سرسید نے ایک ظلم یہ کیا کہ یوسف کے نام سے سیدنا عیسیٰؑ کے ایک والد ایجاد کرلیے۔ لیکن اس سلسلے میں قرآن مجید خاموش ہے، علم حدیث خاموش ہے، صحابہ خاموش ہیں، تابعین خاموش ہیں، تبع تابعین خاموش ہیں، تمام بڑے صوفیا اور علما خاموش ہیں، یہاں تک کہ انجیل بھی خاموش ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پوری اسلامی روایت سیدنا عیسیٰؑ کو بن باپ کا بیٹا قرار دے رہی ہے، مگر سرسید اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے اور سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش کی اندھا دھند تاویل کرتے ہیں اور جس یوسف نام کے شخص کا پوری اسلامی روایت میں کوئی نام و نشان نہیں اس کا ذکر سرسید اس دھڑلے سے کررہے ہیں جیسے اس شخص کے بارے میں کوئی شبہ ہی نہ ہو۔ فرض کیجیے عیسائی روایت میں ایسے کسی شخص کا ذکر موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرسید قرآن و حدیث پر ایمان رکھتے ہیں یا کسی ایسی مجہول عیسائی روایت پر جسے خود عیسائی بھی اب تسلیم نہیں کرتے۔ سرسید کے ’’عاشقان‘‘ سرسید کو علم کا سمندر، ذہانت کا قطب مینار اور مسلمانوں کا خیر خواہ باور کراتے ہیں، لیکن اس ایک مثال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس شخص کے جہل اور کند ذہنی کا کیا عالم ہوگا جو قرآن و حدیث کے شفاف بیان، پوری امت کے اجماع اور خود عیسائیوں کے اجماع کے خلاف اپنا منمناتا ہوا بیان اور بے بنیاد دلیل لیے کھڑا ہو۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ کیسے صاحبان علم، پی ایچ ڈی رائٹرز، محقق اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں جو قرآن و سنت، احادیث مبارک اور اجماع پر ایمان رکھنے والے معاشرے میں سرسید کی وکالت کرتے ہیں؟ ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور صاحب عزت بنے ہوئے ہیں؟۔ کیا اب ان میں سے ایک ایک کا نام لیا جائے؟ اور ان سے پوچھا جائے کہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبی ہوئی سرسید کی مذہبی فکر کے باوجود ان کے لیے سرسید کیوں محترم ہیں؟ آخر یہ لوگ سرسید کی شخصیت اور فکر سے عوام و خواص کی لاعلمی اور کم علمی کا فائدہ کیوں اُٹھائے جارہے ہیں؟ یہ کتنی عجیب اور ہولناک بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور جس سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کو پیدا کیا انہیں اور ان کے عاشقان کو معاشرہ سر پر بٹھائے ہوئے ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے باہمی تعلق کا معاملہ کوئی الزام نہیں۔ اس سلسلے میں آپ ہمارے ایک مکمل کالم کا انتظار فرمائیے اور دعا کیجیے کہ ہمیں اس کی توفیق اور اس کا وقت میسر آسکے۔
بعض لوگ گمان کرسکتے ہیں کہ ہم نے معجزات کے انکار کے سلسلے میں سرسید کی فکر کا صرف ایک حوالہ پیش کیا ہے لیکن سرسید نے صرف ایک معجزے کا نہیں قرآن میں بیان ہونے والے تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے سیدنا ابراہیمؑ سے متعلق معجزات کا انکار کیا ہے، حضرت موسیٰؑ سے متعلق معجزات کا انکار کیا ہے، سیدنا عیسیٰؑ سے متعلق تمام معجزات کا انکار کیا ہے، یہاں تک کہ رسول اکرمؐ کے جسمانی معراج کا بھی انکار کیاہے۔ اس سلسلے میں کرنے کا کام یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود ایک ایک معجزے کا بیان پیش کرکے سرسید کے خیالات اس کے مقابل رکھ دیے جائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ لیکن اگر ہم اب کریں گے تو پھر سرسید کے دوسرے ’’کارناموں‘‘ پر گفتگو موقوف رہے گی۔ خیر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ آخر میں یہ بات بھی سن لیجیے کہ سرسید کی شخصیت اور فکر پر گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ سرسید برصغیر کے تمام مغرب زدگان، عرف جدیدیوں عرف Modernists کے استاد ہیں۔ ان کے پیر ہیں بلکہ امام ہیں۔ یہ لوگ دین میں مولانا مودودی کی اصطلاح میں ’’تجدّد‘‘ ایجاد کرتے ہیں وہ سرسید کی فکر سے ماخوذ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے سیکولر اور لبرل عناصر کو بھی تاریخ میں ’’پناہ‘‘ درکار ہوتی ہے تو وہ سرسید کی شخصیت اور فکر میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے سرسید کے متاثرین ہندوستان اور پاکستان کے طاقت ور ترین لوگ ہیں۔ یہ حکمران ہیں۔ بیورو کریٹس ہیں، دانش ور ہیں، اسکالرز ہیں، ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے لوگ ہیں، تعلیمی اداروں کو مٹھی میں لیے ہوئے لوگ ہیں۔ چناں چہ سرسید کی شخصیت اور فکر پر گفتگو انفرادی، اجماعی، مذہبی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جو شخص اتنی سی بات بھی نہ سمجھتا ہو اس کے پاس اس سلسلے میں گفتگو کا کوئی مذہبی، علمی، اخلاقی، تہذیبی، تاریخی یہاں تک کہ صحافتی جواز بھی نہیں ہے۔