اس وقت ملک کے نظریاتی تشخص کے لیے شریف خاندان اور نواز لیگ سے بڑا خطرہ کوئی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ شریف خاندان اور نواز لیگ کے سیکولر ایجنڈے کا علم اور فہم رکھتے ہیں۔ یہ تو نواز شریف سے بہت بڑی غلطی ہوگئی کہ انہوں نے ختم نبوت کے تصور پر حملہ کرکے ہنگامہ برپا کردیا ورنہ ہم اپنے کالموں میں برسوں سے لکھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے زیر اثر ان کا خاندان اور ان کی پارٹی مشرف بہ سیکولر ازم ہوچکی ہے۔ لیکن بھیڑیا بھیڑ کی کھال پہنے ہوئے ہو تو اس کو پہچاننا آسان نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے ختم نبوت کے تصور پر حملے نے بھیڑے کے جسم پر سے بھیڑ کی کھال اتار پھینکی ہے۔ مگر ابھی تک بہت سے لوگ شریف خاندان کے مشہور زمانہ ’’مذہبی تشخص‘‘ کی افیون کے مزے لے رہے ہیں۔ چناں چہ انہیں بھیڑیا ابھی تک بھیڑ نظر آرہا ہے۔ ایسے لوگوں کا نشہ توڑنے کے لیے چند ٹھوس حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔
میاں صاحب کے ختم نبوت کے تصور پر حملے کے حوالے سے جو ہنگامہ برپا ہوا اس کے بعد اصولی طور پر میاں نواز شریف کو سامنے آنا چاہیے تھا اور ختم نبوت کے تصور پر حملے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی مگر جو کچھ ہوا ہے وہ اچھے اچھوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
روزنامہ ڈان کراچی میں شہ سرخی کے ساتھ 29 نومبر 2017ء کو شائع ہونے والی ایک تفصیلی خبر کے مطابق میاں نواز شریف کے ایک قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ میاں صاحب اس بات سے بہت پریشان ہیں کہ ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والے احتجاج نے مختلف ممالک بالخصوص چین کے دارالحکومت بیجنگ کو بہت غلط پیغام بھیجا ہے۔ ڈان نے نواز لیگ کے ایک رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف کے خیال میں واشنگٹن، لندن، پیرس اور بالخصوص بیجنگ میں حالیہ واقعات کے حوالے سے ’’تشویش‘‘ پائی جارہی ہوگی۔ نواز لیگ کے رہنما کے بقول میاں نواز شریف نے (اجلاس میں) کہا کہ چین سی پیک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور وہ پاکستان میں ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ کو ایک بار پھر سر اُٹھاتے نہیں دیکھنا چاہے گا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم گزشتہ چار سال سے دنیا کو بتارہے تھے کہ مذہبی انتہا پسندی کم ہوئی ہے مگر اب دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ ہم مذہبی انتہا پسندی کو تحفظ دے رہے ہیں۔ ڈان کی خبر کے مطابق میاں نواز شریف نے جس اجلاس میں یہ گفتگو کی اس میں نواز لیگ کے چیئرمین سینیٹر راجا ظفر الحق، سینیٹر پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق موجود تھے۔
اس خبر کو شائع ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہوگیا ہے مگر نواز لیگ نے اس کی تردید نہیں کی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مذکورہ بالا خبر بالکل درست ہے۔ خبر کا تجزیہ بتاتا ہے کہ میاں صاحب کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ انہوں نے ختم نبوت کے تصور پر حملے کی جو ناکام کوشش کی اس سے اللہ اور اس کا رسولؐ ناراض ہوں گے یا اس سے قوم شدید صدمے یا غصے سے دوچار ہوئی ہے بلکہ میاں صاحب کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ ان کے روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور سیاسی مراکز یعنی واشنگٹن، لندن، نیویارک اور بیجنگ میں کیا سوچا جارہا ہوگا؟۔ میاں صاحب کی واشنگٹن، لندن، پیرس اور بیجنگ مرکز تشویش سے ہمارا یہ پرانا خیال بھی درست ثابت ہوگیا کہ میاں صاحب کا سیکولر ازم اور میاں صاحب کا لبرل ازم مغرب اور اس کے مقامی آلہ کاروں کی ’’عطا‘‘ ہے۔ میاں صاحب کی واشنگٹن، لندن اور پیرس مرکز سوچ سے یہ بھی عیاں ہوگیا کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ختم نبوت کے تصور پر کس کے کہنے سے حملہ کیا ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ختم نبوت پر حملے کے ردعمل میں ہونے والے عوامی احتجاج کو میاں صاحب ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ کہہ رہے ہیں۔ حالاں یہ احتجاج اس روحانی، مذہبی، نفسیاتی اور جذباتی تکلیف کا نتیجہ تھا جو ختم نبوت کے تصور پر نواز لیگ کے حملے سے پیدا ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم کے ’’فطری ردعمل‘‘ کو تو میاں صاحب ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ کہہ رہے ہیں مگر ختم نبوت پر نواز لیگ کے حملے کو سیکولر اور لبرل انتہا پسندی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خبر سے بھی واضح ہے کہ نواز لیگ کے کسی بھی رہنما نے میاں صاحب سے یہ نہیں کہا کہ حضور غلطی بہرحال ہم سے ہوئی، نہ ہم ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کو چھیڑتے نہ احتجاج کی نوبت آتی۔ یہ حقائق بتارہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا بدنام زمانہ تکبر کا سورج دھرنے کے بعد بھی نصف النہار پر ہے اور میاں صاحب ان کے خاندان اور ان کی جماعت کو موقع ملا تو وہ پھر مغرب کے اشاروں پر سیکولر انتہا پسندی اور لبرل فاشزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے اسلامی اور نظریاتی تشخص پر حملے کریں گے۔ جو لوگ میاں نواز شریف، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کو ابھی تک مذہبی سمجھے ہوئے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی عقل بیچ کھائی ہے۔ اس سے قبل کہ ان کا ایمان بھی خطرے میں پڑے انہیں بیدار ہوجانا چاہیے، لیکن کیا یہاں میاں صاحب، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے سیکولر ایجنڈے پر بات ختم ہوگئی؟ جی نہیں۔
معروف سیکولر دانش ور پرویز ہود بھوئے روزنامہ ڈان کے مستقل کالم نویس ہیں۔ انہوں نے 25 نومبر 2017ء کے ڈان میں ’’Text book-Kudos to Punjab‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا ہے۔ ہود بھوئے فرماتے ہیں کہ چند روز پہلے انہیں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ایسی نصابی کتب موصول ہوئیں، کتابوں پر لگی ہوئی مہر یہ تھی۔
’’Punjab Chief Minister’s Programe for Education Reforms‘‘ یعنی پنجاب کے وزیراعلیٰ کا پروگرام برائے تعلیمی اصلاحات۔ سوال یہ ہے کہ خادم اعلیٰ شہباز شریف نے پنجاب کے نصاب میں کیا ’’اصلاحات‘‘ فرمائی ہیں؟ اس کا پر ’’مسرت بیان‘‘ خود پرویز ہود بھوئے کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
“But here’s the wondar of wonders. an urdutranslation of quaid-e- azam” famous speech of August 11,1947, has finally found its way into atleast on social studies book. This declares that religion is a matter of indivisual and not of the state.”
