اس گفتگو میں ڈاکٹر خالد امین کی اس بات کا جواب بھی موجود ہے کہ ہمیں سرسید کے کاموں کی ’’کلیت‘‘ کے تناظر میں بھی ان کا محاکمہ کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب سرسید کی گمراہ کن مذہبی فکر ان کی پوری شخصیت اور ہر کام کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو جزو اور کُل کی بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر خالد امین کی تحریر میں اور کئی اہم نکات موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے۔
’’جہاں تک سرسید کی مذہبی تعبیرات کا تعلق ہے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن ہندوستان کے ماحول نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ ان چیزوں کا سہارا لیں۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین جو مذہبی منافرت پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ یہ کام بھی انہوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر انجام دیا لیکن جایہ بجا ٹھوکریں کھائیں لیکن آج کے اس جدید دور میں بہت سارے علما علم دین کی سائنسی تعبیرات پیش کرتے ہیں اور کئی مفکرین ایسے ہیں جن کی تحریریں اس نکتہ نظر سے خالی نہیں ہیں خواہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا اقبال‘‘۔
ڈاکٹر خالد امین کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ وہ یہ ماننے کے باوجود کہ سرسید کی مذہبی فکر گمراہی اور ضلالت میں ڈوبی ہوئی ہے، سرسید کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرہ انہیں اسی طرح ’’عظیم‘‘ سمجھے جس طرح سرسید کے مقلد انہیں سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سرسید کے اچھے شاگرد ہیں انہیں سرسید کی فکر سے یہی تعلیم ملی ہے کہ مذہب کو نہ دیکھو دنیا کے فائدوں کو دیکھو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد امین نے یہ تک جرأت کر ڈالی کہ انہوں نے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کا خوشہ چین باور کرانے کی کوشش کی۔ تجزیہ کیا جائے تو اس روش پر بھی سرسید کی فکر اور ذہنیت کا سایہ ہے۔ سرسید نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے کو ایک طرف پھینک دیا۔ ڈاکٹر خالد امین نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کے ساتھ کھڑا کرکے ان کی توہین کر ڈالی۔
یہ ایک علمی ہی نہیں اخلاقی اور روحانی اصول بھی ہے کہ کنکر کا ذکر ہیروں کے ساتھ نہیں کیا جاتا لیکن جو شخص سرسید کے زیر اثر آجاتا ہے وہ ہیرے اور کنکر کا فرق بھول کر دونوں کو پتھر ہی سمجھنے لگتا ہے۔ ہماری یہ دلیل اپنی جگہ واضح ہے مگر عام قارئین کے فہم کو آسان بنانے کے لیے ہم ڈاکٹر خالد امین سے سوال کرتے ہیں کہ کیا مولانا مودودی اور اقبال، سرسید کی طرح خدا کو قادر مطلق نہیں مانتے؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح قرآن میں موجود معجزات کا انکار کیا ہوا ہے! کیا وہ سرسید کی طرح منکر حدیث ہیں؟ کیا انہوں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قرآن کو سمجھے ہی نہیں؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح کہیں انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے مولانا مودودی، اقبال اور سرسید کو ایک صف میں کیوں کھڑا کیا؟۔
ڈاکٹر خالد امین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا تباہ و برباد کرنے کی؟۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر چھوٹا موٹا نہیں ایٹمی حملہ کیا۔ مگر اس بات کی تفصیل ایک الگ کالم میں بیان ہوگی۔ ڈاکٹر خالد امین کو اس کالم کا انتظار کرنا ہوگا۔ البتہ یہاں اتنی بات کہنی ضروری ہے کہ اسلام میں تہذیب و ثقافت مذہب سے نمودار ہوئی ہیں اور بدقسمتی سے سرسید کی مذہبی فکر کے کنویں میں دس بیس گرام نہیں دس بیس من زہر پڑا ہوا ہے۔ اس صورت حال کا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر جو اثر ہوسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے یہ بھی لکھا ہے کہ سرسید کی وہ باتیں تو بیان کی جاتی ہیں جو انہوں نے انگریزوں کا ’’حلیف‘‘ بن کر کیں مگر ان کی ان تقریروں اور تحریروں کا ذکر نہیں کیا جاتا جو انگریزوں کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سرسید انگریزوں کے حلیف نہیں تھے۔ بلکہ ان کے ’’غلام‘‘ تھے۔ صرف سیاسی غلام نہیں، روحانی غلام، نفسیاتی غلام، ذہنی غلام، علمی غلام۔ اقبال کی اصطلاح میں وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے انگریزوں کے تسلط کے زیر اثر اپنی انفرادی نہیں اجتماعی خودی بھی کھودی تھی۔ بلاشبہ سرسید نے ایک آدھ جگہ انگریزوں سے ’’اختلاف‘‘ بھی کیا ہے مگر انگریزوں کے ساتھ ان کا ایک آدھ اختلاف بیٹے کا باپ سے اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو اصطلاح میں ’’مودب اختلاف‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے سرسید کو مسلمانوں کے آنسو پونچھنے والا قرار دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرسید نے کامل غلامانہ ذہن اور عقل پرستی کے بنے ہوئے جس رومال سے مسلمانوں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اس رومال سے مسلمانوں کے آنسو تو نہ پونچھے جاسکے مگر اس رومال میں ایسی زہر نا کی تھی کہ لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کی آنکھ سے بصارت جاتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ بصیرت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا حکمران طبقہ اور ہمارے بالائی طبقات مغرب کے غلام نہ ہوتے۔ ڈاکٹر خالد امین نے علی گڑھ کالج اور سرسید کے ’’تعلیمی منصوبے‘‘ کی اہمیت پر بھی اصرار کیا ہے۔ اس موضوع پر بھی ہم تفصیلی کالم لکھیں گے لیکن یہاں چلتے چلتے ڈاکٹر خالد امین کو یاد دلائیں گے کہ اکبر جیسا عبقری علی گڑھ کالج اور علی گڑھ تحریک کے بارے میں بنیادی بات کہہ کر دنیا سے رخصت ہوچکا، لیکن پہلے دیوبند اور ندوہ کے بارے میں اکبر کا تبصرہ۔ اکبر نے کہا ہے۔
ہے دلِ روشن مثال دیو بند
اور ندوہ ہے زبان ہوش مند
اب سنیے علی گڑھ کے ’’فلسفے‘‘ کے بارے میں اکبر نے کیا کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے
اب علی گڑھ کی بھی تشبیہ جان لو
اک معزز پیٹ اسی کو مان لو
بدقسمتی سے علی گڑھ ماضی میں بھی ’’معزز پیٹ‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھا اور آج ہمارے سامنے علی گڑھ کالج کی جو روایت موجود ہے وہ بھی ایک معزز پیٹ کے سوا کچھ نہیں۔ معزز پیٹ کی تخلیق جتنا بڑا کارنامہ ہے وہ ظاہر ہے۔