خورشید ندیم جاوید غامدی کے شاگرد ہیں۔ مثل مشہور ہے باپ پہ پوت پتا پہ گھوڑا، زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ مطلب یہ کہ جاوید غامدی صاحب کی مغرب پرستی اور ان کی گمراہیاں خورشید ندیم کے یہاں بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ بھی چاہیں تو بھی ان جلوؤں کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اب مثلاً ہمارے ایک قاری نے خورشید ندیم صاحب کے چھ کالم ایک ساتھ ڈاک کے ذریعے ہمیں ارسال کیے ہیں اور فرمایا ہے کہ ان کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔ اپنے قاری کی اس ذرہ نوازی پہ ان کا شکریہ مگر مشکل یہ ہے کہ خورشید ندیم کی ہر سطر میں کوئی نہ کوئی نقص ہے۔ اس اعتبار سے خورشید ندیم صاحب کے چھ کالموں پر ہمیں کم از کم دو سو صفحات کی کتاب لکھنی پڑے گی۔ چوں کہ قلتِ وقت اور قلت توانائی ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی اس لیے ہم ان کے ایک کالم کے چند پہلوؤں تک خود کو محدود رکھیں گے۔
خورشید ندیم کے ایک کالم کا عنوان ہے ’’مذہب و سیاست۔ تشکیل جدید کی ضرورت‘‘۔ اس کالم کا ایک پیرا گراف ملاحظہ ہو۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔ ’’مسیحی دنیا نے مذہب و سیاست کا باہمی تعلق جیسے تیسے دریافت کرلیا اور اس پر مطمئن و شاداں ہے۔ عالم اسلام ہنوز سرگرداں ہے اور منزل کا سراغ نہیں مل رہا۔ مسیحی دنیا کے تجربات کا حاصل یہ ہے کہ مذہب و سیاست کی یکجائی ایک معاشرتی وبال ہے۔ اس سے معاشرہ تو برباد ہوا ہی مذہب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مذہب کا دائرہ ریاست تک محیط ہوا، اس نے اہل مذہب کے ایک گروہ کو جنم دیا اور کلیسا، ایک مفاداتی گروہ (Interest group) کی علامت بن گیا۔ یوں مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا دیا گیا جسے اہل مذہب نے دنیاوی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ لہٰذا معاشرے اور دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کا دائرہ الگ الگ ہو اور دونوں کے مابین ٹکراؤ نہ ہو‘‘۔
ہم اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ جن لوگوں کو مسلم دنیا میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی درکار ہے وہ اس سلسلے میں قرآن و سنت، صحابہ کرام، اکابر علما اور صوفیا، اسلامی تہذیب یا اسلامی تاریخ کا حوالہ کیوں نہیں دیتے؟ آخر ہمیں اپنی اجتماعی زندگی میں جو تفسیر درکار ہے اس کا ہمارے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے کوئی تو تعلق ہونا چاہیے؟ آپ ہماری حیرانی پر حیران نہ ہوں اس لیے عرض ہے کہ ہم نے اپنے حیران ہونے کی بات اپنی گفتگو میں مزاح پیدا کرنے کے لیے کہی ہے۔ ورنہ ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ کوئی سیکولر، نیم سیکولر، لبرل یا نیم لبرل شخص مسلم دنیا میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے لیے قرآن و سنت، مسلم فکر، مسلم تہذیب اور مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی سند لا ہی نہیں سکتا۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بادشاہت خلافت کی ضد ہے مگر ہمارے بادشاہ تک خود کو اس لیے ظل الٰہی کہلاتے تھے تا کہ مسلم عوام کو مذہب اور بادشاہت ایک وحدت نظر آئیں۔ دوسری طرف مسلم عوام نے اپنے بادشاہوں سے محبت تو بہت کی مگر انہوں نے کبھی کسی بادشاہ کو خلیفہ نہیں سمجھا۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے سیکولر، نیم سیکولر یا خورشید ندیم جیسے پوشیدہ سیکولر افراد جب بھی مذہب اور سیاست کی بات کرتے ہیں تو ان کی گفتگو میں شعوری یا لاشعوری طور پر مغرب کا ذکر آ ہی جاتا ہے۔ خورشید ندیم کے زیر بحث کالم میں بھی یہی ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ مسیحی دنیا نے مذہب و سیاست کا باہمی تعلق جیسے تیسے دریافت کر ہی لیا اور اس پر مطمئن و شاداں ہے۔ بھئی اگر مغرب نے مذہب و سیاست کو الگ کرلیا اور اس پر شاداں و مطمئن بھی ہے تو یہ شادمانی اور اطمینان اُسے مبارک ہو۔ آپ مغربی دنیا کا مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی تجربہ مسلم دنیا پر کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں؟۔ آپ کو اگر مغرب کی شادمانی اور اطمینان عزیز یا پسند ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر یہ آپ کا ’’انفرادی‘‘ معاملہ ہے مگر آپ انفرادی معاملے کو ’’اجتماعی واردات‘‘ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آخر اس کا کیا جواز ہے؟ جو چیز صرف آپ کو یا آپ جیسے کچھ لوگوں کو پسند ہے وہ پوری امت یا کسی ایک مسلم ملک کے لیے کیوں پسندیدہ ہو؟ خیر اگر سیکولر، نیم سیکولر یا پوشیدہ سیکولر افراد کو مغرب ’’حق‘‘ محسوس ہوتا ہے تو ان کی ’’اخلاقی‘‘ ذمے داری ہے کہ وہ واضح الفاظ میں کہیں کہ صاحبان ہم مغرب اور اس کے تجربے کو ’’حق‘‘ سمجھتے ہیں اور یہ حق عالمگیر یا Universal بھی ہے چناں چہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مغرب کے ’’عالمگیر حق‘‘ کو حق مانیں اور اسے سینے سے لگائیں۔ مگر سیکولر، نیم سیکولر اور پوشیدہ سیکولر افراد مبہم زبان و بیان کے ذریعے ’’واہ مغرب‘‘ ’’آہ مسلم دنیا‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے اگر سیکولر عناصر کھل کر کہیں گے کہ مسلمان اپنے ’’حق‘‘ کو چھوڑ دیں اور مغرب کے حق کو قبول کرلیں تو لوگ ان پر تُھو تُھو کریں گے۔ خورشید ندیم نے بھی اپنے زیر بحث کالم میں یہی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ مغرب نے مذہب اور سیاست کو الگ کرکے مسرت اور اطمینان حاصل کرلیا ہے مگر بقول ان کے عالم اسلام سرگرداں پھر رہا ہے اور منزل کا سراغ نہیں مل رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خورشید ندیم نے یہ کہاں سے فرض کر لیا کہ عالم اسلام کو اس منزل کی تلاش ہے جس منزل کی تلاش مغربی دنیا کو تھی؟۔ مسلم دنیا میں خواہ کتنی ہی کمزوریاں کیوں نہ ہوں مگر مسلم دنیا کے عوام کا سواد اعظم مذہب اور سیاست کی جدائی کا نہ ماضی میں خواہش مند تھا اور نہ آج مغرب کی جنت ارض کو دیکھ کر مغرب کے مذہبی اور سیاسی تجربے پر اس کی رال ٹپک رہی ہے۔ ذرا خورشید صاحب کے جملے کی ساخت کو تو دیکھیے۔ عالم اسلام سرگرداں ہے اور اسے منزل کا سراغ نہیں مل رہا۔ او بھائی مسلمان اپنی اجتماعی روح اور اپنے اجتماعی روحانی، علمی اور اخلاقی تشخص کی بازیافت کے سفر پر نکلا ہوا ہے۔ مگر آپ صراط مستقیم کے سفر پر ماتم کررہے ہیں اور بھٹکے ہوئے مغرب کے حال پر دھمال ڈال رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم بھی یہی کرے۔
مغرب میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے قائل لوگوں میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے دانش وروں کی ہے جو سیدنا عیسیٰؑ سے منسوب ایک قول سے مذہب و سیاست کی علیحدگی کشید کرتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰؑ سے منسوب قول یہ ہے کہ خدا کا حق خدا کو دو اور سیزر کا حق سیزر کو دو۔ لیکن انجیل میں ایسے احکامات موجود ہیں جن سے ہماری اصطلاح میں حکومت الہٰیہ کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً انجیل میں ہے۔
’’پس تم اس طرح دعا مانگا کرو اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے، تیرا نام پاک مانا جائے، تیری بادشاہت آئے، تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو‘‘۔ (متی6:9۔10)
اس آیت کے سلسلے میں مولانا مودودی کی رائے بھی سن لیجیے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ عیسائیوں میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ خدا کی بادشاہت سے مراد روحانی بادشاہت تھی جب کہ یہ آیت اس کی تردید کرتی ہے۔ اس کا صاف مقصد یہ تھا کہ زمین پر خدا کا قانون اور اس کا حکم شرعی اس طرح جاری ہو جس طرح تمام کائنات میں اس کا عصبی قانون نافذ ہے۔ مولانا کے بقول سیدنا عیسیٰؑ اسی انقلاب کے لیے لوگوں کو تیار کررہے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خورشید ندیم صاحب کی ’’مسیحی دنیا‘‘ نے مذہب اور سیاست کو الگ کرکے عیسائیت کی آسمانی کتاب سے بغاوت کی ہے۔ چوں کہ خورشید ندیم عالم اسلام سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی ’’مسیحی دنیا‘‘ کی تقلید کرے اور اس کی طرح ’’شاداں‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ ہوجائے، اس لیے یہ کہنا سو فی صد درست ہے کہ خورشید ندیم اور ان جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی قرآن پاک کے واضح احکامات، سیرت طیبہؐ اور خلافت راشدہ کے تجربے سے بغاوت کریں۔ مشکل یہ ہے کہ خورشید ندیم چاہتے یہی ہیں مگر ’’ابھی‘‘ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ آج ڈر رہے ہیں تو کل بھی ڈریں۔ مغرب اور اس کے مقامی آلہ کار عالم اسلام کو مشرف بہ سیکولر ازم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
