نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کرتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ لیکن یہ ایک سطح پر سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف اور دوسری سطح پر سب سے پہلے امریکا کی صورتِ حال تھی۔ سب سے پہلے پاکستان، سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف اس لیے تھا کہ جنرل پرویز امریکا کے آگے ہتھیار ڈالے بغیر ایک دن اقتدار میں نہیں رہ سکتے تھے۔ سب سے پہلے پاکستان، سب سے پہلے امریکا اس لیے تھا کہ افغانستان میں امریکا کی جنگ الف سے یے تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگ تھی۔ اس جنگ کا پاکستان کے کسی بھی مفاد سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ جنرل نصیر اللہ بابر طالبان کو پاکستان کے بچے قرار دیتے تھے مگر اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے بچوں کو اسی طرح دشمن کے آگے ڈال دیا جس طرح 1971ء میں جنرل نیازی اور جنرل یحییٰ نے پاکستان کے لیے جان کی بازی لگانے والے البدر اور الشمس کے ہزاروں جوانوں کو مکتی باہنی اور بھارتی فوجوں کے آگے ڈال دیا تھا۔ بدقسمتی یہ کہ جنرل پرویز جب تک اقتدار پر مسلط رہے وہ امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے رہے۔ جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، آصف زرداری اور میاں نواز شریف نے بھی امریکا کی جنگ کو پاکستان ہی کی جنگ قرار دیا۔ ایسا کرتے ہوئے کسی کو خیال ہی نہیں آیا کہ اس جنگ میں ہم نے 60 ہزار پاکستانیوں کی قربانی دی ہے۔ ہزاروں زخمیوں اور 110 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ مگر بالآخر پاکستان کے حکمران طبقے کو یہ تسلیم کرنا ہی پڑا ہے کہ اس نے نائن الیون کے بعد جو جنگ لڑی ہے وہ پاکستان کی جنگ نہیں تھی بلکہ وہ امریکا کی جنگ تھی۔
اس اعتراف کی صورت اس وقت سامنے آئی جب 18 دسمبر 2017ء کو اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کے قومی مشیر لیفٹیننٹ (ر) جنرل ناصر جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی اس وقت شروع ہوئی جب ہم نے افغانستان میں امریکا اور مغرب کا ساتھ دیا۔ اس اعتراف کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اس وقت شروع ہوئی جب جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے امریکا کی جنگ کو گود لیا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکا کی جنگ کو گود نہ لیتا تو پاکستان میں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ نہ ہوتا۔ چناں چہ پاکستان میں دہشت گردی کے تین ذمے دار ہیں۔ پہلا ذمے دار امریکا ہے جس نے کسی ثبوت کے بغیر جنگ ایجاد کی۔ دوسرا ذمے دار پاکستان کا حکمران طبقہ ہے جس نے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر اسے گود لیا اور قوم سے جھوٹ بولا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے تیسرے ذمے دار دہشت گرد ہیں جنہوں نے ردِعمل کی نفسیات کا شکار ہو کر دہشت گردی کو اختیار کیا۔ لیکن تماشا یہ ہے کہ گزشتہ 16 سال سے پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے دو ذمے داروں کا ذکر کہیں نہیں ہوا۔ البتہ دہشت گردی کے تیسرے ذمے دار کا چرچا ہر طرف ہورہا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ پاکستان سے محبت ہے؟ کیا یہ قومی مفادات کا دفاع ہے؟ لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے اور ان عناصر میں تصادم کی نوبت کیوں آئی جنہیں پاکستان کے حکمران ’’پاکستان کے بچے‘‘ کہا کرتے تھے اور ان بچوں کے حوالے سے حکمرانوں کو افغانستان، پاکستان کی تزویراتی گہرائی یا strategic depth بلکہ پاکستان کا ’’پانچواں صوبہ‘‘ نظر آتا تھا۔ اس سوال کا جواب اہم، اعصاب شکن مگر آسان ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے کا کوئی مذہب، کوئی تہذیب، کوئی تاریخ اور مقصد اقدار توہیں نہیں۔ چناں چہ اس کے حلال و حرام بدلتے رہتے ہیں۔ چناں چہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے حکمران طبقے پر دباؤ آیا تو اس نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنا نظریہ، اپنے دوست اور اپنے اتحادی بدل لیے۔ البتہ افغانستان میں موجود ’’پاکستان کے بچوں‘‘ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عام سے مسلمان تھے۔ ان کے اندر کچھ نہ کچھ مذہب، کچھ نہ کچھ تہذیب، کچھ نہ کچھ تاریخ اور کچھ نہ کچھ اقدار موجود تھیں۔ چناں چہ ان کے لیے ایک رات میں اپنا نظریہ، اپنا دل، اپنا دماغ اور اپنا ایقان یعنی اپنا conviction بدلنا ممکن نہ ہوسکا۔ عام آدمی یا عام مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ’’عام مسلمانوں‘‘ سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال نے کہا ہے
