر کا اصل تشخص اسلام ہے۔ چناں چہ سیکولر اور لبرل عناصر یہ کہتے ہیں کہ مذہبی لوگ ہمیں صدیوں پیچھے لے جارہے ہیں تو وہ دراصل یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تقلید کا مطلب صدیوں پیچھے چلا جانا ہے۔ لیکن یہ اسلام پر بہتان لگانے کا عمل ہے۔ اس لیے کہ اسلام کسی کو صدیوں پیچھے نہیں لے جاتا، اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ حضور اکرمؐ کے زمانے کی روح اور اس کے مفہوم کو رتی برابر بدلے بغیر ’’حال‘‘ یا ’’عصر حاضر‘‘ میں دریافت کرکے دکھاؤ۔ یہ اسلام کے ’’تقاضے‘‘ کا ’’اجمال‘‘ یا ’’اختصار‘‘ ہے۔ اس کی ایک ’’تفصیل‘‘ بھی ہے۔ مگر سیکولر اور لبرل عناصر کیا اب تو مذہبی نظر آنے والے لوگ بھی نہ اسلام کے تقاضے کے ’’اجمال‘‘ سے واقف ہیں نہ اس کی ’’تفصیل‘‘ سے۔ جدھر دیکھیے جدیدیت کی تاریکی ٹھمکے لگارہی ہے، افسوس کالم کا اور ’’space‘‘ ختم ہوگیا اور مسعود اشعر صاحب کے کالم کے کئی نکات پر گفتگو نہ ہوسکی۔ خیر، یار زندہ صحبت باقی۔