افراد اور قوموں کی زندگی میں ایسے زمانے آجاتے ہیں جب غلامی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور بظاہر غلامی سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لیکن اس حال میں بھی انسان وہی ہوتا ہے جو امید کا دامن نہیں چھوڑتا۔ جو غلامی کو اپنی روح، اپنے قلب اور اپنے ذہن میں پنجے نہیں گاڑنے دیتا۔ انسان کا شعور غلامی کو قبول نہیں کرتا تو آقاؤں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ موجود رہتا ہے اور دیر یا سویر آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہتا ہے۔ برصغیر میں اکبر الٰہ آبادی کی شاعری کی ایک تہذیبی اور ملی خدمت یہ ہے کہ مسلمان میدان کار زار میں جو جنگ ہار گئے تھے، اکبر نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھا دی ہے۔ حالاں کہ اکبر نے انگریزوں کے سیاسی غلبے کو تسلیم کیا ہوا تھا اور ان کا خیال تھا کہ انگریز کبھی نہ جانے کے لیے آگئے ہیں۔ اکبر کے اس خیال کا مظہر ان کا یہ شعر ہے
شعر اکبر کو سمجھ لو یاد گارِ انقلاب
اسی کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
لیکن اقبال کے الفاظ میں کچھ لوگوں کے لیے غلامی کا تجربہ اتنا ہولناک ہوتا ہے کہ غلامی ان کے ضمیر تک کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور اس تفسیر سے ناخوب، خوب بن جاتا ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور ذہنی پستی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ غلامی کو دل و جان سے قبول کرلیا بلکہ غلامی انہیں اللہ کی رحمت اور برکت نظر آنے لگی اور انہوں نے غلامی کے گلے میں تعریفوں کی مالائیں ڈال دیں۔ اس سلسلے میں سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے خیالات میں اتنی مماثلتیں پائی جاتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ کیا انسانوں کے خیالات و جذبات میں اتنی ہم رنگی و ہم آہنگی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مثالیں پیش کی جاچکی ہیں، کچھ اور مثالیں حاضر ہیں، سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کی جابر و ظالم حکومت کو بے نظیر قرار دیا۔ سرسید نے لکھا۔
’’انگریزی گورنمنٹ سے جس قدر ملک میں امن وامان اور رعایا میں آزادی ہے اُس کی نظیر دُنیا میں کسی گورنمنٹ میں نہیں ہے‘‘۔
(نقش سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 197)
اس سلسلے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا۔
’’میرا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا میں گورنمنٹ برطانیہ کی طرح کوئی دوسری ایسی گورنمنٹ نہیں جس نے زمین پر ایسا امن قائم کیا ۔ہو۔‘‘
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 197)
سرسید نے ایک اور مقام پر تحریر فرمایا۔
’’ملکہ معظمہ۔۔۔ کی حکومت میں جو آزادی اور آسائش مسلمانوں کو حاصل ہے، وہ دنیا کی کسی حکومت میں نہیں ہے۔‘‘
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 198)
مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک جگہ لکھا۔
’’اس علم دوست گورنمنٹ نے اظہارِ رائے میں وہ آزادی دی ہے جس کی نظیر اگر کسی اور موجودہ عمل داری میں تلاش کرنا چاہیں تو لاحاصل ہے‘‘۔
(نقش سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 198)
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کی ظالم اور جابر حکومت میں پہلی خوبی یہ تلاش کی ہے کہ اس نے برصغیر میں امن قائم کیا ہے۔ یعنی اگر کوئی غیر ملکی طاقت آپ پر مسلط ہو کر آپ کی آزادی سلب کرلے مگر آپ کو امن مہیا کردے تو آپ کو اس بات کا غم نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ’’غلام‘‘ ہیں بلکہ آپ کو اس بات کی ’’خوشی‘‘ ہونی چاہیے کہ آپ کی غلامی میں ’’امن‘‘ بہت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غلامی میں امن اسی صورت ہوسکتا ہے جب غلاموں نے اپنی غلامی کو تسلیم کرلیا ہو۔ آزادی کے نقطہ نظر سے یہ ایک ہولناک بات ہے مگر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں اس بات پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں کہ آقاؤں اور غلاموں میں کوئی کشمکش برپا نہیں اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کو انگریزوں کی غلامی میں دوسری خوبی یہ نظر آئی کہ غلامی میں آزادی بہت ہے۔ غلامی میں آزادی؟ یعنی عسرت میں امارت؟ یعنی جھگی میں تاج محل؟ یعنی سوکھے میں برسات؟ یعنی بے بصیرتی میں بصیرت؟ یعنی ذلت میں عزت؟ انگریز برصغیر کے لوگوں سے ان کے مذاہب چھین رہے تھے، ان کی تہذیب چھین رہے تھے، ان کی تاریخ چھین رہے تھے، ان کا شعور چھین رہے تھے، ان کے علوم چھین رہے تھے، ان کا حال اور مستقبل چھین رہے تھے۔ مگر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں کو ان کی حکومت میں ہر طرف آزادی ہی آزادی نظر آرہی تھی۔ آقاؤں سے غلامی، آزادی حاصل نہ کرپانا بڑی ذلت کی بات ہے مگر اس ذلت سے بھی بڑی ذلت یہ ہے کہ آدمی غلامی ہی کو آزادی کہنے اور سمجھنے لگے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی یہی کررہے تھے اور اس سلسلے میں ان کے مابین اتنا کامل اتفاق تھا جیسے دونوں بیان جاری کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہوں۔ سرسید نے انگریزوں کے دورمیں مذہبی آزادی کو ہر طرف رقص کناں پایا او رلکھا۔
’’ہم مسلمان ہندوستان میں بھی اس طرح رہتے ہیں کہ مذہبی معاملے میں ہم کو ہر ایک قسم کی آزادی حاصل ہے‘ اپنے مذہبی فرائض کو بے کھٹکے ادا کرتے ہیں، جس قدر بلند آواز سے چاہیں اذان دیتے ہیں۔‘‘
(نقش سرسید۔ ازضیاء الدین لاہوری‘صفحہ 198 )
سرسید نے اس سلسلے میں مزید فرمایا۔
’’مسلمان اپنے مذہب کے موافق مسجدیں بناتے ہیں اور اذانیں دیتے ہیں‘ نمازیں پڑھتے ہیں‘ کوئی روکنے والا او رمنع کرنے والا نہیں۔‘‘
(نقش سرسید۔ از ضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ ۔198 )
سرسید کے برادر خورد مرزا غلام احمد قادیانی نے اس ضمن میں تحریر کیا۔
’’خدا تعالیٰ نے انگریزوں کو ملک دیا اور انہوں نے ملک کے لیے کچھ ظلم نہ کیا، کسی کا نماز روزہ بند نہ کیا، کسی کو حج پر جانے سے منع نہ کیا بلکہ عام آزادی اور امن قائم کیا۔
کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیرسایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرہ مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا۔ کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لائے، حج کرے، زکوٰۃ دے، نماز پڑھے۔ اس سے عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں۔‘‘
(نقش سرسید از ضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ 198ء)
سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کے یہ ’’زریں خیالات‘‘ پڑھ کر اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔اقبال نے کہا ہے۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اتفاق سے سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں ’’ملا‘‘ کے سخت خلاف تھے مگر مذکورہ خیالات کے حوالے سے ملا، سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی میں کوئی فرق نہ تھا۔ تو کیا انگریز واقعتا مذہبی آزادی کے بڑے قائل تھے؟ ایسا نہیں تھا۔ انگریزوں کے تسلط نے مذہب کو ’’انفرادی معاملہ‘‘ بنادیا تھا۔ مذہب عقائد‘ عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگیا تھا اور ریاست و سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہ گیا تھا لیکن جیسے ہی مذہب نے مسلمانوں کو ’’جہاد‘‘ پر مائل کیا انگریز ہی نہیں ان کے ایجنٹ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی مسلمانوں پر پل پڑے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسلام کو بھی نہ بخشا۔ انہوں نے صاف کہا کہ جہاد بالسیف کا زمانہ گزر چکا۔ اب جہاد بالقلم کا زمانہ ہے۔ یہ بات سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اس وثوق سے کہی جیسے معاذ اللہ خدا نے قرآن کو منسوخ کردیا ہو اور سرسید اورمرزا غلام احمد قادیانی پر وحی نازل کرکے انہیں بتایا ہو کہ اب صرف جہاد بالقلم ہوگا۔ مگر انگریز جہاد بالقلم کو کون سا مانتے تھے۔ انہوں نے برصغیر میں درجنوں صحافیوں کو قتل کیا‘ جیل میں ڈالا او ران کے رسائل و جرائد پر پابندیاں لگائیں۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ اسلام میں نماز‘ روزے او رحج کا مسئلہ بھی انسان میں شعور بندگی کو راسخ کرتا اور اسے فروغ دیتا ہے او رجب مسلمانوں میں شعور بندگی راسخ ہوجاتا ہے تو وہ کسی بھی طاقت کی غلامی قبول نہیں کرسکتے۔ اس اعتبار سے اسلام اور غلامی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نماز پڑھنے ‘ روزہ رکھنے اور حج کرنے کی آزادی سے غلامی کے لیے جواز مہیا کررہے ہیں اور آقاؤں کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ آیئے اب سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی غلامانہ ذہنیت او رباطنی ہم آہنگی کی کچھ اور مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں۔ سرسید لکھتے ہیں۔
’’الٰہی!۔۔۔ تیرے ہی القا سے ملکہ معظمہ کوئین وکٹوریا دام سلطنتہانے پُر رحم اشتہار معافی کا جاری کیا۔ ہم دل سے اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اپنی جان سے عزیز ملکہ کو دعا دیتے ہیں۔ الٰہی! تو ہماری اس دعا کو قبول کر‘ آمین۔ الٰہی! ہماری ملکہ وکٹوریا ہو اور جہان ہو۔
خدا ہمیشہ ملکہ وکٹوریا کا حافظ رہے۔ میں بیان نہیں کرسکتا خوبی اس پر رحم اشتہار کی جو ہماری ملکہ معظمہ نے جاری کیا۔ بے شک ہماری ملکہ معظمہ کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے۔ بے شک یہ پُر رحم اشتہار الہام سے جاری ہو اہے۔‘‘
(نقش سرسید۔ از ضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ 200 ۔199 )
سرسید نے ملکہ وکٹوریہ کا قصیدہ لکھا تو ان کا پیدا کردہ مرزا غلام احمد قادیانی اس سلسلے میں کیسے چپ رہ سکتا تھا۔ اس نے لکھا۔
’’اے قادر و کریم‘ اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایۂ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اوراس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ایک قدرت اور طاقت تجھی کو ہے۔ آمین‘ ثم آمین۔
اے ملکہ قیصرۂ ہند! خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہد حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کررہا ہے۔۔۔ خدا کی نگاہیں اس ملک پر ہیں جس پر تیری نگاہیں ہیں۔ خدا کی رحمت کا ہاتھ اس رعایا پر ہے جس پر تیرا ہاتھ ہے۔‘‘
ان اقتباسات کو دیکھا جائے تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے۔ لیکن اس خیال کی کوئی دلیل نہ سرسید پیش کرتے ہیں نہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس خیال کے سلسلے میں کوئی دلیل مہیا کی ہے۔ حالانکہ دونوں خدا اور رسول کو مانیں یا نہ مانیں دلیل کو ضرور مانتے ہیں۔ لیکن دونوں نے اگر ملکہ کے سر پر خدا کا ہاتھ دیکھا ہے تو ایسا بلاسبب نہیں ہے۔ سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی طاقت‘ اقتدار اور غلبے کو خدا کا ہاتھ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں غلبے کی ہر صورت خدا سے متعلق ہوجاتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ایسا سمجھنا خدا پر تہمت باندھنا ہے او ریہ کہنا ہے کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تو خدا مسلمانوں کے ساتھ تھا اور غزوۂ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو معاذ اللہ خدا کافروں اور مشرکین کے ساتھ تھا۔ مگر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی جیسے لوگوں کو ان معاملات سے کیا لینا دینا۔ ان کے سامنے چنگیز خان بھی ہوتا تو دونوں اس کے سر پر خدا کا ہاتھ تلاش کرچکے ہوتے اور اس کی شان میں بھی قصیدے لکھ رہے ہوتے۔