پاکستان کے مذہبی حلقوں میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے طرح طرح کے ’’مسائل‘‘ زیر بحث رہے۔ بعض لوگ سوال اُٹھا رہے تھے کہ دھرنا دینے والا کون ہے؟ دیوبندی یا بریلوی؟ کچھ لوگوں کو دھرنے سے ہونے والی ’’عوامی مشکلات‘‘ کا غم کھائے جارہا تھا۔ بعض لوگوں کو رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ دھرنے کے قائدین اپنی تقریروں میں جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ مناسب نہیں ہے۔ دھرنے کے حوالے سے ردِعمل کی ان صورتوں کا جو بھی مفہوم ہو یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل حلقوں میں دھرنے کو اسلام اور سیکولر ازم کی کش مکش کے تناظر میں دیکھا گیا۔ یہی اس دھرنے کا اصل تناظر ہے۔ جو لوگ اصل مسئلے کو نہیں سمجھتے وہ ’’فروعات‘‘ میں اُلجھ کر اپنا وقت اور توانائی ضائع کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور اپنے متعلقین یا قارئین کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ فیض آباد کے دھرنے کی ’’کامیابی‘‘ پر سیکولر اور لبرل حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس صف ماتم کے ’’مظاہر‘‘ سے انگریزی اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔
کاملہ حیات دی نیوز کراچی کی سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان دنوں وہ دی نیوز میں کالم لکھتی ہیں۔ انہوں نے دھرنے کے دوران دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے دھرنے کی قیادت میں دو بڑے ’’عیبوں‘‘ کی نشاندہی کی۔ انہوں نے لکھا۔
’’لبیک گروپ ایک ایسی (اسلامی) ریاست چاہتا ہے جو اسلامی قوانین کی سخت تعبیر کے زیر سایہ کام کرتی ہو۔ ختم نبوت کا مسئلہ اس گروپ کا ایک نعرہ ہے۔ یہ گروپ اس ممتاز قادری کو اپنا ہیرو قرار دیتا ہے جس نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کردیا تھا‘‘۔ (دی نیوز کراچی۔ 23 نومبر 2017ء)
اس تبصرے کو دھرنے کے سلسلے میں سیکولر اور لبرل دانش وروں اور کالم نگاروں کے ماتم کا آغاز سمجھنا چاہیے۔ کاملہ حیات کے کالم کی اشاعت کے اگلے ہی روز دی نیوز کراچی میں اسلام آباد کے فری لانس کالم نگار عامر حسین کا کالم شائع ہوا۔ عامر حسین نے اپنے کالم میں دھرنے کے ایک اور پہلو پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے لکھا۔
’’دارالحکومت میں جاری دھرنے کے حوالے سے کئی سوالات ذہن میں آرہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ فریقین کے درمیان سیاسی تعلق کا سبب کیا ہے؟ حکومت دھرنا دینے والوں کے خلاف کچھ کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟ دھرنے کی قیادت کرنے والے ملا نے ریاست کی عمل داری کو کھلے عام کیسے چیلنج کر ڈالا ہے؟ دھرنے میں شریک لوگوں کو کون حمایت مہیا کررہا ہے؟‘‘ (دی نیوز کراچی۔ 24 نومبر 2017ء)
عامر حسین کے کالم کے اس اقتباس کا ایک پس منظر ہے۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف ہی نے نہیں پوری فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی اور مذہبی عناصر کے حوالے سے اپنا موقف بدل لیا تھا۔ ملک میں دہشت گردی کی صورتِ حال نے اس موقف کو مزید سخت کردیا۔ اس فضا میں سیکولر اور لبرل عناصر کی بن آئی۔ انہوں نے سوچا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا ہے۔ چناں چہ امریکا، یورپ اور بھارت کی لابیز سے متعلق سیکولر اور لبرل دانش ور ملک کی مذہبی بنیادوں اور ہماری تہذیب اور تاریخ کے مسلماّت پر پل پڑے۔ لیکن فیض آباد دھرنے کا محرک چوں کہ ایک بہت ہی بڑا مذہبی مسئلہ تھا اور دھرنا دینے والوں کا تشخص اسلام سے متعلق تھا اس لیے سیکولر اور لبرل عناصر کو تشویش لاحق ہوئی کہ مذہبی عناصر میں اچانک یہ دم خم کہاں سے آگیا کہ وہ اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں؟۔ چناں چہ ان کے لیے اس امر کی تحقیق ضروری تھی کہ دھرنے کی پشت پر کون ہے؟۔
