سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی میں تعلق کے تین دائرے ہیں۔ پہلے دائرے میں سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی میں وہی تعلق ہے جو باپ اور بیٹے میں ہوتا ہے۔ سرسید مرزا غلام احمد قادیانی کے روحانی اور فکری باپ ہیں۔ دوسرے دائرے میں سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی ایک دوسرے کے ’’بھائی‘‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے بعض خیالات میں اتنی یکسانیت ہے کہ جڑواں بچوں کے خیالات میں بھی اتنی مماثلت نہیں ہوتی۔ تیسرے دائرے میں سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی میں انگریزوں کی وفاداری قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ وفاداری ایسی ہے کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے لیے جان بھی دے سکتے تھے۔ رہا ایمان تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک ایمان کی اہمیت ہی نہ تھی۔ چناں چہ دونوں نے انگریزوں کے لیے دین کے مسلمات کا انکار کردیا اور اپنا ایمان انگریزوں کی وفاداری پر وار دیا۔ آئیے اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ کرتے ہیں۔
ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں عرض کرچکے ہیں کہ سرسید نے ختم نبوت کی جو تفسیر کی مرزا غلام احمد قادیانی کا ’’ظہور‘‘ اسی تعبیر سے ہوا۔ ہم پہلے کہیں اس تعبیر کا ذکر کرچکے ہیں۔ مگر زیر بحث موضوع کے حوالے سے ایک بار پھر ختم نبوت کی تعبیر کے سلسلے میں سرسید سے رجوع کرتے ہیں۔ سرسید نے لکھا ہے۔
’’روحانی ترقی یا تہذیب کے باب میں جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے وہ حد یا انتہا اس کی ہے اور اس لیے وہ خاتم ہیں۔ اب اگر ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوں جن میں ملکہ نبوت ہو مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ رسول خداؐ نے ختم نبوت فرمایا ہے ملکہ نبوت کا ختم اور فیضان الٰہی کا خاتمہ نہیں فرمایا بلکہ اولیا اُمتی کلنبیا بنی اسرائیل کے فقرے سے اس ملکہ نبوت کا تاقیامت جاری رہنا پایا جاتا ہے‘‘۔ (تہذیب الاخلاق (2) صفحہ132۔ بحوالہ۔ افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ62)۔
یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ختم نبوت کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو سرسید نے فرمایا ہے۔ مگر سرسید ’’مطلوب‘‘ ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی مردود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے عاشق اور پیروکار ’’شیطاطین‘‘ کا غول ہیں اور سرسید کے عاشق اور پیروکار ’’محترم و مکرم‘‘ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی امت کے لوگ ہماری قومی زندگی اور قومی اداروں میں کہیں بھی ہوں مگر سرسید کی ’’امت’’ کے لوگ ہماری قومی زندگی پر غالب ہوں۔ واہ کیا ’’انصاف‘‘ ہے؟ کیا ’’دین داری‘‘ ہے؟ کیا ’’تہذیب‘‘ ہے؟ لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت سرسید کی فکر سے نمودار ہوئی ہے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے دل کھول کر ایک دوسرے کی تعریف و توصیف کی ہے۔
ترکوں اور یونانیوں کے مابین 1897 میں جنگ ہوئی اور اس میں ترکوں کو فتح حاصل ہوئی تو برصغیر کے مسلمانوں نے ترکوں کی فتح کا جشن منایا اور ترک سلطان کو مبارک باد دی۔ سرسید اس ردِعمل پر سخت ناراض ہوئے کیوں کہ انہیں برصغیر کے مسلمانوں کے طرزِ عمل سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی بو آرہی تھی، چناں چہ سرسید نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں برصغیر کے مسلمانوں کے طرزِ عمل کے خلاف کئی مضامین تحریر کیے۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی برصغیر کے مسلمانوں کے طرزِ عمل سے سخت ناراض تھا چناں چہ اس نے بھی ایک مضمون میں مسلمانوں کی خوب خبر لی۔ سرسید کو مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ مضمون بہت پسند آیا۔ سرسید نے لکھا۔
