پاکستان کے سوشلسٹوں کا مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ وہ سوشلسٹ تھے اور سوشلزم ایک مذہب دشمن نظریہ تھا۔ سوشلسٹوں کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنے نظریے اور جدوجہد کا مقامی مرکز پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہر چیز کے سلسلے میں رہنمائی کے لیے ’’ماسکو‘‘ یا ’’پیکنگ‘‘ کی جانب دیکھتے تھے۔ دنیا میں سوشلزم کے یہی دو مراکز تھے۔ اس صورت حال نے سوشلسٹوں کو کبھی حقیقی معنوں میں ’’مقامی‘‘ اور ’’آزاد‘‘ نہ ہونے دیا۔
اتفاق سے اس وقت یہی صورتِ حال پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کی ہے۔ یہ عناصر اپنے نعروں، سرگرمیوں اور ردِ عمل کے سانچوں کے لیے واشنگٹن، لندن اور پیرس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ واشنگٹن، لندن اور پیرس چاہتے ہیں تو پاکستان میں توہین رسالت کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ واشنگٹن، لندن اور پیرس سے ہدایت ملتی ہے تو مظلوم زینب پر ہونے والے ظلم کی آڑ میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ مشال خان کا قتل حال ہی کا واقعہ ہے۔ مشال خان کو قتل کرنے والوں کا موقف تھا کہ مشال خان توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے اور اس سلسلے میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ بدقسمتی سے توہین رسالت کے مرتکبین کو ریاستی ادارے سزا دینے میں ناکام نظر آتے ہیں اس لیے لوگوں میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ریاست نے توہین رسالت کے مرتکبین کو قرار واقعی سزا دینے کی روایت قائم کردی ہوتی تو شاید لوگ مشال خان کو قتل نہ کرتے بلکہ اسے قانون کے حوالے کردیتے۔ خیر یہ ایک اور ہی قصہ ہے، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مشال خان کے قتل نے معاشرے میں شدید ردعمل پیدا کیا اور بعض علما اور دانش ور تک مشال خان کے قتل پر ماتم کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشال خان کے قتل کے الزام میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے، ایک اطلاع کے مطابق عدالت اس قتل کے مقدمے کا فیصلہ 7 فروری کو سنائے گی۔ یعنی ان سطور کی اشاعت تک فیصلہ آچکا ہوگا۔ عدالت اس سلسلے میں کیا فیصلے کرے گی، کہنا تو مشکل ہے لیکن اس کیس کے سلسلے میں یہ کہنا اب آسان ہوچکا ہے کہ مشال خان کیس کو ’’مقامی تناظر‘‘ میں دیکھنا حماقت اور کھلے حقائق کا انکار ہے۔ یعنی مشال خان کا معاملہ کسی نہ کسی اعتبار سے ’’واشنگٹن مرکز‘‘ یا ’’لندن مرکز‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
کراچی میں الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم کی سیاست نے گزشتہ 25 سال میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو لاشوں میں تبدیل کیا ہے، کراچی میں شہید ہونے والوں میں حکیم سعید جیسی قومی بلکہ بین الاقوامی شخصیت، بڑے بڑے علما، صحافی، ڈاکٹرز، وکلا غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مگر کبھی امریکا یا برطانیہ کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی کو یہ خیال نہ آیا کہ کراچی میں جاں بحق ہونے والے کسی فرد کی شخصیت کے حوالے سے کسی سیمینار، مجلس مذاکراہ یا لیکچر کا اہتمام کیا جائے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے امریکا کی جنگ کو گود لے کر پاکستان کو جہنم بنادیا۔ اس جہنم کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ریاست پاکستان کے اپنے دعوے کے مطابق ہم نے امریکا کے لیے پانچ ہزار فوجیوں سمیت 70 ہزار افراد کو زندگی سے محروم کردیا۔ یہ جنگ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جنگ تھی مگر اس کے باوجود امریکا یا برطانیہ کے کسی تعلیمی ادارے کو خیال نہ آیا کہ وہ 70 ہزار افراد کے عظیم نقصان یا 70 ہزار افراد میں سے کسی شخص کے حوالے سے کوئی لیکچر منعقد کرکے دنیا کو بتائے کہ پاکستان میں کیسے کیسے لوگ موجود تھے اور ہیں۔
اس کے برعکس مشال خان ولی خان یونیورسٹی کا صرف ایک طالب علم تھا۔ وہ نہ شاعر تھا، نہ ادیب تھا، نہ صحافی تھا اس کی ایک اہلیت یہ تھی کہ وہ سوشلسٹ خیالات کے حامل خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے والد محمد اقبال کے اپنے اعتراف کے مطابق مشال خان روس میں زیر تعلیم رہ چکا تھا۔ لیکن مشال خان کی اس اہلیت نے اسے کوئی منفرد اور ممتاز شخصیت بنا کر کھڑا نہیں کیا ہوا تھا۔ مشال خان کی جس ’’اہلیت‘‘ نے اسے نمایاں کیا وہ اس پر لگنے والا توہین رسالت کا الزام تھا۔ اسی الزام کی وجہ سے مشال خان قتل ہوا۔ بہر حال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جس مغرب کو کراچی میں قتل ہونے والے 25 ہزار افراد اور نائن الیون کے بعد ملک میں دہشت گردی کی نذر ہونے والے 70 ہزار لوگ نظر نہ آئے اس مغرب نے ایک مشال خان کے قتل پر ابلاغی طوفان برپا کردیا۔ یہاں تک کہ 20 جنوری 2018ء کو لندن کے School of Oriental and African Studies نے مشال خان کے حوالے سے ’’باچا خان لیکچر‘‘ کا اہتمام فرمایا۔ لیکچر دینے کے لیے مشال خان کے والد محمد اقبال کو مدعو کیا گیا۔ لیکچر کو چار چاند لگانے کے لیے ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین بھی تشریف لائے اور انہوں نے تقریب سے خطاب فرمایا۔ اس خصوصی لیکچر کے موقعے پر مشال خان کے والد کے تین پے در پے انٹرویوز ہوئے۔ ان تمام امور کی تفصیلات میر شکیل الرحمن کے انگریزی روزنامے دی نیوز کی 28 جنوری 2018ء کی اشاعت میں پورے صفحے پر شائع ہوئی ہیں۔ ذرا پشاور سے کراچی اور کراچی سے لندن تک ’’تعلقات‘‘ بلکہ ’’Connections‘‘ کی نوعیت تو دیکھیے، اس کو کہتے ہیں ’’اصل میں سارے ایک ہیں‘‘ لیکن ان باتوں کا مطلب کیا ہے؟۔
لندن وہ جگہ ہے جہاں الطاف حسین 25 سال سے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں جبر، طاقت، تشدد اور بھتے کی سیاست کررہے ہیں مگر بیچارہ برطانیہ اتنا ’’معصوم‘‘ ہے کہ اسے آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اس کا ایک شہری جس کا نام الطاف حسین ہے وہ کراچی میں کیا کررہا ہے؟۔ چناں چہ برطانیہ کے ’’معصوم خفیہ ادارے‘‘ ابھی تک اس امر کی ’’تحقیق‘‘ کرنے میں ’’مصروف‘‘ ہیں کہ الطاف حسین نے کراچی میں کوئی جرم کیا ہے یا نہیں؟۔ حالات یہی رہے تو برطانیہ کے ’’معصوم خفیہ ادارے‘‘ تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں یہی کہیں گے کہ الطاف حسین کے دامن پر جرم کا کوئی داغ نہیں۔ بلکہ الطاف حسین تو اتنے معصوم ہیں کہ جب سے وہ لندن آئے ہیں ان کے ذہن میں جرم کا خیال بھی نہیں آیا۔ ہمیں یاد ہے کہ برطانیہ کے ایک ادارے نے الطاف حسین پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا، الزام کی تحقیق کی اور پوری دنیا کو بتایا کہ الطاف حسین منی لانڈرنگ میں ہرگز ملوث نہیں۔ اسی لندن کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں مشال خان پر لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ واہ کیا علم نوازی و علم پروری ہے، کیا روشن خیالی اور انسان نوازی ہے، واہ واہ مزا آگیا۔