فیض آباد دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان فوج نے معاہدہ کرایا تو سیکولر اور لبرل عناصر کا ماتم بلند آہنگ ہوگیا۔ مشرف زیدی نے دی نیوز کراچی میں ’’The surrender of Faizabad‘‘ کے عنوان کے تحت کالم تحریر کیا۔ اس کالم میں انہوں نے لکھا۔
’’پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ معاہدے کے بعد ’’انگلش میڈیم پاکستان‘‘ کا رونا دھونا انتہا کو پہنچ گیا ہوگا۔ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے حوالے سے ہونے والے معاہدے میں خوشی کی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ معاہدہ ایسا ہے جیسے ہمارا کوئی عزیز مرگیا ہو۔ جدید اور تکثیر پسند ریاست کا خواب مرگیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح زندہ باد۔ البتہ ان کا خواب مرچکا۔ ان کا پاکستان مر گیا۔ (دی نیوز کراچی۔ 28 نومبر 2017ء)
یہ ردِعمل بتارہا ہے کہ سیکولر اور لبرل عناصر اس وقت خوش ہوتے جب فوج یا پولیس دھرنے کے دوسو، تین سو لوگوں کو شہید کردیتی۔ اتنے ہی لوگ آپریشن سے زخمی ہوجاتے۔ جو باقی بچ جاتے انہیں جیلوں میں ٹھوس دیا جاتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح لال مسجد کے حوالے سے ہوا تھا۔ جس طرح جنرل پرویز مشرف نے مجاہدین کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کرکے کیا تھا۔ لیکن چوں کہ فیض آباد کے دھرنے کے ساتھ کسی وجہ سے جرنیلوں نے ایسا نہیں کیا۔ چناں چہ سیکولر اور لبرل عناصر کے نزدیک قیامت برپا ہوگئی اور قائداعظم کا خواب ہی نہیں قائد اعظم کا پاکستان بھی مرگیا۔ واہ کیا ’’وسیع القلبی‘‘ ہے؟ کیا روشن خیالی ہے؟ کیا ’’امن پسندی‘‘ ہے؟ کیا ’’Rationality‘‘ ہے؟۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ آج تک پاکستان کے مذہبی حلقوں نے یہ چاہا ہو کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جائے کہ خون کی ندیاں بہہ جائیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا نام لینے والا اور اس کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے والا کوئی شخص بھی زندہ نہ رہے۔ زندہ رہے تو اس کے پاس طاقت، دلیل، تکریم اور عوامی پزیرائی نہ ہو۔ لیکن فیض آباد دھرنے کے حوالے سے سیکولر اور لبرل عناصر کا ماتم یہاں ختم نہیں ہوا۔
میر شکیل الرحمن کے دی نیوز میں 29 نومبر 2017ء کے روز عمار علی جان کا کالم شائع ہوا۔ عمار علی جان یونیورسٹی آف کیمبرج سے پی ایچ ڈی کررہے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں تحریک لبیک یارسول اللہ کو ’’فاشسٹ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے لکھا۔
’’لبرل تجزیہ نگار تحریک لبیک کے غیر معمولی اُبھار کو موجود سول حکومت کے خلاف ایک ’’سازش‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس میرا خیال یہ ہے کہ تحریک لبیک کے اُبھار کو ایک فاشسٹ تحریک کا اُبھار سمجھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک ایسے کسی دہشت گروہ سے زیادہ خطرناک ہے جو ریاست کے کسی حصے کے معاون کے طور پر کام کررہا ہو‘‘۔
عاصم سجاد اختر ڈیلی ڈان کراچی کے کالم نگار ہیں اور وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے یکم دسمبر 2017ء کے ڈان میں ’’The real Surreder‘‘ کے عنوان کے تحت کالم تحریر کیا۔ انہوں نے دھرنے کے بعد کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’دھرنے کے حوالے سے ملک کے ترقی پسند حلقوں نے جس تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ہے وہ خود ترقی پسندوں کے بارے میں ایک پریشان کن حقیقت کا اظہار کرتی ہے۔ یہ حقیقت اس امر سے عبارت ہے کہ بیش تر ترقی پسند شعوری طور پر ایک سیاسی کمیونٹی کے طور پر ردِعمل ظاہر نہیں کرتے۔ جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوگی ترقی پسندوں کی پسپائی اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کی پیش قدمی جاری رہے گی‘‘۔