’’مرزا صاحب نے جو اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء کو جاری کیا ہے، اس اشتہار میں مرزا صاحب نے ایک نہایت عمدہ فقرہ گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور وفاداری کی نسبت لکھا ہے۔ ہمارے نزدیک ہر ایک مسلمان کو، جو گورنمنٹ انگریزی کی رعیت ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے، اس لیے ہم اُس فقرہ کو اپنے اخبار میں چھاپتے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی کی نسبت جو میرے پر حملہ کیا گیا ہے، یہ حملہ بھی محض شرارت ہے۔ سلطانِ روم کے حقوق بجائے خود ہیں مگر اس گورنمنٹ کے حقوق بھی ہمارے سر پر ثابت شدہ ہیں اور ناشکر گزاری ایک بے ایمانی کی قسم ہے۔ اے نادانو! گورنمنٹ انگریزی کی تعریف تمہاری طرح میرے قلم سے منافقانہ نہیں نکلتی بلکہ میں اپنے اعتقاد اور یقین سے جانتا ہوں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس گورنمنٹ کی پناہ ہمارے لیے بالواسطہ خدا تعالیٰ کی پناہ ہے۔ اس سے زیادہ اس گورنمنٹ کی پرامن سلطنت ہونے کا اور کیا میرے نزدیک ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ پاک سلسلہ (یعنی مرزائیت) اس گورنمنٹ کے ماتحت برپا کیا ہے۔ وہ لوگ میرے نزدیک سخت نمک حرام ہیں جو حکام انگریزی کے روبرو اُن کی خوشامدیں کرتے ہیں‘ اُن کے آگے گرتے ہیں اور پھر گھر میں آکر کہتے ہیں کہ جو شخص اس گورنمنٹ کا شکر کرتا ہے وہ کافر ہے‘‘۔
(علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ مع تہذیب الاخلاق۔ 24 جولائی۔ 1897۔ بحوالہ نقشِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 194)۔
اس اقتباس میں سرسید نے نہ صرف یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی توصیف فرمائی ہے بلکہ انہوں نے قادیانیت کو برٹش گورنمنٹ کے تحت کام کرنے والا ’’پاک سلسلہ‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس ’’پاک سلسلے‘‘ کو برپا کرنے کا بہتان اللہ تعالیٰ کے سر منڈھ دیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کی ’’جھوٹی نبوت‘‘ کو ’’سچی نبوت‘‘ باور کرایا ہے۔ مگر مرزا غلام احمد قادیانی راندہ درگاہ ہے اور سرسید برصغیر کی ملت اسلامیہ کے ’’محسن‘‘ ہیں۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے سرسید کی مرزا غلام احمد قادیانی سے محبت یک طرفہ نہ تھی بلکہ دونوں طرف یہ آگ برابر لگی ہوئی کے مصداق مرزا غلام احمد قادیانی بھی سرسید کا گرویدہ تھا۔ چناں چہ سرسید نے مرزا غلام احمد قادیانی کی توصیف کی تو مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا۔
’’سرسید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی نے جو اپنے آخری وقت میں یعنی موت سے تھوڑے دن پہلے میری نسبت ایک شہادت شائع کی ہے اُس سے گورنمنٹ عالیہ سمجھ سکتی ہے کہ اُس دانا اور مردم شناس شخص نے میرے طریق اور رویہ بہ دل پسند کیا‘‘۔
(کشف الفطار۔ از مرزا غلام احمد قادیانی۔ مبطع ضیا السلام قادیان۔ سال 1898۔ صفحہ 8۔ بحوالہ نقش سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 194-96)۔
سرسید کے نزدیک اگر قادیانیت انگریزوں کے تحت خدا کی جانب سے برپا کیا ہوا پاک سلسلہ تھی تو مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک سرسید دانا اور مردم شناس تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے۔ آخر انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی ’’جھوٹی نبوت‘‘ کو ’’سچا‘‘ باور کرایا تھا۔ لیکن یہ تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے باپ اور بیٹے کا تعلق ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جب سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی ’’بھائی بھائی‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں تو کیسے کیسے ’’کمالات‘‘ سامنے آتے ہیں؟ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں انگریزوں کے عاشق تھے مگر ان کے اس عشق میں کتنی مماثلت تھی اس کا اندازہ اچھے اچھے نہیں کرسکتے۔ سرسید نے برصغیر میں انگریزوں کی حکومت کے حوالے سے ایک جگہ لکھا۔
’’جس قدر مذہبی آزادی ہندوستان کے مسلمانوں کو حاصل ہے اور جو امن وامان اس ملک کے درمیان پھیلا ہوا ہے، وہ خدا کی ایک نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا ہر مسلمان پر اور اس ملک کے ہر باشندے پر فرض ہے‘‘۔
(مکمل مجموعہ لیکچرز اور اسپچز سرسید۔ مرتب محمد امام دین گجراتی۔ سال اشاعت 1900۔ صفحہ 572۔ بحوالہ نقش سرسید از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ197)۔
سرسید نے ایک اور مقام پر تحریر فرمایا۔
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے‘‘۔
(روئداد محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، مطبع مفید عام آگرہ۔ سال اشاعت 1895۔ صفحہ169)۔