مشال خان کے حوالے سے ہونے والے لیکچر کو ’’باچا خان لیکچر‘‘ نام دیا گیا۔ باچا خان تحریک پاکستان کے وقت کانگریس سے وابستہ تھے اور سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ انہیں ’’گاندھی جی‘‘ سے ایسی ’’محبت‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ سے ایسی ’’نفرت‘‘ تھی کہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے کانگریس کے رہنماؤں کے ایک اجلاس میں گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پاکستان کو قبول کرکے ہمیں ’’بھیڑیوں‘‘ کے آگے ڈال دیا ہے۔ باچا خان کی پاکستان سے نفرت اس وقت عروج پر پہنچی جب انہوں نے مرنے سے قبل ’’وصیت‘‘ کی کہ مرنے کے بعد مجھے پاکستان میں نہیں افغانستان میں دفن کیا جائے۔ ان کی وصیت پر عمل کیا گیا چناں چہ باچا خان کو مرنے کے بعد کابل میں دفن کیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو باچا خان کی ’’خوبی‘‘ یہ تھی کہ وہ ’’منافق‘‘ نہیں تھے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان سے انہیں جو شدید نفرت تھی اسے انہوں نے کبھی چھپایا نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو لندن میں مشال پر ہونے والے لیکچر کو باچا خان کے نام سے منسوب کرنے کی پشت پر بھی ایک ’’تاریخ‘‘ موجود ہے۔ واہ اس کو کہتے ہیں ’’تاریخ کا تسلسل‘‘۔ برطانیہ، لندن، کانگریس، اسلام، پاکستان، باچا خان، توہین رسالت کا الزام، مشال خان، باچا خان لیکچر ایک ہی داستانِ شب کا سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔
جس طرح توہین رسالت کے الزام سے قبل کوئی مشال خان کو نہیں جانتا تھا اسی طرح مشال خان کے قتل سے قبل کوئی مشال خان کے والد محمد اقبال سے آگاہ نہ تھا۔ مگر اب وہ ایک مفکر، ایک دانش ور اور ایک مدبر کی حیثیت سے لندن میں لیکچر کے لیے طلب کیے گئے ہیں۔ بقول شاعر
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنووں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشماں ساز کرے
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق باچا خان لیکچر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ’’پروگریسو پاکستان‘‘ بنانے کی بات ہوئی۔ مشال خان کے والد نے اصرار کیا کہ قائد اعظم کی 11 اگست کی اس تقریر کو آئین کا حصہ بنایا جائے جس سے پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر جبراً سیکولر ازم ’’کشید‘‘ کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا باچا خان لیکچر میں مشال خان کس طرح ’’شہید مغرب‘‘ میں تبدیل کیا گیا اور ’’شہید مغرب‘‘ کی آڑ میں کیسے کیسے عزائم کا اظہار کیا گیا۔
لیکچر کے حوالے سے موجود شرکا کو یہ ’’سعادت‘‘ حاصل ہوئی کہ ان سے ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین نے بھی خطاب فرمایا۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ مشال خان اور ملالہ جیسے طالب علموں نے خواب دیکھنے کی جرأت کی۔ انہوں نے آزادی کے ساتھ سوچنے کی جرأت کی۔ ملالہ کے والد نے کہا کہ انہیں ان کے سوالوں کی وجہ سے قتل نہ کرو ان کے سوالات کے جواب دو۔ شکر ہے ملالہ کے والد نے اپنے خطاب سے ثابت کردیا کہ توہین رسالت کے الزام کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے مشال خان اور ملالہ یوسف زئی میں ایک نسبت اور ایک تعلق ہے۔ فرق یہ ہے کہ مشال خان ’’مغرب کا شہید‘‘ ہے اور ملالہ ’’مغرب کی غازی‘‘۔ ملالہ کے والد کے بقول مشال اور ملالہ دونوں نے خواب دیکھنے کی جرأت کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ مشال اور ملالہ کا خواب کیا ہے اور مشال خان رسول اکرمؐ کے حوالے سے کون سا سوال پوچھ رہا تھا۔
ویسے ملالہ کے والد کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ جس مغرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ مغرب افراد کیا قوموں اور تہذیبوں تک کو ’’اپنے خواب‘‘ نہیں دیکھنے دے رہا بلکہ ان پر مغرب کے خواب مسلط کررہا ہے۔ اُمید کی جاسکتی تھی کہ ملالہ کے والد کی تقریر میں جاوید غامدی کا ذکر ضرور آئے گا اور یہ ذکر آیا۔ ملالہ کے والد نے غامدی صاحب کی تعریف فرمائی اور کہا کہ چوں کہ غامدی صاحب مذہب کے سلسلے میں عقلی یا Rational رویے کو پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں اس لیے انہیں اور ان جیسے لوگوں کو ملک سے بھاگنا پڑ رہا ہے۔ اب آپ ایک بار پھر غور کیجیے۔ لندن، باچا خان لیکچر، توہین رسالت کی واردات، مشال خان، ملالہ یوسف زئی، ان کے والد، جاوید احمد غامدی۔ واہ کیا ’’کمپنی‘‘ ہے؟ واہ کیا ’’محفل‘‘ ہے؟۔ دنیا کی کوئی قوم اپنے شہیدوں اور غازیوں کو نہیں بھولتی۔ مغرب بھی اپنے شہیدوں اور غازیوں کو یاد رکھتا ہے اور کسی بھی دوسری قوم سے بڑھ کر انہیں نوازتا ہے۔ کسی کو وہ ’’ماڈریٹ اسلامی اسکالر‘‘ بنا دیتا ہے، کسی کو ’’میڈیا مغل‘‘ میں ڈھال دیتا ہے، کسی کو کسی کارنامے کے بغیر نوبل انعام دے کر ملالہ جیسی ’’عالمی شخصیت‘‘ ایجاد کرلیتا ہے، کسی کو لیکچرز کا موضوع بنا کر کھڑا کردیتا ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملالہ کے والد نے مشال خان کے والد محمد اقبال کو سورۂ عصر کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ ان میں اس سورۃ کے مصداق عمل صالح، حق سے وابستگی اور صبر کی صفات موجود ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ملالہ کے والد کو قرآن یاد آیا مگر قرآن مجید کی جس سورۃ کی خصوصیات انہوں نے مشال خان کے والد میں تلاش کی ہیں اس سورۃ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔ ’’عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے….. مگر ملالہ کے والد ایمان کے ذِکر کو گول کرگئے حالاں کہ ایمان کے بغیر مسلمان کے لیے نہ عمل صالح کا وجود ہے نہ حق سے وابستگی کا اور نہ صبر کا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ نواز لیگ کے سینیٹر پرویز رشید نے سینیٹ میں احتجاج کیا تھا کہ قائد اعظم کے موٹو Unity Faith اور Discipline کو بدل کر Faith، Unity، Discipline کردیا گیا ہے اور غضب یہ ہے کہ Faith کا ترجمہ ایمان کیا جارہا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پرویز رشید کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ واقعتاً ایسا ہی ہورہا ہے۔ اب لندن میں ملالہ کے والد سورۂ عصر کا ذکر فرمارہے ہیں اور انہیں سورۂ عصر میں کہیں ایمان نظر نہیں آرہا۔ آپ نے دیکھا ’’نظریاتی رشتے داریاں‘‘ ایسی ہوتی ہیں۔