عاصم سجاد نے مزید لکھا۔
’’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے آغاز ہی سے بعض ’’آرام طلب ترقی پسندوں‘‘ نے ریاست امریکا اور ریاست پاکستان سے یہ توقع وابستہ کرلی تھی کہ وہ جادوئی طور پر معاشرے کو مذہبی militancy سے پاک کردے گی۔ حالیہ دھرنے سے معلوم ہوا کہ اسلحہ بردار اسلام امن پسند بریلویوں میں بھی پھیل چکا ہے‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال سیکورٹی اور لبرل حلقوں کے لیے پریشان کن ہے۔ لیکن عاصم سجاد نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے۔
’’ریاست نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ریاست وہی کچھ کررہی ہے جو وہ کئی دہائیوں سے کررہی ہے اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کہا اس کا ’’اصل لطف‘‘ انگریزی ہی میں ہے۔
انہوں نے فرمایا۔
Progressives need to stand up and be counted, or accept that theirs is a real surrender.
یعنی ترقی پسند اُٹھیں اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں یا پھر اپنے حقیقی ہزیمت یا Surrender کو قبول کریں۔
اس سلسلے میں دی نیوز کے غازی صلاح الدین کی رائے بھی جان لیجیے۔ غازی صلاح الدین صحافی ہی نہیں ہیں، ماضی کے افسانہ نگار بھی ہیں۔ وہ کبھی روسی کیمپ میں تھے اب لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کے کیمپ میں ہیں۔ خیر یہ الگ ہی معاملہ ہے۔ غازی صاحب نے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جو سینہ کوبی کی ہے اس کی ایک جھلک یہ ہے۔
’’ایک ناکام آپریشن کے بعد فیض آباد دھرنا جس طرح ختم ہوا وہ ان تصورات کی شکست ہے جو تخلیق پاکستان کے ’’Ideals‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہمارے پاس یہ عیاں کرنے کے لیے تمام شواہد موجود ہیں کہ جن ’’Fanatics‘‘ نے مہذب طرزِ عمل کے پرخچے اُڑا دیے وہ ریاست کی طاقت پر غالب کردیے گئے‘‘۔ (دی نیوز کراچی۔ 13 دسمبر 2017ء)۔
غازی صلاح الدین صرف یہ کہہ کر مطمئن نہ ہوئے۔ انہیں یاد آیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو شرمندہ کرنے کے لیے ماضی قریب میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ انہوں نے لکھا۔
’’پشاور کے اسکول میں بربریت کے ساتھ بچوں کا قتل عام ہماری اشرافیہ کے تناظر میں تبدیلی کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس وقت سے اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہم ابھی تک سبق سیکھنے سے ہچکچارہے ہیں‘‘۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر قیام پاکستان کے پہلے دن سے اب تک پاکستان کی مذہبی بنیادوں اور روحانی و اخلاقی اقدار کے خلاف جنگ برپا کیے ہوئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد انہیں اس سلسلے میں امریکا، یورپ، بھارت اور خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور تائید حاصل ہوگئی تھی، چناں چہ انہوں نے نائن الیون کے بعد سے اب تک ملک کی نظریاتی بنیادوں پر جو حملے کیے ہیں ان کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ بدقسمتی سے ملک کے مذہبی طبقات بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی سطح پر برپا اسلام اور سیکولر ازم المعروف تہذیبوں کے تصادم کو سمجھنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل مرتب کرنے میں بُری طرح ناکام ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ختم نبوت پر حملہ اور اس کے حوالے سے ہونے والا دھرنا ہے۔ اس دھرنے کو مذہبی لوگوں نے جس تناظر میں بھی دیکھا ہو سیکولر اور لبرل طبقات نے اسے اسلام اور سیکولر ازم کی جنگ کے طور پر دیکھا اور دکھایا ہے۔