اب مسئلہ یہ ہے کہ سرسید کے مطابق جن پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنے والے وحشی انسان ہیں۔ بلاشبہ سرسید کے مطابق وہ قوی اور محنتی ہیں مگر ہیں انسان۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب سیدنا سلیمانؑ نے اپنے دربار میں کہا کہ ملکہ سبا کا تخت کون لا سکتا ہے تو ایک جن نے کہا میں لاسکتا ہوں۔ اتنی سی دیر میں کہ آپ یہاں سے اُٹھیں۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کی جلد سوم میں صفحہ 576 پر قیاساً فرمایا ہے کہ سیدنا سلیمانؑ کے دربار سے ملکہ سبا کے پایہ تخت مارِب کا فاصلہ کم از کم ڈیڑھ ہزار کلو میٹر تھا۔ چناں چہ اگر سیدنا سلیمانؑ کے دربار میں آراستہ نشست تین چار گھنٹے میں ختم ہونی تھی تو اتنے کم وقت میں کوئی انسان تخت نہیں لاسکتا تھا۔ چناں چہ مولانا کے مطابق تخت لانے کا دعویٰ کرنے والا انسان نہیں جن ہی تھا۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ دربار میں موجود ایک شخص محض کسی نے کتاب کے علم کی قوت سے ایک لمحے میں تخت کو حضرت سلیمانؑ کے سامنے پیش کردیا۔ یہ شخص کون تھا اس بارے میں مفسرین کے مابین بہت اختلافات ہیں۔ یہ امر بھی واضح نہیں کہ اس کے پاس کس کتاب کا کیسا علم تھا۔ مگر سرسید کے حوالے سے اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ جس قادر مطلق خدا نے انسان کو ایسا علم عطا کیا کہ اس نے ایک لمحے میں ناممکن کو ممکن بنادیا اس خدا کے لیے معجزہ کیا دشوار ہے؟ مگر سرسید کی نظر اس پہلو پر گئی ہی نہیں اور انہوں نے قرآن مجید کے Fact کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا کہ ملکہ کا تخت کہیں سے لایا نہیں گیا بلکہ سیدنا سلیمانؑ کے مکان ہی میں وہ تخت موجود ہوگا۔ اس فقرے میں سرسید نے ’’ہوگا‘‘ کا لفظ اس یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ جیسے وہ خود سیدنا سلیمانؑ کے مکان میں موجود تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید جہالت اور کند ذہن کے ساتویں آسمان پر کھڑے نظر آرہے ہیں مگر سرسید قرآن و حدیث کے Facts کے منکر ہیں تو کیا ہوا۔ انہوں نے علی گڑھ کالج بنایا تھا۔ قرآن احادیث کی علی گڑھ کالج کے سامنے کیا اوقات ہے؟۔ (معاذ اللہ)
سرسید نے اپنی تفسیر میں سیدنا ابراہیمؑ کے آگ میں ڈالے جانے اور آگ کے سرد ہوجانے کا بھی انکار کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لکھا۔
’’انبیا و بنی اسرائیل کے قصے یہود اور مشرقی عیسائیوں میں کثرت سے مشہور تھے اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ ان میں اصلی واقعات کے ساتھ بہت سی ایسی باتیں بھی مل گئی تھیں جن کی کچھ اصل نہیں تھی مگر ہمارے علمائے مفسرین نے جہاں کہیں کچھ بھی موقع پایا قرآن مجید کی تفسیر ان ہی مشہور قصوں کے مطابق کردی۔۔۔ اسی قسم کا قصہ حضرت ابراہیمؑ کی نسبت یہودیوں اور مشرقی عیسائیوں میں مشہور تھا۔ ہمارے علمائے مفسرین نے قرآن مجید کی آیتوں کی یہی تفسیر کی کہ حضرت ابراہیمؑ آگ میں ڈالے گئے تھے اور وہاں سے صحیح و سلامت نکلے‘ حالاں کہ قرآن مجید کی کسی آیت میں اس بات پر نص نہیں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ درحقیقت آگ میں ڈالے گئے تھے۔ بے شک ان کے لیے آگ دہکائی گئی تھی اور ڈرایا گیا تھا کہ ان کو آگ میں ڈال کر جلا دیں گے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ آگ میں ڈالے گئے‘ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے‘‘۔
(تفسیر القرآن۔ ازسرسید (8) صفحہ۔ 167۔ بحوالہ افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ۔ 75)
اس سلسلے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔
’’ابراہیم نے کہا ’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کررہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘۔ انہوں نے کہا جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے‘‘۔ ہم نے کہا اے آگ، ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر‘‘۔
(ترجمہ قرآن۔ مع مختصر حواشی۔ از سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ صفحہ ۔ 835)
سرسید کا کہنا ہے کہ آگ دہکائی ضرور گئی تھی مگر سیدنا ابراہیمؑ کو اس میں ڈالا نہیں گیا۔ یعنی سیدنا ابراہیمؑ کو محض آگ میں ڈالنے سے ڈرایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا تھا تو خدا نے آگ کو ٹھنڈی ہونے کا حکم اور سیدنا ابراہیمؑ کے لیے سلامتی بن جانے کی ہدایت کیوں کی؟ مگر سرسید کو اس سے کیا غرض۔ وہ تو ہر چیز کے بارے میں پہلے سے ایک خود ساختہ رائے وضع کیے بیٹھے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث اور تفسیر کی پوری تاریخ کی رائے کو بدل سکتے ہیں مگر اپنی رائے کو نہیں۔ عام تجربہ ہے گھٹیا سے گھٹیا اور غلیظ سے غلیظ آدمی بھی اپنے جیسے انسانوں کی رائے کے سامنے زبان چلاتا ہے مگر جب اس کے آگے خدا اور رسولؐ کی رائے رکھ دی جاتی ہے تو وہ خاموش ہوجاتا ہے۔ مگر سرسید قرآن و حدیث کے Facts کو بھی روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنی رائے کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیتے۔ ایسے شخص پر ہی نہیں اس کے پیروکاروں پر بھی لعنت۔ خواہ وہ ہزار ہزار کتابوں کے مصنف، مشہور زمانہ یا پوری دنیا کے حاکم ہی کیوں نہ ہوں!۔