مغربی دنیا نے جدید ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو جادو بنادیا ہے۔ اس جادو کی قوت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور دن کو رات ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے مگر مغربی ذرائع ابلاغ نے اس سلسلے میں اتنا شور مچایا کہ ساری دنیا کو یقین ہوگیا کہ صدام حسین کے پاس کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ اس یقین کی آڑ میں امریکا اور اس کے اتحادی برطانیہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جب عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی تو معلوم ہوا کہ صدام حسین کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر اس بات کو مغرب کے ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کرنے کی طرح رپورٹ ہی نہ کیا۔ چناں چہ عراق کا خطرناک ہتھیاروں سے پاک ہونا ٹھیک طرح سے ’’خبر‘‘ بھی نہ بن سکا۔
مغرب کے ذرائع ابلاغ کے جادو کی دوسری بڑی مثال ملالہ کی ’’ایجاد‘‘ ہے۔ ملالہ کی موجودگی اپنی اصل میں بالشتیے کی موجودگی تھی۔ مگر مغرب کے ذرائع ابلاغ نے دیکھتے ہی دیکھتے بالشتیے کو ’’دیو‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ یہاں تک کہ ملالہ نوبل انعام کی مستحق قرار پائی۔ ملالہ نے اگر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے پچاس لڑکیوں کے لیے ایک اسکول بھی کھولا ہوتا تو کہا جاسکتا کہ اس نے علم کی خدمت کی، مگر ملالہ کی گرہ میں تو ایک اسکول کی شہرت بھی نہ تھی۔ اس سے بہتر تھا کہ مغربی دنیا شیما کرمانی کو نوبل انعام دے دیتی۔ شیما کرمانی کو اور کچھ نہیں تو بھارت کا کلاسیکل رقص آتا ہے اور انہوں نے گزشتہ چالیس سال میں سیکڑوں لڑکیوں کو رقاصہ بنایا ہے۔ یہ بات مذہبی اعتبار سے کتنی ہی ناقابل قبول کیوں نہ ہو مگر شیما کرمانی نے رقص کے شعبے میں کچھ تو کیا ہے۔ بدقسمتی سے ملالہ کو تو رقص بھی نہیں آتا۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ مغرب کے حکمران اور مغرب کے ذرائع ابلاغ ملالہ کے ساتھ تھے اور انہوں نے کچھ نہ کرنے کے صلے میں ملالہ کو نوبل انعام سے نواز دیا۔ ہمیں حیرت ہے کہ جس مغرب کو ملالہ کی غیر موجود خدمات نظر آگئیں اس مغرب کو کبھی عبدالستار ایدھی کی چالیس پچاس سالہ خدمات نظر نہ آئیں۔ خیر یہ اچھا ہی ہوا ورنہ جو مغرب ملالہ کو کچھ نہ کرنے پر ایک عدد نوبل انعام سے نواز سکتا ہے وہ مغرب ایدھی صاحب کو کم از کم پچاس نوبل انعام دینے پر مجبور ہو جاتا۔ ملالہ کا نام ایدھی صاحب کے ساتھ لینا ایدھی صاحب کی توہین ہے مگر مغرب کا جادو یہ ہے کہ ملالہ اور ایدھی صاحب کو ساتھ کھڑا کیا جائے تو ایدھی صاحب بالشتیے اور ملالہ دیو قامت نظر آتی ہیں۔ اس لیے کہ ملالہ کے ہاتھ میں دنیا کا سب سے بڑا انعام ہے اور ایدھی صاحب کے ہاتھ کچھ بھی نہیں ہے۔ خیر مغرب نے ملالہ کو عظیم بنا ڈالا تو یہ مغرب کا جرم ہے۔ مگر ملالہ کو تو معلوم ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ مگر مغرب کے پروپیگنڈے کے جادو نے ملالہ کو بھی یقین دلا دیا ہے کہ وہ یقیناًایک عظیم شخصیت ہیں۔ اس کا ایک ثبوت ’’لندن‘‘ میں ہونے والے لاہور لٹریری فیسٹیول سے ملالہ کا خطاب ہے۔ اس خطاب میں ملالہ نے کہا کہ مجھ پر تنقید کی جاتی ہے کہ میں نے پاکستان میں کیا کیا ہے؟۔ ملالہ نے کہا کہ سیکورٹی اسباب کی وجہ سے ہم بتا نہیں سکتے کہ ہم پاکستان میں کس کے ساتھ مل کر کیا کررہے ہیں؟۔ تسلیم کہ اس وقت ملالہ پاکستان میں کچھ نہ کچھ کررہی ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے نوبل انعام ملنے سے قبل پاکستان میں کیا کیا؟ کوئی اسکول کھولا؟ کوئی کالج قائم کیا؟ کسی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا؟ کوئی کوچنگ سینٹر قائم کیا؟ چار بچوں کو ٹیوشن پڑھایا؟ اگر ملالہ نے ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا تو وہ مغرب کی ’’ڈارلنگ‘‘ کیسے بنیں؟ انہیں نوبل انعام کیوں دیا؟ کیا اس لیے کہ کل مغرب انہیں پاکستان میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے؟ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ ملالہ اس وقت پاکستان میں جو کچھ کررہی ہیں اگر وہ پاکستان کی خدمت ہے تو اس پر پردہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر اس پر پردہ ڈالنے کی ضرورت ہے تو وہ خدمت کیسے ہے؟ لیکن یہاں سب سے اہم بات اس امر کی نشاندہی ہے کہ مغرب کے پروپیگنڈے نے ملالہ کو بھی یقین دلا دیا ہے کہ اس نے کچھ کیا ہی ہوگا جس کی وجہ سے وہ مغرب میں ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہے۔ لیکن لندن میں ہونے والے لاہور لٹریری فیسٹیول میں صرف ملالہ ہی نے تماشا نہیں کیا، پاکستان کی معروف انگریزی ناول نگار کاملہ شمسی نے بھی اپنا رنگ دکھایا۔
