بلاشبہ سرسید نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ قرآن مجید فرقان حمید کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں مانتے، مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید میں موجود ہر معجزے کا انکار کیا ہے۔ اس معجزے کا جو خود قرآن کی عبارت اور قرآن کے بیان سے ثابت ہے، اس معجزے کا جس کو رسول اکرمؐ نے خود معجزہ قرار دیا۔ اس معجزے کا جس کو تمام صحابہ کرام معجزہ تسلیم کرتے تھے۔ اس معجزے کا جس کو تمام تابعین نے معجزہ مانا، اس معجزے کا جس کے تمام تبع تابعین قائل تھے، اس معجزے کا جسے امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام حنبل نے معجزہ قرار دیا۔ جسے امام غزالی، امام رازی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، مولانا مودودی اور تمام بڑے صوفیا اور علما نے معجزہ ہی کہا، اس معجزے کا جس کے معجزہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ کیا ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ سرسید صرف منکر حدیث ہی نہیں منکر قرآن بھی تھے؟۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طالب علمانہ سوال ہے، اس لیے کہ ہم نہ عالم ہیں، نہ فقیہہ ہیں نہ مفتی ہیں۔ بہر حال آئیے دیکھتے ہیں کہ معجزات کے سلسلے میں سرسید کا رویہ کیا ہے؟ لیکن اس رویے کے بیان سے پہلے قرآن مجید میں موجود ایک معجزے کا بیان، قرآن مجید سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کی اولاد قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ انہوں نے شیر خوار ہونے کے باوجود گہوارے سے صدا بلند کی کہ میں اللہ کا بندہ اور نبی ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا بیان یہ ہے۔
’’ اور اے نبیؐ اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جب کہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہوگئی تھی۔ اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ بیٹھی تھی۔ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی طرح نمودار ہوگیا۔ مریم یکایک بول اُٹھی کہ ’’اگر تو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ اس نے کہا ’’میں تو تیرے ربّ کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں‘‘۔ مریم نے کہا۔ ’’میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں‘‘۔ فرشتے نے کہا ’’ایسا ہی ہوگا۔ تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے نہایت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہے گا‘‘۔
’’مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ایک دور کے مقام پر چلی گئی۔ پھر زچگی کی تکلیف نے اسے ایک کھجور کے درخت کے نیچے پہنچادیا۔ وہ کہنے لگی کہ ’’کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا‘‘۔ فرشتے نے پائنتی سے اس کو پکار کر کہا ’’غم نہ کر۔ تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کردیا ہے اور تو اس درخت کے تنے کو ہلا۔ تیرے اوپر ترو تازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے میں نے رحمان کے روزے کی نذر مانی ہے۔ اس لیے میں آج کسی سے نہ بولوں گی‘‘۔
پھر وہ اس بچے کو لیے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ’’اے مریم یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی‘‘۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے کہا ’’ہم اس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘۔ بچہ بول اُٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔ اور بابرکت کیا جہاں میں رہوں۔ اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جب کہ میں پیدا ہوا اور جب کہ میں مروں اور جب کہ میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں‘‘۔
(ترجمہ قرآن، مع مختصر حواشی۔ (ازسید ابوالاعلیٰ مودودی۔ اکتسویں اشاعت۔ سن 2004۔ صفحہ 783، 781)
