روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق 16 دسمبر یعنی سقوطِ ڈھاکا کی مناسبت سے ہماری سول اور فوجی قیادت نے کوئی بیان جاری کرنا ضروری نہ سمجھا۔ خبر میں اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے، اس لیے کہ سقوطِ ڈھاکا ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو سقوطِ ڈھاکا کو فراموش کرنے پر افسوس کا اظہار بھی بڑا قیمتی بن گیا ہے، اس لیے کہ اب اس بات پر افسوس بھی نایاب ہوگیا ہے، البتہ اس سلسلے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر ہمارا اجتماعی شعور سقوطِ ڈھاکا کو بھلانے پر کیوں تُلا ہوا ہے؟۔ اس سوال کا جواب غالب کے الفاظ میں یہ ہے
یاد ماضی عذاب ہے یاربّ
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن سقوطِ ڈھاکا کی یاد ہمارے لیے عذاب کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس روز ہمارا ملک دولخت ہوگیا تھا؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم اس سانحے کے حوالے سے خود کو مجرم محسوس کرتے ہیں اور ہمارا شعور احساسِ جرم کا بوجھ اُٹھانے سے انکار کرتا ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ انسان کو ماضی میں اُلجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے اسے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ یہ بات اصولی اعتبار سے درست ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو قومیں ماضی کو بھول جاتی ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ماضی کو بھول کر حال میں ماضی کو دُہراتی ہیں اور اس طرح ان کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے۔ ماضی سے جان چھڑانا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم ماضی کی معنویت کو سمجھ لیں اور اس کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کو متعین کرلیں۔ اس کے بعد ہم ماضی کو پھلانگ کر مستقبل میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو ماضی بھوت کی طرح فرد کیا قوم کے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے سقوطِ ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت متعین نہیں کی۔ چناں چہ یہ سانحہ ہمارے تعاقب میں ہے۔ اس سانحے کے تعاقب سے جان چھڑانے کے لیے ہم نے اسے ’’بھول کی قبر‘‘ میں دفن کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ بجائے خود ایک مجرمانہ فعل ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے ہمارے اجتماعی شعور کی حالت یہ ہے کہ ’’خواص‘‘ بھی ’’عوام‘‘ کی طرح کی گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سابق سول سرونٹ اور مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کا حالیہ کالم ہے۔ 22 دسمبر 2017ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس کالم میں ڈاکٹر صفدر محمود نے کئی ایسی باتیں لکھی ہیں جن پر گفتگو ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔
’’پہلی دفعہ مجھے مشرقی پاکستان جانے کا موقع 1968ء میں ملا۔ لاہور سے ہوائی جہاز میں بیٹھا تو ڈھاکا پہنچنے تک سوچتا رہا کہ جس ملک کے دو حصوں کے درمیان ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ حائل ہو اور شہریوں میں ملاقات صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے کیا وہاں دونوں حصوں کے عوام ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں اور آپس میں میل جول کے ذریعے محبت کے رشتے استوار کرسکتے ہیں‘‘۔
بلاشبہ زندگی میں جغرافیائی فاصلوں کی بھی اہمیت ہے مگر اصل مسئلہ دلوں اور ذہنوں کا ہے۔ دل اور اذہان ملے ہوئے ہوں تو ہزاروں میل کے فاصلے بھی کچھ نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس اگر دل نہ ملے ہوئے ہوں تو ایک گھر میں رہنے والوں کے درمیان بھی ہزاروں میل کے فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ انفرادی زندگی میں ایسی مثالوں کی کوئی کمی نہیں۔ تاہم ہماری تاریخ میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ ترکی میں ختم ہورہی تھی مگر اس کا ماتم برصغیر میں ہورہا تھا۔ حالاں کہ دہلی اور استنبول کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا۔ لیکن مذہب، تہذیب اور تاریخ کا شعور تمام فاصلوں کو پھلانگ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ اس کے برعکس عرب ممالک ترکی کے پڑوس میں موجود تھے اور وہاں خلافت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی حرارت موجود نہ تھی۔ ڈاکٹر صفدر محمود سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ قیام پاکستان کے حوالے سے بھی یہی ہوا۔ پاکستان لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور ڈھاکا میں بن رہا تھا مگر دہلی، یوپی اور کئی دوسرے اقلیتی صوبوں کے مسلمان تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کررہے تھے۔ حالاں کہ انہیں پاکستان کے قیام، سیاسی، سماجی اور معاشی حوالوں سے ایک ذرّہ بھی حاصل ہونے والا نہیں تھا۔ لیکن مذہب، تہذیب اور تاریخ کے رشتے اور ان تمام چیزوں کا شعور اتنا قوی تھا کہ دہلی، لکھنؤ، لاہور، کراچی اور ڈھاکا ایک گھر کا منظر پیش کررہے تھے۔ اقلیتی صوبے کا کوئی باشعور شخص ایسا نہ تھا جو کہہ رہا ہو کہ دہلی اور لکھنؤ کا لاہور، کراچی، پشاور اور ڈھاکا کے بھائیوں سے کیا لینا دینا، ہمارے اور ان کے درمیان کوئی میل ملاقات بھی نہیں، ہمارے اور ان کے درمیان تو ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان بننے سے فائدہ ہوگا تو ان لوگوں کو جو پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ ’’بیگانی شادی‘‘ میں ’’عبداللہ‘‘ کیوں ’’دیوانے‘‘ کا کردار ادا کرے؟؟۔ اُمت کا اصل تصور یہ ہے کہ اُمت کا کوئی حصہ دس ہزار میل دور کوئی معرکہ انجام دے گا تو ہم دس ہزار میل دور بیٹھ کر اس کا جشن منائیں گے اور اُمت کا کوئی حصہ پندرہ ہزار کلو میٹر دور سانحے سے دوچار ہوگا تو ہم پندرہ ہزار کلو میٹر دور اس کا غم منائیں گے۔ تحریک پاکستان کے موقع پر یہی ہوا۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمان تمام فاصلوں کو پھلانگ گئے اور ان کے دل ہزاروں میل دور موجود لاہور، کراچی اور ڈھاکا کے لوگوں کے ساتھ دھڑکتے رہے۔ اس سے ’’معلوم‘‘ نہیں ’’ثابت‘‘ ہوتا ہے کہ اصل فاصلہ جغرافیے میں نہیں دل اور دماغ میں ہوتا ہے۔ نفسیات اور جذبات میں ہوتا ہے۔
اس کا ایک ناقابل تردید ثبوت خود بچا کھچا موجود پاکستان ہے۔ کہنے کو سندھ، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان ایک جغرافیائی وحدت ہیں مگر 1980ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ مشرقی پاکستان کا منظر پیش کررہا تھا اور بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کے بیانات اخبارات میں شائع ہورہے تھے۔ یہ بیانات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی کے حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کراچی کے الگ ہونے کی افواہیں پھیل گئی تھیں۔ یہاں تک کہ قاضی حسین احمد جیسے بڑے سیاسی رہنما کا بیان ایک قومی اخبار میں ایک کالم کی سرخی کے ساتھ شائع ہوگیا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوجیں اُتر گئی ہیں۔ ہم نے خود قاضی صاحب سے اس سلسلے میں استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہوا یہ تھا کہ بوسنیا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے حصے کے طور پر خدمات انجام دینے والے پاکستان کے فوجی لوٹ کر وطن واپس آئے تھے اور کراچی کی بندرگاہ پر اُترے تھے۔ چوں کہ وہ امن فوج کا حصہ رہے تھے اس لیے ان فوجی ساز وسامان پر اقوام متحدہ کی امن فوج کے پرچم لگے ہوئے تھے۔ چناں چہ کسی ’’ذریعے‘‘ نے خوف کے عالم میں یہ اطلاع قاضی صاحب کو دے دی اور کراچی کے حالات کی ابتری کو دیکھتے ہوئے قاضی صاحب نے بھی بیان دے دیا۔ بلوچستان کا معاملہ یہ ہے کہ 1970ء سے اب تک وہاں چار پانچ فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں جہاں کوئی جغرافیائی فاصلہ نہیں وہاں یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے؟۔ ان مثالوں کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ وفاق یا پنجاب ذرا کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کرے ایک دن میں معلوم ہوجائے گا کہ مشترک سرحدوں کے حامل سندھ، کے پی کے اور پنجاب میں کتنے فاصلے ہیں؟ ان حقائق سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ اصل مسئلہ جغرافیائی فاصلوں کا نہیں دلوں اور ذہنوں کے فاصلوں کا ہے۔ دلوں اور ذہنوں میں فاصلے ہوں تو ماں باپ اور اولاد ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ صفر کے برابر جغرافیائی فاصلہ رکھنے والے شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان جو دلی اور ذہنی فاصلے پیدا ہوئے ان کا تعلق ’’مفادات‘‘ سے تھا۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے مفادات سے بہت زیادہ اور مشرقی پاکستان کے مفادات سے بہت کم۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے لکھا ہے کہ ہمارے یہاں ایک ایسا ملامتی طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری ذمے داری مغربی پاکستان پر ڈالتا ہے۔ حالاں کہ ڈاکٹر صاحب کے بقول حسینہ واجد اعتراف کرچکی ہے کہ جب وہ شیخ مجیب کے ساتھ لندن میں مقیم تھی تو ’را‘کے افسران شیخ مجیب سے ملنے آتے تھے۔ یقیناًایسا ہی ہوگا مگر بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ ستمبر 1968ء میں قائم ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ 1947ء سے 1968ء تک کیا ہوا؟ ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی 56 فی صد تھی مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ مساوات یا Parity کے اصول کو تسلیم کرے اور اپنی آبادی کو 56 فی صد کے بجائے 50 فی صد فرض کرلے اور بنگالیوں نے ’’قومی اتحاد‘‘ کے لیے یہ قربانی دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ انصاف ہے، 56 فی صد کو مجبور کیا جائے کہ وہ خود کو 50 فی صد تسلیم کریں؟ کیا یہ ظلم بھی بھارت یا ’را‘ نے ایجاد کیا تھا؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے 56 فی صد کو 50 فی صد بنانے کا تصور پیش کیا اور اس تصور کو عملی حقیقت بنا کر دم لیا؟۔ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ 1962ء تک بری فوج میں بنگالیوں کی بھرتی شروع ہی نہیں ہوئی تھی اور 1970ء میں مسلح افواج میں بنگالی فوجیوں کی تعداد صرف 15 فی صد تھی۔ حالاں کہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ کیا یہ کارنامہ بھی بھارت یا ’را‘ نے انجام دیا تھا؟ ڈاکٹر صفدر محمود نے فرمایا ہے کہ فوجی اقتدار سے بھی مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پیدا ہوا۔
لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فوج میں بنگالیوں کی نمائندگی ان کی آبادی سے بہت کم تھی۔ بنگالی فوج میں 56 فی صد ہوتے تو انہیں فوج کے اقتدار میں آنے سے کوئی فرق نہ پڑتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مغربی پاکستان کے لوگوں کو مارشل لا سے کوئی ’’خصوصی احساس محرومی‘‘ لاحق نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف گزشتہ 25 سال سے پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول ہیں مگر جب تک فوج نے انہیں اقتدار سے محروم نہیں کیا تھا انہیں سیاست میں فوج کی مداخلت سے کوئی تکلیف نہ تھی۔ اس وقت بھی ان کی تکلیف ’’شخصی‘‘ اور ’’خاندانی‘‘ ہے۔ بنگلا دیش میں جنرل ضیا الرحمن نے بابائے قوم شیخ مجیب کو اہل خانہ سمیت ہلاک کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا مگر کسی بنگالی نے اس قبضے پر احساس محرومی کا نعرہ نہ لگایا۔ جنرل ارشاد بھی طویل عرصے تک بنگلا دیش پر قابض رہے مگر ان کے اقتدار میں بھی محرومی کی بات سامنے نہ آئی۔ اس لیے کہ بنگلا دیش کی فوج بھی بنگالیوں کی تھی۔ متحدہ پاکستان کی فوج میں بھی بنگالیوں کی نمائندگی آبادی کے مطابق ہوتی تو ہماری تاریخ بھی مختلف ہوتی۔ ان حقائق کا مفہوم یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں سارے مسائل ہم نے خود پیدا کیے۔ بھارت اور اس کی ایجنسی ’را‘ نے ہمارے پیدا کردہ حالات سے فائدہ اُٹھایا۔ بدقسمتی سے یہ تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق ’’چند حقائق‘‘ ہیں ورنہ ایسے حقائق کا ایک انبار موجود ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوا کہ ہم سقوطِ ڈھاکا کو کیوں بھول جانا چاہتے ہیں؟؟۔