انہوں نے فرمایا کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے لیے آزادی کی کہانی سنانا دشوار ہے۔ اس لیے کہ اس کہانی میں ناقابل یقین تشدد اور دکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1971ء کی کہانی سنانی بھی مشکل ہے کیوں کہ اس کہانی میں اقلیت نے اکثریت پر تشدد کیا اور 1971ء کے واقعات پاکستان میں تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود قیام پاکستان انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور قیام پاکستان کی مسرت اس دکھ سے بہت بڑی ہے جو دکھ لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام سے پیدا ہوا۔ اس مسرت کے دکھ سے بڑے ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمان دلی، یوپی، مشرقی پنجاب ہر جگہ اقلیت میں تھے، چناں چہ وہ اگر چاہتے بھی تو ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ جھگڑا مول نہیں لے سکتے۔ مطلب یہ کہ قیام پاکستان کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہندوؤں اور سکھوں کا کیا دھرا تھا۔ چناں چہ مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات احساس جرم کی نفسیات نہیں تھی اور نہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پاکستان آج بھی اپنی آزادی کو بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ 1971ء کے واقعات کا ہماری تاریخ کی کتابوں میں نہ ہونا بہت ہی افسوس ناک بات ہے۔ لیکن حقیقی تاریخ صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں نصابی کتب سے غائب ہے۔ مثلاً سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے لیے 10 کروڑ ریڈ انڈینز مار ڈالے۔ مگر امریکا میں یہ بات اسکول کیا یونیورسٹی کی سطح پر بھی نصاب کا حصہ نہیں۔ آسٹریلیا میں سفید فاموں نے اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے آسٹریلیا کے اصل باشندوں یعنی ایب اوریجنلز کا قتل عام کیا اور 45 لاکھ افراد کو مار ڈالا۔ آسٹریلیا میں یہ تاریخ کسی بھی سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں۔ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے ہندو ہزاروں سال سے کروڑوں شودروں اور دلتوں پر ظلم کررہے ہیں مگر یہ ظلم بھارت میں کہیں بھی نصاب کا حصہ نہیں۔ آخر کاملہ شمسی اور ان جیسے لوگ ان حقائق کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے؟ آخر یہ لوگ کیوں نہیں کہتے کہ جس طرح پاکستان کے حکمران پاکستان کی نئی نسلوں کو صحیح تاریخ نہیں پڑھا رہے اس طرح امریکا، آسٹریلیا اور بھارت کے حکمران طبقات بھی اپنی نئی نسلوں کو اصل تاریخ نہیں پڑھا رہے۔
فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے مرزا وحید نے قیام پاکستان کو ’’Partition‘‘ قرار دیا اور فرمایا کہ 1998ء میں ’’Partition‘‘ جوہری ہوگیا کیوں کہ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کبھی پاکستان کے لیے ’’آزادی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ آزادی کو ’’Partition‘‘ یا ’’تقسیم‘‘ کہتے ہیں۔ تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے ’’بھارت ماتا‘‘ ایک ’’وحدت‘‘ تھی مگر مسلمانوں نے پاکستان بنا کر بھارت ماتا کے ٹکڑے کردیے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھارت اور اس کے رہنماؤں کا ’’بیانیہ‘‘ ہے۔ اس کے برعکس آزادی کا لفظ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی نفسیات کا عکاس ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ کا اصل ترجمان ہے۔ بدقسمتی سے مرزا وحید نے بھی قیام پاکستان کے لیے آزادی کے بجائے Partition کا لفظ استعمال کیا۔ مگر یہ ان کا پہلا جرم ہے۔ ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ 1998ء میں Partition نیو کلیئر ہوگیا۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ پاکستان نے نہیں بھارت نے شروع کی۔ اس نے 1974ء میں ایٹمی دھماکا کردیا تھا۔ مگر مرزا وحید کو 1974ء کو یاد نہ آیا۔ انہیں یاد آیا تو 1998ء۔ اتفاق سے 1998ء میں بھی پاکستان نے ایٹمی دھماکوں میں پہل نہیں کی تھی۔ پہل بھارت نے کی تھی پاکستان نے صرف اس کا جواب دیا۔
فیسٹیول سے مدھر جعفری نے بھی خطاب فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے کھانے ایک سے ہیں البتہ ان کے نام مختلف ہیں۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ پاکستان گوشت خور ہیں اور بھارتی پنجاب کے پنجابی سبزی خور ہیں۔ البتہ سبزی خور علاقے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ بھارت کے لوگ جب پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہمارا سب کچھ ایک جیسا ہے۔ بس ’’تقسیم کی لکیر‘‘ نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ تقسیم کی لکیر کو مٹا دیا جائے تو ہم پھر سے ایک ہوجائیں گے۔ بدقسمتی سے مدھر جعفری نے بھی یہی کہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے تشخص یا identity کو ’’کھانوں‘‘ کی سطح پر لاکھڑا کیا حالاں کہ پاکستان کا حقیقی تشخص مذہبی، تہذیبی اور تاریخی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب مدھر جعفری کہہ رہی ہیں کہ ہمارے کھانے ایک جیسے ہیں اور دوسری جانب انہیں یہ ’’واضح‘‘ کرنے میں بھی دلچسپی ہے کہ ’’سبزی خور‘‘ گوشت کھانے والوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں یعنی سیکولر اور لبرل عناصر اور اہل بھارت جب چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت کو ایک جیسا دکھا دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں دونوں کے ’’فرق‘‘ پر اصرار کرنے لگتے ہیں۔