خورشید ندیم نے مذہب اور سیاست کی یکجائی کو وبال قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں پہلے دن سے آج تک جہاں جہاں مذہب اور سیاست یکجا نظر آتے ہیں وہ ’’وبال‘‘ کی علامت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خورشید ندیم نے رسول اکرمؐ کے عہد سے آج تک پوری مسلم تاریخ کو وبال زدہ قرار دے دیا ہے۔ بس ان کے فقرے کی ساخت مختلف ہے ورنہ ان کے فقرے کا مفہوم یہی ہے۔
خورشید ندیم کو ایک اعتراض یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کی یکجائی نے کلیسا کو ایک ’’مفاداتی گروہ‘‘ بنادیا۔ جہاں تک اسلام اور اسلامی تاریخ کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی کلیسا موجود ہی نہیں۔ پھر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا جن ممالک میں مذہب اور سیاست کو الگ کرلیا گیا ہے وہاں مفاداتی گروہ ختم ہوگئے؟ سوشلزم 70 سال تک آدھی دنیا پر چھایا رہا۔ اس نظام کا ایک مرکز کریملن تھا۔ ایک مرکز پولٹ بیورو تھا۔ ایک مرکز کے جی بی تھا۔ ایک مرکز کمیونسٹ پارٹی تھی۔ بدقسمتی سے یہ تمام مراکز مفاداتی گروہوں کی علامت تھے۔ امریکا مغربی سیکولر ازم کی سب سے بڑی علامت ہے مگر امریکا میں بھی مفاداتی گروہوں کی فراوانی ہے۔ امریکا کا ایک مفاداتی گروہ وائٹ ہاؤس ہے۔ ایک مفاداتی گروہ امریکا کی کارپوریشنز ہیں جن کی وجہ سے امریکا کی جمہوریت کو کارپوریٹ ڈیموکریسی کہا جاتا ہے۔ ایک مفادات گروہ پینٹا گون ہے۔ ایک مفاداتی گروہ امریکا کے ایوان ہائے صنعت و تجارت ہیں۔ ایک مفاداتی گروہ یہودی لابی ہے۔ ایک مفاداتی گروہ ذرائع ابلاغ ہیں۔ ایک مفاداتی گروہ سینیٹ ہے۔ ایک مفاداتی گروہ ایوان نمائندگان ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’’سیکولر ازم کا کعبہ‘‘ مفاداتی گروہوں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر خورشید ندیم کو نہ یہ صورت حال نظر آتی ہے نہ انہیں اس پر کوئی اعتراض ہے۔ مذہب و سیاست کو یکجا سمجھنے والی ریاست میں اگر علما سیاسی اعتبار سے اہم ہوجائیں تو کہا جاتا ہے کہ علما تو ایک مفاداتی گروہ بن گئے ہیں۔ علما یا مذہبی لوگ اگر سیاست سے دنیا کماتے ہیں تو بہت ہی برا کرتے ہیں مگر ان پر اس سلسلے میں اعتراض مذہبی اعتبار ہی سے کیا جانا چاہیے۔ انہیں یاد دلانا چاہیے کہ اس سلسلے میں رسول اکرمؐ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور ہماری تاریخ کے بڑے علما اور صوفیا کی سنت کیا ہے؟
خورشید ندیم کو ایک قلق یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں مذہب کو سیاسی ہتھیار بنایا جاتا ہے۔ پہلی بات تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ مسلم معاشروں میں روح اور جسم اور مذہب و سیاست کی دوئی کا تصور ہی موجود نہیں۔ چناں چہ دوچار گھٹیا لوگوں کے سوا کوئی مذہب کو سیاسی ہتھیار نہیں بناتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مغرب اپنی جمہوریت، اپنی آزادی کے تصور یا اپنے کلچر یہاں تک کہ اپنی موسیقی اور فلموں کو بھی ہتھیار بنا سکتا ہے تو مسلم معاشروں میں مذہب کو ہتھیار بنانے پر سیکولر لوگوں کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے، اگر خورشید ندیم کی نظر میں مذہب اتنا مقدس اور اتنی برتر حقیقت ہے کہ اسے ہتھیار بنتے ہوئے دیکھ کر خورشید ندیم کو تکلیف ہوتی ہے تو پھر وہ اس مقدس اور برتر حقیقت کا احترام کریں اور اس کے احترام کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اسے سیاست سمیت پوری زندگی پر نافذ کیا جائے۔ آپ نے دیکھا خورشید ندیم کے صرف ایک پیرا گراف میں ہمارے لیے کتنا ’’کام‘‘ موجود تھا؟؟۔