سرسید نے ایک اور مقام پر فرمایا۔
’’میں اس رول (Rule) یعنی حکومت کو ہمیشہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ وہ میرے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے امن اور بہبودی کے لیے ایک بڑی برکت ہے‘‘۔
(مکتوبات سرسید۔ مرتب شیخ اسماعیل پانی پتی۔ مجلس ترقی ادب۔ لاہور (1959) صفحہ 632۔ بحوالہ۔ نقشِ سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 197)۔
ان تین اقتباسات میں سرسید نے انگریزوں کی ظالم، جابر اور استبدادی حکومت کو نعمت، رحمت اور برکت قرار دیا ہے۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ ان کے بھائی مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا لکھا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا۔
’’اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر ان احسانات کے جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکومت کے ذریعے سے عام خلائق پر وارد ہیں، سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعما الٰہی کے اُس کا شکر بھی ادا کریں لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو، جو اُن کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔ یہ سلطنت اُن کے لیے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے۔
خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لیے ایک بارانِ رحمت بھیجا ہے‘‘۔
(شہادت القرآن (مشعمولہ سلسلہ تصنیفات احمدیہ۔ حصہ ہفتم، احمدیہ انجمن اشاعت اسلام۔ لاہور۔ صفحہ 77)۔
آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریر کا اقتباس توجہ سے پڑھا ہے تو آپ نے نوٹ کرلیا ہوگا کہ جس طرح سرسید نے انگریزوں کی سامراجی حکومت کو نعمت، رحمت اور برکت قرار دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی انگریزوں کی ظالم، جابر اور سامراجی حکومت کو نعمت، رحمت اور برکت قرار دیا ہے۔ اس مماثلت کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی روح ایک جیسی تھی۔ قلب ایک جیسا تھا۔ ذہن ایک جیسا تھا۔ تناظر ایک جیسا تھا اور ان تمام چیزوں کا نتیجہ بھی ایک جیسا تھا۔ مگر مرزا غلام احمد قادیانی شیطان ہے۔ کافر ہے۔ مردود ہے۔ اس کے برعکس سرسید مدبر ہیں۔ مفکر ہیں۔ مسلمانوں کے محسن ہیں۔ قابل احترام ہیں۔ وہ ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ان کے حوالے سے بڑے بڑے سیمینار ہوتے ہیں۔ ان سیمینارز میں ہمارے دانش ور، اساتذہ اور صحافی سرسید کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ ان قصیدوں پر لاکھوں احمق اور جاہل سر دھنتے ہیں۔ یہ قصائد اخبارات اور ٹیلی وژن پر ’’بڑی خبر‘‘ بنتے ہیں۔ ان خبروں کو پڑھ اور سن کر لاکھوں لوگ واہ سرسید۔ آہ سرسید کرتے ہیں۔ کوئی ہم جیسا ’’سرپھرا‘‘ اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی اس توہین پر احتجاج کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ’’چرچڑے‘‘ ہیں ذرا ان کی ’’زبان‘‘ تو دیکھو۔ ارے بھئی جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہے اور قرآن کا منکر ہے، حدیث کا منکر ہے، اجماع کا منکر ہے، تفسیر کی پوری روایت کا منکر ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے انگریزوں کے تحت برپا کیا ہوا ’’پاک سلسلہ‘‘ کہتا ہے۔ انگریزوں کی حکومت کو خدا کی نعمت، رحمت اور برکت کہتا ہے اس پر کوئی مسلمان لعنت نہ بھیجے تو اور کیا کرے؟ آخر وہ لوگ بحیثیت ایک قوم کے کیسے ہوں گے جو مرزا غلام احمد قادیانی سے نفرت اور سرسید سے محبت کرتے ہیں؟۔ ان کا خدا، رسول اکرمؐ، صحابہ کرامؓ، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کیا تعلق ہے؟۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی جھوٹی نبوت برٹش انٹیلی جنس کا کارنامہ تھی۔ سرسید نے صرف یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹی نبوت کے اعلان کے لیے ’’فکری جواز‘‘ مہیا کیا بلکہ اس کی جھوٹی نبوت کی تصدیق کی۔ بلاشبہ سرسید انگریزوں کے پیدا کردہ نہیں تھے مگر ان کی پوری شخصیت اور فکر انگریزوں کے غلبے کا حاصل ہے۔ لیکن سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے باہمی تعلق پر مذکورہ بالا امتیاز کا کوئی اثر نہیں۔ لیکن یہ تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے تعلق کے بیان کا آغاز ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟۔