تاریخ ایک علمی موضوع ہے۔ اس کی تعبیر کا حق مذہب پرستوں کو بھی ہے۔ سیکولر ازم کے علمبرداروں کو بھی اور موجودہ یا سابق سوشلسٹوں کو بھی۔ مگر تاریخ کے بارے میں جھوٹ بولنے کا حق نہ مذہب پرستوں کو ہے نہ سیکولر اور سوشلسٹ عناصر کو۔ یہ اخلاقی بددیانتی ہی نہیں خالص سیکولر معنوں میں بھی بد دیانتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اس میں نہ کہیں ’’اخلاق‘‘ موجود ہے نہ ’’علم پرستی‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تاریخ کے بیان اور تاریخ کے تجزیے میں تھوک کے حساب سے ’’دروغ گوئی‘‘ عام ہوچکی ہے۔ آئی اے رحمن سوشلسٹ یا سیکولر دانش وروں کے ’’icon‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے بھی 9 نومبر 2017ء کے ڈان میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں جھوٹ کا پہاڑ تخلیق کر ڈالا ہے۔ Soviet Revolution’s Impact کے عنوان کے تحت انہوں نے اپنے کالم میں لکھا۔
The Soviet Union Played a leading role in hastening the end of the colonial era. The 100 or so former colonies that gained independence during 1945-1969 owed much to the Soviet Union. It also helped the recognition of economic, social and cultural rights at par with civil and political rights, which made human rights indivisible. The revolution gave new life to freedom struggles in all colonies, especially India.
ترجمہ:۔ سوویت یونین نے نوآبادیاتی دور کے برق رفتار خاتمے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ 1945 سے 1969 تک آزادی حاصل کرنے والی کم و بیش 100 نوآبادیات کی آزادی سوویت یونین کی مرہون منت تھی۔ سوویت یونین نے اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو شہری اور سیاسی حقوق کا ہم پلہ بنانے میں مددگارکا کردار ادا کیا۔ اسی کے نتیجے میں انسانی حقوق کا تصور قابل وحدت بن گیا۔ (سوشلسٹ) انقلاب نے تمام نوآبادیات بالخصوص بھارت میں آزادی کی جدوجہد کو نئی زندگی سے ہمکنار کیا‘‘۔
آئی اے رحمن کے اس اقتباس میں ایک نہیں کئی جھوٹ مضمر ہیں۔ مگر سب سے پہلے سب سے بڑے جھوٹ کا تجزیہ۔ کارل مارکس سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے ’’پیغمبر‘‘ ہیں۔ کارل مارکس نے 25 جون 1852 کے ’’نیویارک ڈیلی ٹربیون‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ مضمون کا عنوان تھا: British rule in India۔ کارل مارکس کے اس اہم مضمون کا زیر بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ اردو کے سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین حیدر نے اپنے مضمون ’’مایا بازار‘‘ میں کارل مارکس کے اس مضمون کے تین اہم اقتباس پیش کیے ہیں۔ سوشلسٹوں کے ’’پیغمبر‘‘ نے ان اقتباسات میں کیا فرمایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
اقتباس نمبر1:
Indian society has no history at all, at least no known history. What we call its history, is but the history of the successive intruders who founded their empires on the passive basis of that unresisting and unchanging society. The question, therefore, is not whether the English had a right to conquer India, but whether we are to prefer India conquered by the Turk, by the Persian, by the Russian, to India conquered by the Briton….
اقتباس نمبر 2:
England has to fulfil a double mission in India, one destractive, the other regenerating_ the annihilation of old Asiatic society, and the laying of the material foundation of Western society.
اقتباس نمبر3:
English interference having placed the spinner in Lancashire and the weaver in Bengal, or sweeping away both Hindu spinner and weaver, dissolved these small semi-barbarism, semi-civilised communities, by blowing up their economical basis, and thus produced the greatest, and, to speak the truth the only social revolution ever heard of in Asia.
(ادبی رسالہ مکالمہ۔ ستمبر 1996۔ صفحہ113)
ان اقتباسات کو پیش کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر نے لکھا ہے کہ ان اقتباس کا خالق کوئی خرانٹ انگریز امپیرلسٹ نہیں ’’چچا کارل مارکس‘‘ تھے۔ کارل مارکس نے ان اقتباسات میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا موازنہ آئی اے رحمن کے اقتباس میں موجود ’’ارشادات‘‘ سے کیا جائے تو خیال آتا ہے کہ آئی اے رحمن نے اپنے قارئین ہی کو نہیں پوری تاریخ کو ’’ماموں‘‘ یعنی بے وقوف بنادیا ہے۔ اصول ہے کہ ماموں بنانے والا خود بھی ماموں ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کارل مارکس نے ان اقتباسات میں فرمایا کیا ہے۔ انگریزی اقتباسات آپ ملاحظہ کرچکے۔ اب ان کا ترجمہ بھی پڑھ لیجیے۔
ترجمہ: اقتباس نمبر1
’’بھارتی معاشرے کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے، کم از کم اس کی کوئی معلوم تاریخ نہیں۔ ہم جس چیز کو بھارت کی تاریخ کہتے ہیں وہ تواتر کے ساتھ آنے والے ان مداخلت کاروں کی تاریخ ہے جنہوں نے بھارت کے مردہ یا غیر متحرک، مزاحمت سے عاری اور تغیرنا آشنا معاشرے میں اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ چناں چہ سوال یہ نہیں ہے کہ انگریزوں کو بھارت فتح کرنے کا حق تھا یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم انگریزوں کی فتح پر ترکوں، اہل فارسی یا رومیوں کی فتح کو ترجیح دیتے ہیں یا نہیں‘‘۔
ترجمہ: اقتباس نمبر 2
’’انگلینڈ کو بھارت میں ایک دوہرے مشن کی تکمیل کرنی ہے۔ ان میں سے ایک تخریبی ہے اور دوسرا تعمیری یا تخلیقی۔ (یعنی) قدیم ایشیائی معاشرے کا خاتمہ یا تحلیل اور مغربی معاشرے کی مادی بنیاد کا قیام‘‘۔
ترجمہ: اقتباس نمبر 3
’’انگریزوں کی مداخلت نے ایک جانب لنکا شائر کے تارکش اور بنگال کے جولاہے کو مقابل لاکھڑا کیا۔ دوسری جانب اس نے ہندو تارکش اور جولاہے کی اقتصادی بنیاد کو تباہ کرکے ان چھوٹی چھوٹی نیم بربر نیم مہذب برادریوں اور ہندو جولاہوں اور تارکشوں کو ختم کرایا۔ اس طرح انگریزوں نے وہ عظیم ترین اور صداقت سے کام لیا جائے وہ سماجی انقلاب برپا کیا جس کا اس سے قبل ایشیا میں کبھی نام نہ سنا گیا تھا‘‘۔
آئی اے رحمن صاحب کے دعوے اور سوشلسٹوں کے پیغمبر کے ارشادات کو دیکھا جائے تو آئی اے رحمن صاحب کہہ رہے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب نے تمام نو آبادیات بالخصوص بھارت میں ’’تحریک آزادی‘‘ کو ’’نئی زندگی‘‘ فراہم کی مگر آئی اے رحمن کے پیغمبر فرما رہے ہیں کہ مسئلہ بھارت پر قبضے کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس کا قبضہ بہتر ہے۔ ترکوں کا؟ اہل فارسی کا؟ روسیوں کا؟ انگریزوں کا؟۔ مزید برآں چچا کارل مارکس کہہ رہے ہیں کہ انگریزوں کو بھارت میں دوہرا مشن مکمل کرنا ہے۔ انہیں بھارت کے قدیم معاشرے کو مکمل طور پر فنا کردینا ہے اور وہاں مادی بنیاد کے حامل مغربی معاشرے کے قیام کو ممکن بنانا ہے۔ کارل مارکس نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا۔ اس نے ہندو کاریگروں کی برادریوں کو نیم بربر اور نیم مہذب قرار دیا۔ ان کی اقتصادی تباہی کو سراہا اور کہا کہ انگریزوں نے ایسا کرکے وہ انقلاب برپا کیا جس کی ایشیا میں کوئی نظیر موجود نہ تھی۔
آئی اے رحمن صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا یہی بھارت میں ’’آزادی کی تحریک‘‘ کو ’’نئی زندگی‘‘ فراہم کرنے کا عمل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین اس کے انقلاب یا سوشلسٹوں کا بھارت یا پاکستان کی آزادی کی تحریک سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ سوشلسٹ ابتدا میں پاکستان کے قیام کے خلاف تھے مگر تحریک پاکستان کے آخری مراحل میں ’’ماسکو‘‘ کے ’’اشارے‘‘ پر وہ تحریک میں شامل ہوگئے۔ لیکن ان کی وفاداریاں اسلام کیا پاکستان اور اس کے ورثے کے ساتھ بھی نہیں تھیں۔ ان کی ہمدردیاں یا تو ’’ماسکو‘‘ کے ساتھ تھیں یا ’’پیکنگ‘‘ کے ساتھ یا سوشلزم کے ساتھ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے اور عوام نے کبھی سوشلسٹوں پر اعتبار نہیں کیا۔ سوویت یونین کے خاتمے اور کمیونزم کی تحلیل کے بعد اکثر سوشلسٹوں نے ’’امریکی کیمپ‘‘ میں شمولیت اختیار کرلی۔ چناں چہ اب پاکستان میں انہیں یا تو ’’امریکی لابی‘‘ کا آدمی سمجھا جاتا ہے یا ’’بھارتی لابی‘‘ کا۔ بدقسمتی سے اس الزام میں کافی صداقت نظر آتی ہے۔
آئی اے رحمن نے دعویٰ کیا ہے کہ سوویت یونین نے تقریباً 100 نوآبادیات کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دی مگر انہوں نے مثال ایک بھی نہیں دی۔ بلاشبہ سوویت یونین کا انقلاب سوویت یونین تک محدود نہ رہا بلکہ تقریباً آدھی دنیا اس کے زیر اثر آگئی لیکن اس کی وجہ آزادی کی تحریکوں کی حمایت نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین نے عسکری طاقت کے زور پر اپنے انقلاب کو دوسرے ملکوں میں ’’برآمد‘‘ کیا۔ خود سوویت یونین نے مختلف ملکوں میں مداخلت کی اور یورپی طاقتوں کی جگہ ایک نئی نو آبادیاتی یا امپیریل طاقت بن کر اُبھرا۔ سوویت یونین کی یہی توسیع پسندی بالآخر اسے افغانستان لائی اور افغانستان پر قبضہ سوویت یونین کے لیے بھیانک خواب بن کر اُبھرا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے صدر گوربا چوف نے افغانستان کو سوویت یونین کے لیے رِستا ہوا زخم قرار دیا۔ اب اگر دوسرے ملکوں پر قبضہ، دوسرے ملکوں میں سازشوں اور طاقت کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی آزادی کی تحریکوں کو نئی زندگی فراہم کرنے کا عمل ہے تو بلاشبہ سوویت یونین نے وسطی ایشیا سے مشرقی یورپ تک اور مشرقی یورپ سے لاطینی امریکا تک آزادی کی تحریکوں کو تقویت فراہم کی ہے۔
آئی اے رحمن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سوویت انقلاب نے ’’انسانی حقوق‘‘ کو ناقابل تقسیم (وحدت) بنادیا۔ انسانی حقوق اور سوویت یونین؟ انسانی حقوق اور سوشلسٹ انقلاب؟ خدا کی پناہ۔ یہ تو سفید جھوٹ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ کسی بھی مذہب کو اختیار کرنا انسان کا بنیادی حق ہے مگر سوویت انقلاب نے روس ہی میں نہیں وسطی ایشیا کی تمام مسلم ریاستوں میں اسلام کو فنا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قرآن کی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی۔ مساجد بند کردی گئیں یا انہیں کسی اور مصرف کے لیے بروئے کار لایا جانے لگا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو نام تک بدلنے پر مجبور کردیا گیا۔ اظہار کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے مگر سوویت یونین یا کسی بھی سوشلسٹ ریاست میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ کوئی سوشلزم، سوویت رہنماؤں، پولٹ بیورو یا کمیونسٹ پارٹی کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کوئی یہ جرأت کرتا تو مار دیا جاتا تھا یا سائبیریا بھیج دیا جاتا تھا۔ گورکی ایک سوشلسٹ ادیب تھا مگر اے لینن سے ’’اختلاف‘‘ تھا۔ چناں چہ لینن نے ایک بار کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ جب انقلاب آئے گا اور انسانیت اپنا جشن منائے گی تو گورکی کو کن لفظوں میں یاد کیا جائے گا۔ گورکی نے کہا کہ اگر انقلاب لانے والے انسان ہوں گے تو وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے اور اگر وہ انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ ٹراٹسکی سوشلسٹ انقلاب کا فکری رہنما تھا اور اس کا مقام لینن سے کم نہ تھا مگر ٹراٹسکی بہت جلد سوویت یونین سے فرار ہونے پر مجبور ہوگیا۔ مگر سوویت یونین کا ’’انقلاب‘‘ اتنا ’’انسانی‘‘ اور اتنا ’’انسانی حقوق‘‘ کا پاسدار تھا کہ اس نے ٹراٹسکی کا تعاقب کیا اور اسے ’’دیارِ غیر‘‘ میں قتل کردیا۔ غور کیا جائے تو اس منظر نامے میں کئی کئی ہزار کلو میٹر تک ’’انسانی حقوق‘‘ نام کی کوئی چیز موجود نظر نہیں آتی تو پھر آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کے تصور کو سوویت یونین کے انقلاب سے کیوں وابستہ کیا؟ آئی اے رحمن نے یہ بھی کہا ہے کہ سوویت یونین کا انقلاب لوگوں کے سیاسی اور ثقافتی حقوق کو بھی تسلیم کرنا تھا۔ حضور والا یہ آپ کس دنیا کی باتیں کررہے ہیں۔ مثلاً سیاسی جماعتوں کا قیام ایک بنیادی سیاسی حق ہے مگر سوویت یونین ہی نہیں پوری سوشلسٹ دنیا میں کمیونسٹ پارٹی کے سوا کسی سیاسی جماعت کا وجود نہ تھا۔ اسی لیے کمیونسٹ سیاسی نظام کو one party rule کہا جاتا تھا۔ چین میں آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ مسلم دنیا میں ثقافت کی جڑیں مذہب میں پیوست ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سوویت یونین کے انقلاب میں وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں ثقافت کی جڑ ہی کاٹ دی تھی تو پھر کہاں کی ثقافت اور کہاں کے ثقافتی حقوق؟۔ سوویت یونین کا انقلاب اتنا ہولناک تھا کہ وہ جہاں گیا اس نے تخلیق کے سوتے خشک کردیے۔ اس کی سب سے بڑی مثال خود سوویت یونین ہے۔ جس روس نے سوشلسٹ انقلاب سے پہلے دوستو وسکی اور ٹالسٹائے جیسے ناول نگار اور چیخوف جیسے افسانہ نگار پیدا کیے وہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد دوستو وسکی، ٹالسٹائے اور چیخوف کا سایہ بھی پیدا نہ کرسکا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب روس کی تہذیبی، تاریخی اور تخلیقی روح کو کھا گیا۔ ایسا انقلاب کسی کے ثقافتی حقوق کا بھلا کیا تحفظ کرتا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ویسے تو سوویت یونین اور اس کا انقلاب ’’نظریے‘‘ کی بات کرتا تھا مگر پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں سوویت یونین اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے ’’قوم پرستی‘‘ کو ہوا دی تا کہ معاشرے میں مذہب اور مذہبی قوتیں کمزور پڑ جائیں اور بالآخر بے معنی ہوجائیں۔ تو عزیزانِ گرامی قدر یہ ہے سیکولر اور سوشلسٹ دانش وروں کے Icon کا قصہ۔