قرآن مجید کا یہ بیان بالکل صاف شفاف ہے۔ اس میں کہیں علامتی یا استعاراتی اظہار کی کوئی صورت موجود نہیں۔ علامتی اور ستعاراتی اظہار میں اس بات کی بہرحال گنجائش ہوتی ہے کہ ایک شخص اس سے کوئی ایک مفہوم اخذ کرسکتا ہے اور دوسرا شخص کسی اور معنی کو اس سے منسوب کرسکتا ہے۔ لیکن سرسید نے اس صاف و شفاف بیان کے کس طرح پرخچے اُڑائے ہیں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’حضرت مریم۔۔۔ حسبِ قانون فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں‘‘۔
تفسیر القرآن۔ ازسر سید۔ صفحہ 36۔ بحوالہ افکارِ سرسید از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ91)۔
’’قرآن مجید نے اس بات میں کہ سیدنا عیسیٰؑ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے کچھ بحث نہیں کی۔ جہاں تک کہ اشارہ ہے سیدنا عیسیٰؑ کے روح اللہ کا اور حکمت اللہ ہونے کا تو اور سیدہ مریم کی عصمت و طہارت کا اشارہ ہے‘‘۔
(تفسیر القرآن۔ ازسرسید۔ صفحہ31 بحوالہ افکار سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ91)
’’عیسائی اور مسلمان دونوں خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ صرف خدا کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے‘‘۔ (تحریر فی اصول تفسیر۔ ازسرسید۔ صفحہ57۔ بحوالہ۔ افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ90)
’’حضرت مسیح کے زمانے کے سب لوگ اور خود حواری بھی جانتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنے باپ یوسف کے تخم سے پیدا ہوئے ہیں۔ نہ کہ بغیر باپ کے، مگر وہ سیدنا عیسیٰ کو خدا کا بیٹا روحانی اعتبار سے کہتے تھے۔ زمانہ گزرنے پر وہ خیال جس سے حواریوں نے حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہا، محو ہوگیا اور لوگ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگے اور اس کے ساتھ یہ قرار دے دیا کہ وہ بے باپ کے پیدا ہوئے‘‘۔ (تفسیر القرآن۔ ازسرسید۔ صفحہ226۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ90-91)
سرسید نے ایک اور جگہ لکھا ہے۔
’’قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰؑ نے ایسی عمر میں جب حسبِ فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا ، کلام کیا‘‘۔
(تفسیر القرآن۔ ازسرسید، صفحہ367۔ بحوالہ افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ91)
آپ نے سرسید کی تحریروں کے چند مستند حوالے ملاحظہ فرمائے۔ ان حوالوں میں سرسید نے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے سلسلے میں قرآن مجید کے صاف، واضح، ابہام سے پاک بیان کو جھٹلا دیا ہے۔ یہی نہیں سرسید نے رسول اکرمؐ کی ان احادیث کی بھی تکذیب کر دی ہے جن میں سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کا بچہ قرار دیا گیا ہے۔ سرسید نے اس سلسلے میں امت کے اجماعی موقف پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ سرسید کی تضاد بیانی کا یہ عالم ہے کہ ایک جگہ وہ کہہ رہے ہیں کے مسلمان ہی نہیں عیسائی بھی سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں اور دوسری جگہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سیدنا عیسیٰؑ کے زمانے کے لوگ اور حواری سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کی اولاد نہیں سمجھتے تھے۔ ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا مگر سرسید اس سلسلے میں انجیل سے کوئی حوالہ پیش کرتے ہیں نہ کسی حواری سے منسوب کوئی بیان کوٹ کرتے ہیں۔ تو کیا حضرت عیسیٰؑ کے زمانے کے لوگوں اور سیدنا عیسیٰؑ کے حواریوں نے صرف سرسید کو آکر یہ بات بتائی کہ سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے؟۔
سرسید نے ایک ظلم یہ کیا کہ یوسف کے نام سے سیدنا عیسیٰؑ کے ایک والد ایجاد کرلیے۔ لیکن اس سلسلے میں قرآن مجید خاموش ہے، علم حدیث خاموش ہے، صحابہ خاموش ہیں، تابعین خاموش ہیں، تبع تابعین خاموش ہیں، تمام بڑے صوفیا اور علما خاموش ہیں، یہاں تک کہ انجیل بھی خاموش ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پوری اسلامی روایت سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کا بیٹا قرار دے رہی ہے، مگر سرسید اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے اور سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش کی اندھا دھند تاویل کرتے ہیں اور جس یوسف نام کے شخص کا پوری اسلامی روایت میں کوئی نام و نشان نہیں اس کا ذکر سرسید اس دھڑلے سے کررہے ہیں جیسے اس شخص کے بارے میں کوئی شبہ ہی نہ ہو۔ فرض کیجیے عیسائی روایت میں ایسے کسی شخص کا ذکر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرسید قرآن و حدیث پر ایمان رکھتے ہیں یا کسی ایسی مجہول عیسائی روایت پر جسے خود عیسائی بھی اب تسلیم نہیں کرتے۔ سرسید کے ’’عاشقان‘‘ سرسید کو علم کا سمندر، ذہانت کا قطب مینار اور مسلمانوں کا خیر خواہ باور کراتے ہیں، لیکن اس ایک مثال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص کے جہل اور کند ذہنی کا کیا عالم ہوگا جو قرآن و حدیث کے شفاف بیان، پوری امت کے اجماع اور خود عیسائیوں کے اجماع کے خلاف اپنا منمناتا ہوا بیان اور بے بنیاد دلیل لیے کھڑا ہو۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ کیسے صاحبان علم، پی ایچ ڈی رائٹرز، محقق اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں جو قرآن و سنت، احادیث مبارک اور اجماع پر ایمان رکھنے والے معاشرے میں سرسید کی وکالت کرتے ہیں؟ ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور صاحب عزت بنے ہوئے ہیں؟۔ کیا اب ان میں سے ایک ایک کا نام لیا جائے؟ اور ان سے پوچھا جائے کہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبی ہوئی سرسید کی مذہبی فکر کے باوجود ان کے لیے سرسید کیوں محترم ہیں؟ آخر یہ لوگ سرسید کی شخصیت اور فکر سے عوام و خواص کی لاعلمی اور کم علمی کا فائدہ کیوں اُٹھائے جارہے ہیں؟ یہ کتنی عجیب اور ہولناک بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور جس سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کو پیدا کیا انہیں اور ان کے عاشقان کو معاشرہ سر پر بٹھائے ہوئے ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے باہمی تعلق کا معاملہ کوئی الزام نہیں۔ اس سلسلے میں آپ ہمارے ایک مکمل کالم کا انتظار فرمائیے اور دعا کیجیے کہ ہمیں اس کی توفیق اور اس کا وقت میسر آسکے۔
بعض لوگ گمان کرسکتے ہیں کہ ہم نے معجزات کے انکار کے سلسلے میں سرسید کی فکر کا صرف ایک حوالہ پیش کیا ہے لیکن سرسید نے صرف ایک معجزے کا نہیں قرآن میں بیان ہونے والے تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے سیدنا ابراہیمؑ سے متعلق معجزات کا انکار کیا ہے، حضرت موسیٰؑ سے متعلق معجزات کا انکار کیا ہے، سیدنا عیسیٰؑ سے متعلق تمام معجزات کا انکار کیا ہے، یہاں تک کہ رسول اکرمؐ کے جسمانی معراج کا بھی انکار کیاہے۔ اس سلسلے میں کرنے کا کام یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود ایک ایک معجزے کا بیان پیش کرکے سرسید کے خیالات اس کے مقابل رکھ دیے جائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ لیکن اگر ہم اب کریں گے تو پھر سرسید کے دوسرے ’’کارناموں‘‘ پر گفتگو موقوف رہے گی۔ خیر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ آخر میں یہ بات بھی سن لیجیے کہ سرسید کی شخصیت اور فکر پر گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ سرسید برصغیر کے تمام مغرب زدگان، عرف جدیدیوں عرف Modernists کے استاد ہیں۔ ان کے پیر ہیں بلکہ امام ہیں۔ یہ لوگ دین میں مولانا مودودی کی اصطلاح میں ’’تجدّد‘‘ ایجاد کرتے ہیں وہ سرسید کی فکر سے ماخوذ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے سیکولر اور لبرل عناصر کو بھی تاریخ میں ’’پناہ‘‘ درکار ہوتی ہے تو وہ سرسید کی شخصیت اور فکر میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے سرسید کے متاثرین ہندوستان اور پاکستان کے طاقت ور ترین لوگ ہیں۔ یہ حکمران ہیں۔ بیورو کریٹس ہیں، دانش ور ہیں، اسکالرز ہیں، ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے لوگ ہیں، تعلیمی اداروں کو مٹھی میں لیے ہوئے لوگ ہیں۔ چناں چہ سرسید کی شخصیت اور فکر پر گفتگو انفرادی، اجماعی، مذہبی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جو شخص اتنی سی بات بھی نہ سمجھتا ہو اس کے پاس اس سلسلے میں گفتگو کا کوئی مذہبی، علمی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی یہاں تک کہ صحافتی جواز بھی نہیں ہے۔