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
اقبال مصور پاکستان تھے۔ چناں چہ اصولاً اقبال کے مشورے پر پاکستان کے حکمرانوں کو عمل کرنا چاہیے تھا۔ مگر یہ تاریخی اعتبار سے کتنی عجیب بات ہے کہ اقبال کے مشورے پر عمل کیا تو ایک مولوی ملا عمر نے۔ اس نے کہا ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے ہم اپنے تصور حق اور اپنی اقدار پر سودے بازی نہیں کرسکتے۔ بے شک ملا عمر نے حکومت کھوئی، ملک کھویا، گمنامی میں زندگی کھوئی مگر اس نے اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کو بچالیا۔ عالم بالا میں اقبال ملا عمر سے ملے ہوں گے تو انہوں نے ملا عمر سے کہا ہوگا میرا شعر تو امت کے تمام حکمرانوں کے لیے تھا مگر اسے سمجھا صرف تم نے۔ تمہارے کیا کہنے۔ بے شک جو مسلمان خدا سے ڈرتا ہے وہ کسی امریکا، کسی یورپ، کسی ہندوستان اور کسی اسرائیل کیا پوری دنیا کی مجموعی قوت سے بھی نہیں ڈرتا۔ خدا سے ڈرنے کے دعویدار کسی دنیاوی طاقت سے ڈر جائے گا اس سے زیادہ شرمناک بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ خدا سے ڈرنے کے بجائے دنیا کی کسی بھی طاقت سے ڈرتے ہیں ان کا ایمان، ایمان نہیں ایمان کی لاش ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ملک کے ایٹمی اثاثوں اور کشمیر کاز کے تحفظ کو یقینی بنالیا ہے۔ جنرل پرویز کا یہ دعویٰ ایک سیاسی بے حیائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ چناں چہ اس دعوے کا وہی حشر ہوا ہے جو ایسے دعوؤں کا ہونا چاہیے۔ لیکن اس سلسلے میں اب قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ کی بات بھی سنیے۔ انہوں نے اسلام آباد کے مذکورہ بالا سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس میں امریکا ملوث ہے، انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کشمیر پر بھارت کے ساتھ مل گیا ہے اور وہ نئی دہلی کی زبان بول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازش سے آگاہ ہیں۔ اس سلسلے میں رہی سہی کسر امریکا کی اس تازہ ترین ہدایت نے پوری کردی ہے کہ پاکستان دنیا کو اپنے ایٹمی اثاثوں کے محفوظ ہونے کی یقین دہانی کرائے۔ ان حقائق کا مفہوم عیاں ہے۔ پاکستان کے سول اور فوجی حکمران 60 ہزار پاکستانیوں کو شہید کراکے اور 110 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرکے بھی کشمیر کاز اور اپنے ایٹمی اثاثوں کا تحفظ نہ کرسکے۔ چناں چہ جنرل ناصر جنجوعہ نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ 16 سال تک امریکا کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار ادا کرکے بھی امریکا کو خوش نہ کرسکا اور کشمیر کاز اور ہمارے ایٹمی اثاثے جس طرح نائن الیون کے وقت خطرات میں گھرے ہوئے تھے آج بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اتفاق سے جنرل پرویز مشرف، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف زندہ ہیں آخر کوئی ان سے کیوں نہیں پوچھتا کہ 16 سال تک امریکا کے لیے ملک و قوم کو تباہ کرنے کے بعد انہوں نے ملک و قوم کے لیے کیا حاصل کیا؟
کیا افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی، کشمیر کاز پر امریکا بھارت گٹھ جوڑ، بھارت کی جانب سے جنگ کی مسلسل دھمکیاں، امریکا، اسرائیل اور بھارت کی جانب سے ایٹمی اثاثوں پر حملوں کا خطرہ، بلاشبہ جنرل باجوہ نے کئی بار یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے امریکا کے Do More کے جواب میں No More کہا ہے لیکن ایسا ہے تو جنرل باجوہ کے ترجمان جنرل آصف غفور بار بار امریکا سے یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں تمہارے پیسے کی ضرورت نہیں مگر تم ہماری قربانیوں کا اعتراف کرو۔ لیکن جو لوگ ’’خوف‘‘ کی ’’پالیسی‘‘ بناتے ہیں جو خود کو کبھی ’’کرائے کے فوجی‘‘ کے ’’امیج‘‘ سے بلند نہیں کرتے ان کی ’’قربانیوں‘‘ کو کوئی قربانی نہیں سمجھتا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے کیوں کہ اسے ہر سال ’’بڑی رقم‘‘ دی جاتی ہے۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہا کہ امریکا ہمیں اپنا ’’دوست‘‘ یا ’’اتحادی‘‘ نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ ہمیں صرف ’’کرائے کا فوجی‘‘ سمجھتا ہے۔ ’’رقم‘‘ کی ’’یاددہانی‘‘ دوست یا اتحادی کو نہیں کرائی جاتی بلکہ کرائے پر کام کرنے والوں کو کرائی جاتی ہے۔ دوست اور اتحادی کیا ہوتا ہے یہ جاننا ہو تو ہمیں امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور بھارت کے مراسم پر نظر ڈالنی چاہیے۔ ساری دنیا اسرائیل کے خلاف ہے مگر امریکا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ بھارت نے اپنی تاریخ کا بیش تر وقت سوویت کیمپ میں بسر کیا ہے مگر امریکا کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ گزشتہ 50 سال سے امریکا کو پوج رہا ہے مگر امریکا اپنے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے بتا رہا ہے کہ اس کے نزدیک پاکستان کے حکمران پچاس سال پہلے بھی کرائے کے فوجی تھے اور آج بھی کرائے کے فوجی ہیں۔ اصول ہے کہ انسان اپنی عزت خود کراتا ہے، انسان بتاتا ہے کہ اس کا ایک بلند تصور حیات ہے، اس کے کچھ اصول ہیں، اس کی کوئی اخلاقیات ہے تو ’’دوسرے‘‘ بھی دیر سے سہی مان لیتے ہیں کہ اس شخص کی بھی ایک عزت ہے اس کی بھی ایک تکریم ہے لیکن اگر انسان بتائے کہ وہ صرف ’’ڈالر پرست‘‘ ہے تو پھر ’’دوسرے‘‘ بھی اسے ڈالر، پونڈ اور درہم و دینار سے ’’Define‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے امریکا کے لیے جو جنگ لڑی ہے وہ ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف تھی، ہماری اصل تہذیب اور ہماری اصل تاریخ کے خلاف تھی، یہ جنگ ہم نے صرف ڈالر اور امریکا کے خوف کے تحت لڑی۔ یہ حقائق ہمیں معلوم ہیں تو امریکا کو بھی معلوم ہیں اب وہ ہماری عزت کرے تو کیسے؟ اور وہ ہماری قربانیوں کو قربانیاں تسلیم کرکے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھے تو کیونکر؟۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ امریکا کے نائب صدر مائک پنس نے اپنے حالیہ خفیہ دورہ افغانستان کے موقع پر پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان امریکا کی بات نہیں مانے گا تو بڑا نقصان اٹھائے گا اور اس سلسلے میں پاکستان کو تیار رہنا چاہیے۔ امریکا کے نائب صدر نے پاکستان کو مزید دھمکاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کے دن گنے جاچکے اور ہم نے امریکی فوجیوں کو کہیں بھی کارروائی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکا ایک بار پھر پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ اگر تم ہماری جنگ کو گود نہیں لو گے تو تمہیں امریکا کا دشمن سمجھا جائے گا۔ اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکا کے نائب صدر کے تبصرے کو ’’غیر مناسب‘‘ قرار دیا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ مائک پنس کا بیان امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے منافی ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی دھمکیوں کے سلسلے میں زبانی جمع خرچ کررہا ہے ورنہ اصل میں وہ امریکا کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کررہا ہے۔ اس خیال کو سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے اس بیان سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکا کی ممکنہ کارروائی کے سلسلے میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور انہیں پوری ’’اُمید‘‘ ہے کہ فریقین کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکل آئے گا۔ لیکن یہ ’’معجزہ‘‘ امریکا کی جنگ کو ایک بار پھر ’’گود‘‘ لیے بغیر کیسے ہوگا اس بارے میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے۔ یہاں تک کہ اس بات کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے کہ امریکا جس طرح اسامہ بن لادن کے خلاف جارحانہ کارروائی کرچکا ہے اسی طرح جماعۃ الدعوۃ کے حافظ سعید کے خلاف جارحانہ قدم اُٹھا سکتا ہے۔ یہ خطرہ امریکی نائب صدر کی دھمکی اور پینٹا گون کی اس رپورٹ سے مزید بڑھ گیا ہے کہ جہاں پاکستان اور امریکا کے مفادات یکساں ہیں وہاں امریکا اور پاکستان مل کر کارروائی کریں گے لیکن جہاں ان کے مفادات میں ہم آہنگی نہیں ہے وہاں امریکا یک طرفہ کارروائی کرنے میں آزاد ہوگا۔