یعنی پرویز ہود بھوئے پر یہ دیکھ کر مسرت آمیز حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ میاں شہباز شریف نے قائد اعظم کی اگست 1947ء کی وہ تقریر سوشل اسٹڈیز کی ایک نصابی کتاب کا حصہ بنادی جس میں ہود بھوئے کے بقول قائد اعظم نے اس سیکولر اصول کی نشاندہی کی ہے کہ مذہب ’’فرد کا معاملہ ہے‘‘ ریاست کا معاملہ نہیں۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ مورخین کی عظیم اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 11 اگست 1947ء کی تقریر میں کہیں سیکولر ازم موجود نہیں۔ سلینا کریم نے جو خیر سے غیر جانب دار مورخ ہیں اپنی تصنیف ’’Secular Jinnah and Pakistan‘‘ میں صفحہ 153 پر اس بات کی تردید کی ہے کہ قائد اعظم سیکولر تھے یا ان کی 11 اگست کی تقریر میں سیکولر ازم موجود ہے۔ تاہم پرویز ہود بھوئے اور ان جیسے کئی سیکولر دانش ور تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے یہی کہے جارہے ہیں کہ 11 اگست کی تقریر قائد اعظم کے سیکولر ہونے کی شہادت ہے۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے برادر خورد کو نصاب کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے خیال آیا تو یہ کہ وہ قائد اعظم کی اس تقریر کو نصاب کا حصہ بنائیں جس کو سیکولر عناصر اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حالاں کہ قائد اعظم کی درجنوں تقاریر، بیانات اور انٹرویوز ایسے ہیں جن میں قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ختم نبوت پر شریف خاندان کے حملے کے حوالے سے ہنگامہ برپا ہوا تو میاں شہباز شریف نے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر اصرار کرکے ظاہر کیا کہ وہ بڑے ’’اسلام پسند‘‘ ہیں، مگر انہوں نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں امریکا، یورپ اور ان کے مقامی آلہ کاروں کے مطالبے اور دباؤ پر جو ’’سیکولر اصلاحات‘‘ کی ہیں ان سے شہباز شریف کا ’’باطن‘‘ پوری طرح عیاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اتفاق سے اس باطن کو خود ہود بھوئے جیسے سیکولر دانش ور نے آشکار کردیا ہے۔ یہ ہے شریف برادران یا شریف خاندان کا ’’اصل چہرہ‘‘۔ اب آئیے نواز لیگ کا چہرہ بھی ملاحظہ کریں۔
یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ ختم نبوت پر حملے کی ’’اطلاع‘‘ نواز لیگ میں کئی لوگوں کو تھی مگر کسی نے بھی اس حملے پر احتجاج نہیں کیا، حالاں کہ یہ دین و ایمان کا معاملہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز لیگ کے رہنماؤں کا مذہب نواز شریف یا ان کے خاندان کی خوشنودی ہے۔
باقی صفحہ11بقیہنمبر1
شاہنواز فاروقی
نواز لیگ کے رہنماؤں کی روحانی اور مذہبی حالت کا ایک اشتہار روزنامہ جسارت کی 30 نومبر 2017ء کی شاعت میں شائع ہونے والی وہ خبر ہے جس سے پوری قوم کو معلوم ہوا کہ جب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی نے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی یا ترمیم کی مذمت کے حوالے سے قرار داد پیش کی تو صرف ایم کیو ایم کے اراکین نے ہی نہیں نواز لیگ کے اراکین نے بھی قرار داد کی مخالفت کی اور جماعت اسلامی کے خلاف نعرے بازی کی۔ تاہم میئر کراچی وسیم اختر نے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے مداخلت کی اور قرار داد کی مخالفت کرنے والوں سے کہا کہ اس طرح کرنے سے بلدیہ کراچی کی جانب سے عوام کو ’’اچھا پیغام‘‘ نہیں جائے گا۔ چناں چہ جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ یہ خبر بتارہی ہے کہ اگر ملک میں اس وقت ختم نبوت کے حوالے سے ہنگامہ برپا نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کیا نواز لیگ کے اراکین بھی کبھی قرار دد کو منظور نہ ہونے دیتے۔ مطلب یہ کہ نواز لیگ کے عام اور معمولی رہنماؤں کا مسئلہ بھی اسلام یا ختم نبوت نہیں بلکہ ان کا مسئلہ صرف ’’عوام کا خوف‘‘ ہے۔ یہ خوف نہ ہو تو نواز لیگ ملک کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی۔