کیا افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی، کشمیر کاز پر امریکا بھارت گٹھ جوڑ، بھارت کی جانب سے جنگ کی مسلسل دھمکیاں، امریکا، اسرائیل اور بھارت کی جانب سے ایٹمی اثاثوں پر حملوں کا خطرہ، بلاشبہ جنرل باجوہ نے کئی بار یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے امریکا کے Do More کے جواب میں No More کہا ہے لیکن ایسا ہے تو جنرل باجوہ کے ترجمان جنرل آصف غفور بار بار امریکا سے یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں تمہارے پیسے کی ضرورت نہیں مگر تم ہماری قربانیوں کا اعتراف کرو۔ لیکن جو لوگ ’’خوف‘‘ کی ’’پالیسی‘‘ بناتے ہیں جو خود کو کبھی ’’کرائے کے فوجی‘‘ کے ’’امیج‘‘ سے بلند نہیں کرتے ان کی ’’قربانیوں‘‘ کو کوئی قربانی نہیں سمجھتا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے کیوں کہ اسے ہر سال ’’بڑی رقم‘‘ دی جاتی ہے۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہا کہ امریکا ہمیں اپنا ’’دوست‘‘ یا ’’اتحادی‘‘ نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ ہمیں صرف ’’کرائے کا فوجی‘‘ سمجھتا ہے۔ ’’رقم‘‘ کی ’’یاددہانی‘‘ دوست یا اتحادی کو نہیں کرائی جاتی بلکہ کرائے پر کام کرنے والوں کو کرائی جاتی ہے۔ دوست اور اتحادی کیا ہوتا ہے یہ جاننا ہو تو ہمیں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور بھارت کے مراسم پر نظر ڈالنی چاہیے۔ ساری دنیا اسرائیل کے خلاف ہے مگر امریکا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ بھارت نے اپنی تاریخ کا بیش تر وقت سوویت کیمپ میں بسر کیا ہے مگر امریکا کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ گزشتہ 50 سال سے امریکا کو پوج رہا ہے مگر امریکا اپنے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے بتا رہا ہے کہ اس کے نزدیک پاکستان کے حکمران پچاس سال پہلے بھی کرائے کے فوجی تھے اور آج بھی کرائے کے فوجی ہیں۔ اصول ہے کہ انسان اپنی عزت خود کراتا ہے، انسان بتاتا ہے کہ اس کا ایک بلند تصور حیات ہے، اس کے کچھ اصول ہیں، اس کی کوئی اخلاقیات ہے تو ’’دوسرے‘‘ بھی دیر سے سہی مان لیتے ہیں کہ اس شخص کی بھی ایک عزت ہے اس کی بھی ایک تکریم ہے لیکن اگر انسان بتائے کہ وہ صرف ’’ڈالر پرست‘‘ ہے تو پھر ’’دوسرے‘‘ بھی اسے ڈالر، پونڈ اور درہم و دینار سے ’’Define‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے امریکا کے لیے جو جنگ لڑی ہے وہ ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف تھی، ہماری اصل تہذیب اور ہماری اصل تاریخ کے خلاف تھی، یہ جنگ ہم نے صرف ڈالر اور امریکا کے خوف کے تحت لڑی۔ یہ حقائق ہمیں معلوم ہیں تو امریکا کو بھی معلوم ہیں اب وہ ہماری عزت کرے تو کیسے؟ اور وہ ہماری قربانیوں کو قربانیاں تسلیم کرکے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھے تو کیونکر؟۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ امریکا کے نائب صدر مائک پنس نے اپنے حالیہ خفیہ دورہ افغانستان کے موقع پر پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان امریکا کی بات نہیں مانے گا تو بڑا نقصان اٹھائے گا اور اس سلسلے میں پاکستان کو تیار رہنا چاہیے۔ امریکا کے نائب صدر نے پاکستان کو مزید دھمکاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کے دن گنے جاچکے اور ہم نے امریکی فوجیوں کو کہیں بھی کارروائی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکا ایک بار پھر پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ اگر تم ہماری جنگ کو گود نہیں لو گے تو تمہیں امریکا کا دشمن سمجھا جائے گا۔ اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکا کے نائب صدر کے تبصرے کو ’’غیر مناسب‘‘ قرار دیا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ مائک پنس کا بیان امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے منافی ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی دھمکیوں کے سلسلے میں زبانی جمع خرچ کررہا ہے ورنہ اصل میں وہ امریکا کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کررہا ہے۔ اس خیال کو سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے اس بیان سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکا کی ممکنہ کارروائی کے سلسلے میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور انہیں پوری ’’اُمید‘‘ ہے کہ فریقین کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکل آئے گا۔ لیکن یہ ’’معجزہ‘‘ امریکا کی جنگ کو ایک بار پھر ’’گود‘‘ لیے بغیر کیسے ہوگا اس بارے میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ یہاں تک کہ اس بات کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے کہ امریکا جس طرح اسامہ بن لادن کے خلاف جارحانہ کارروائی کرچکا ہے اسی طرح جماعۃ الدعوۃ کے حافظ سعید کے خلاف جارحانہ قدم اُٹھا سکتا ہے۔ یہ خطرہ امریکی نائب صدر کی دھمکی اور پینٹا گون کی اس رپورٹ سے مزید بڑھ گیا ہے کہ جہاں پاکستان اور امریکا کے مفادات یکساں ہیں وہاں امریکا اور پاکستان مل کر کارروائی کریں گے لیکن جہاں ان کے مفادات میں ہم آہنگی نہیں ہے وہاں امریکا یک طرفہ کارروائی کرنے میں آزاد ہوگا۔