مسلمانوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ انفرادی دشمن کو بھول جاتے ہیں مگر اجتماعی دشمن کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا اجتماعی دشمن کون ہے؟ مسلمانوں کا اجتماعی دشمن وہ ہے جو مسلمانوں کے دین کا دشمن ہو۔ جو مسلمانوں کی تہذیب کا دشمن ہو۔ جو مسلمانوں کی تاریخ کا دشمن ہو۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کے سیاسی و صحافتی اتحادی میر شکیل الرحمن نے اصول کو اُلٹ دیا ہے۔ ان کا نعرہ ہے اجتماعی دشمنی زندہ باد، انفرادی دشمن مردہ باد۔
یادش بخیر ایک زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف علامہ طاہر القادری کو ’’امام مہدی‘‘ سمجھتے تھے اور انہیں اپنی پیٹھ پر سوار کرکے خانہ کعبہ کا طواف کراتے تھے مگر اب وہ علامہ طاہر القادری کا ذکر حقار سے کرتے ہیں۔ اب ان کے اور ان کی جماعت کے نزدیک طاہر القادری ’’یہ شخص‘‘، ’’وہ شخص‘‘، ’’مولوی‘‘، ’’فسادی‘‘، ’’کینیڈا کا شہری‘‘ اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جنرل ضیا الحق کو میاں صاحب ’’روحانی باپ‘‘ کہتے اور سمجھتے تھے۔ مگر اب وہ جنرل ضیا کو ’’آمر‘‘ باور کراتے ہیں۔ عمران خان کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ایک وقت تھا کہ عمران خان میاں صاحب کے پسندیدہ کرکٹر تھے۔ ان کو شوکت خانم ہسپتال کے لیے مفت پلاٹ دیا جاسکتا تھا مگر جب سے عمران خان میاں صاحب کے سیاسی حریف یا سیاسی دشمن بن کر اُبھرے ہیں، میاں صاحب، ان کی جماعت اور میر شکیل الرحمن کے ابلاغی ادارے عمران خان کی پگڑی اُچھالتے رہتے ہیں۔ انہیں عمران میں عیوب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ انہیں کبھی عمران کے حوالے سے سیتا وہائٹ اور اس کی بیٹی ٹیرن یاد آتی ہے۔ کبھی یہ بات کہ عمران کبھی ’’پلے بوائے‘‘ تھے، یہاں تک کہ میاں صاحب اور ان کے ابلاغی اتحادیوں نے ریحام خان اور گلالئی ایجاد کرکے انہیں عمران خان کے پیچھے لگا دیا ہے۔ ارے بھئی طاہر القادری، جنرل ضیا اور عمران خان میں برائیاں ہوں گی مگر عیوب کے بیان کی بھی ایک حد ہے۔ آخر میاں صاحب ان لوگوں کو معاف کیوں نہیں کردیتے؟۔ اس سلسلے میں عمران خان اور ان کے ابلاغی اتحادی کا دل ایک سینٹی میٹر سے بھی چھوٹا ہے۔ البتہ بھارت کے سلسلے میں میاں صاحب اور ان کے ابلاغی اتحادیوں کا دل براعظم ایشیا سے بھی بڑا ہے۔ حالاں کہ بھارت اسلام کا دشمن ہے، اسلامی تہذیب کا دشمن ہے، اسلامی تاریخ کا دشمن ہے، برصغیر کی ملت اسلامیہ کا دشمن ہے، پاکستان کا دشمن ہے۔ مگر میاں صاحب اور ان کے ابلاغی اتحادیوں کو بھارت اور پاکستان ’’بھائی بھائی‘‘ نظر آتے ہیں۔ انہیں دونوں ملکوں کے لوگوں کا رہن سہن ایک جیسا محسوس ہوتا ہے، انہیں پاکستان اور بھارت کی ’’غذا‘‘ میں مماثلت نظر آتی ہیں۔ انہیں پاکستان اور بھارت کی سرحد پر ایک بے معنی ’’لکیر‘‘ کا گمان ہوتا ہے۔ چناں چہ بھارت کے لیے ’’امن کی آشا‘‘ ہے۔ کرکٹ کے ’’ٹاکرے‘‘ ہیں۔ مودی نواز بھائی بھائی کا ’’تاثر‘‘ ہے۔ یعنی اجتماعی دشمن زندہ باد، انفرادی دشمن مردہ باد۔ تہذیب، علم، اخلاق، کردار اور امن دوستی اسی کو کہتے ہیں؟۔
اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی یہ ہے کہ جیو کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں حامد میر نے فرانس اور جرمنی کے سفیروں کو بلا کر ان کے سامنے کچھ سوالات رکھے۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا فرانس اور جرمنی کی دشمنی پاکستان اور بھارت کی دشمنی سے بڑی تھی؟ یہ دشمنی دوستی میں کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ فرانس اور جرمنی سے پاکستان اور بھارت کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ کیا پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے؟۔ ان سوالات کا ’’ہدف‘‘ واضح ہے اور میاں صاحب کے ابلاغی اتحادی نے حامد میر کے پروگرام کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ فرانس اور جرمنی کے سفیروں نے کہا کہ فرانس اور جرمنی کے دشمنی پاکستان اور بھارت سے بڑی تھی۔ مطلب یہ کہ اگر فرانس اور جرمنی کی ’’بڑی دشمنی‘‘ دوستی میں بدل سکتی ہے تو پاکستان اور بھارت کی ’’چھوٹی سی دشمنی‘‘ دوستی میں کیوں نہیں بدل سکتی؟۔ فرانس اور جرمنی کے سفیروں نے یہ بھی کہا کہ دوستی کے لیے پاکستان اور بھارت کو مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی دشمنی کو دوستی میں بدلنے کے لیے سیاسی خواہش اور ’’بہادر‘‘ قیادت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خیالات دلائل پر کھڑے ہوئے تجزیے کا بار سہہ سکتے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کی دشمنی اور فرانس اور جرمنی کی حریفانہ تعلق میں وہی نسبت ہے جو ایوریسٹ اور مٹی کے ایک چھوٹے سے ڈھیر میں ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی دشمنی ایوریسٹ ہے اور فرانس اور جرمنی کی دشمنی مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیر ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں پر ایک ہزار سال حکومت کی اور ہندو اس تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ذلت، شرمندگی اور بے توقیری کا احساس انہیں گھیر لیتا ہے اور وہ پاکستان کو مسلمانوں کی اس تاریخ کا ایک مظہر سمجھتے ہوئے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ اس تاریخ کو بھلانے کے لیے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ اورنگ زیب اور خلجی کو درندہ ثابت کرنے کے لیے فلمیں بناتے ہیں۔ ڈرامے تخلیق کرتے ہیں۔ اس کے برعکس نہ جرمنی نے کبھی فرانس پر ہزار سال حکومت کی اور نہ فرانس کو جرمنی پر ایک ہزار سال تک حاکم رہنے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہوا۔ مسلمانوں نے صرف برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے اس عرصے میں کروڑوں ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام بھی کیا۔ ان مسلمانوں کی آبادی بڑھتے بڑھتے اب 60 کروڑ ہوچکی ہے۔ ہندوؤں کی کم ظرف اور تنگ دل قیادت اس صورت حال کو دیکھتی ہے تو اس کا خون کھول اُٹھتا ہے۔ چناں چہ ہندوؤں نے سو سوا سو سال پہلے بھارت میں شدھی کی تحریک چلائی اور سیکڑوں مسلمانوں کو بزورِ طاقت دوبارہ ہندو بنایا۔ ہندوؤں کی کم ظرف اور تنگ نظر قیادت آج بھی بھارت میں ’’گھر واپسی‘‘ کے عنوان سے تحریک چلائے ہوئے ہے اور وہ طاقت، خوف اور پیسے کے زور پر مسلم معاشرے کے کمزور طبقات کو ہندو بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ فرانس یا جرمنی نے دوسری قوم کے کتنے لوگوں کو مشرف بہ عیسائیت یا مشرف بہ شرک کیا؟ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہندوستان ایک جغرافیائی وحدت تھا مگر پاکستان کی عظیم الشان تخلیق نے ہندوستان کی وحدت کو بے معنی بنادیا۔ ہندو اس تجربے کو ’’بھارت ماتا کی تقسیم‘‘ کہتے اور سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرانس اور جرمنی بھی کبھی جغرافیائی وحدت تھے اور ان میں سے کوئی ایک ملک وحدت
کو زیر و زبر کرکے ایک آزاد ملک بنا تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا جس طرح 70 سال میں پاکستان اور بھارت نے چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں کیا فرانس اور جرمنی بھی 70 سال میں ایک دوسرے کے مقابل آئے؟۔ مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ بھارت نے 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کا جشن منایا۔ کیا فرانس اور جرمنی نے بھی کبھی ایک دوسرے کے ٹکڑے کیے ہیں؟ سامنے کی بات ہے کہ بھارت آج بھی امریکا اور یورپ کے بعض ملکوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کیا فرانس اور جرمنی بھی 70 سال کے تعلقات کے بعد ’’دوسرے‘‘ کو توڑنے کے لیے کوشاں تھے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جس طرح بھارت خود کو خطے کی بالادست طاقت سمجھتا ہے فرانس اور جرمنی بھی 70 سال تک خود کو خطے کی بالادست طاقت سمجھتے رہے تھے؟۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خیال شرمناک حد تک بچکانہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دشمنی فرانس اور جرمنی کی دشمنی سے چھوٹی ہے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب اور ان کے ابلاغی اتحادی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی ہولناک تاریخ کو ’’معمولی‘‘ باور کراکے تاریخ کو مسخ کررہے ہیں، تاریخ کو مسخ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کے ابلاغی اتحادی پاکستان کو بھارت کی باج گزار ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ان کی انفرادی اداراتی جماعتی، گروہی یا طبقاتی خواہش بھی نہیں۔ اس خواہش کی پشت پر امریکا ہے، یورپ ہے اور خود بھارت بھی 70 سال سے یہی چاہتا ہے۔ پاکستان بن رہا تھا تو ہندو قیادت کہہ رہی تھی کہ یہ ملک چلنے والا نہیں۔ 1971ء میں بھارت نے پاکستان کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تو اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے آج ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا اور دو قومی نظریے کو جس نے پاکستان تخلیق کیا خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ کچھ عرصے قبل بھارت کے موجودہ وزیراعظم نے بڑے فخر سے کہا کہ وہ بھی پاکستان توڑنے کے ’’نیک کام‘‘ میں ’’حصے دار‘‘ ہیں اور انہوں نے بھی مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے کا ’’کارِخیر‘‘ کیا ہے؟ تو کیا پاکستان کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں؟۔
اتفاق سے پاکستان میں ایک معقول شخص بھی ایسا نہیں جو بھارت سے مذاکرات کا مخالف ہو۔
بھارت سے لیاقت علی خان نے مذاکرات کیے، جنرل ایوب نے مذاکرات کیے، جنرل ضیا الحق کو بڑا مذہبی کہا جاتا ہے مگر ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ضیا کے دور میں خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کے ایک دو نہیں 9 دور ہوئے۔ مگر تمام ادوار بے معنی اور بے نتیجہ تھے اور ان کی پشت پر امریکا کا دباؤ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کے ساتھ ’’انصاف‘‘ اور ’’برابری‘‘ کی سطح پر مذاکرات نہیں کیے۔ جنرل پرویز نے آگرہ میں بھارت کے ساتھ جو مذاکرات فرمائے تھے وہ پاکستان، پاکستانی قوم، کشمیر اور اہل کشمیر کے ساتھ ’’غداری‘‘ کے سوا کچھ نہ تھے مگر بھارت نے ایسے مذاکرات کو بھی قبول نہ کیا۔ اب چوں کہ امریکا اور یورپ بھارت کے تزویراتی اتحادی یا strategic partner بن چکے ہیں اس لیے وہ بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباؤ بھی نہیں ڈال رہے۔ چناں چہ بھارت اپنے ’’ممکنہ غلام‘‘ سے وقت گزارنے کے لیے بھی بات چیت پر آمادہ نہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ امریکا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو مذاکرات فرما رہا ہے ان میں تین مطالبات تواتر کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں۔ ایک یہ کہ بچے کچھے طالبان کو بھی مارو یا انہیں افغانستان میں ہمارے بندوبست کا حصہ بننے پر مجبور کرو۔ اپنے چھوٹے ایٹم بم یا tactical nuclear weapons ختم کرو اور اپنے ایٹمی پروگرام کو roll back کرو۔ تیسرا یہ کہ بھارت کی بڑی طاقت ہے اس کے آگے سر جھکاؤ اور بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بن کر رہو۔ یورپ، امریکا سے الگ نہیں چناں چہ امریکا پاکستان سے جو چاہتا ہے فرانس جرمنی اور برطانیہ بھی ہم سے وہی چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف امریکا، یورپ اور بھارت کے مذکورہ بالا تینوں مشترکہ مطالبات کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اب آپ کو سمجھ میں آیا حامد میر کے پروگرام میں فرانس اور جرمنی کے سفیروں نے جو کہا کیوں کہا؟ بدقسمتی سے ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بھی پاکستان کو ’’لمیٹڈ کمپنی‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دی اسی لیے انہیں بھی پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور تاریخی امکانات کا کبھی کوئی شعور نہیں رہا۔ ایسا ہوتا تو پاکستان امت مسلمہ کا قائد اور خطے کی بڑی طاقت اور عالمی اسٹیج کا مرکزی کردار ہوتا۔ مگر ہمارے فوجی اور سول حکمران پاکستان کو دولخت ہونے سے بھی نہ بچاسکے۔ یہاں تک کہ وہ بچے کچھے پاکستان کو بھی سنبھال نہیں پارہے اور ایسا ہو تو کیسے۔ ہمارے حکمران طبقے کا نعرہ ہے اجتماعی دشمن زندہ باد انفرادی دشمن مردہ باد۔