قصورکی سات سالہ زینب کے ساتھ تین ظلم ہوئے: اسے اغوا کیا گیا۔ ریپ کیا گیا۔ بعد ازاں قتل کردیا گیا۔ زینب کی المناک کہانی پر ہنگامہ برپا ہوا اور پاکستان کے ٹیلی وژن چینلز نے زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کو “Product” میں ڈھال کر فروخت کرنا شروع کیا تو معاشرے میں کہرام مچ گیا۔ ہماری بیوی نے زینب کو اپنے مبینہ قاتل کے ساتھ جاتے ہوئے ٹی وی پر دیکھا تو کہنے لگیں کہ زینب جس طرح اغوا کار کے ساتھ جارہی ہے اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنے اغوا کار کو جانتی ہے، چنانچہ وہ کس سادگی اور معصومیت کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑے جارہی ہے۔ ہم نے یہ سنا تو عرض کیا کہ تم سات سالہ زینب کا ماتم کررہی ہو، ہم نے تاریخ کے صفحات پر قوموں اور تہذیبوں کو اپنے اغوا کنندہ کے ساتھ اسی طرح جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، مغربی تہذیب ہی کو لے لو۔ اس تہذیب نے درجنوں قوموں اور کئی بڑی بڑی تہذیبوں کو اغوا کیا، انہیں ریپ کیا اور ان میں سے کچھ کو مار ڈالا۔ جو باقی بچ گئی ہیں انہیں ٹھکانے لگانے کی کوشش جاری ہے۔ مگر اس ہولناک ترین اغوا، اس ہولناک ترین Rape اور اس ہولناک ترین قتل کی اطلاع آج تک کسی اخبار، کسی ریڈیو اور کسی ٹیلی وژن پر نہیں دیکھی جاسکی۔ یہاں تک کہ کسی کے پاس یہ تناظر بھی موجود نہیں ہے۔ یہاں سلیم احمد کی مشہورِ زمانہ نظم ’’مشرق‘‘ یاد آرہی ہے۔ آیئے مشرق کا ایک حصہ جس کا عنوان ہے ’’مشرق ہار گیا‘‘ پھر پڑھتے ہیں۔
مشرق ہار گیا
کپلنگ نے کہا تھا
’’مشرق، مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے‘‘
لیکن مغرب، مشرق کے آنگن میں آپہونچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدلؔ اور حافظؔ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتاہوں
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو چگی داڑھی والے اکبرؔ کی کھسیانی ہنسی پر
……رحم آتا ہے
اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے)
……مجذوب کی ’’بڑ‘‘ ہیں
وارثؔ شاہ اور بلھےؔ شاہ اور بابا فریدؔ؟
چلیے جانے دیجے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
مشرق ہار گیا ہے!
یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں ہے
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگِ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی جاسکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے
قبلا خاں تم ہار گئے ہو!
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو
……جیت گیا ہے
اکبر اعظم! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اُس کے کتے بھی اُن لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی!
میں سوچ رہا ہوں، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کونگل گیا ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
… میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
میں نے اپنے آئینے پر کالک مَل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کے لیے صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت، ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں
……میں بھی!
جدید اردو ادب میں ’’مشرق ہار گیا‘‘ جیسی کوئی نظم موجود نہیں۔ مگر یہ ’’مشرق ہار گیا‘‘کے تجزیے کا موقع نہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس نظم میں جو غم، جو نفرت اور جو غصہ موجود ہے وہ محض مغرب کے ساتھ ’’رومانس‘‘ یا ہلکی پھلکی ’’مغرب زدگی‘‘ سے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ غم، یہ نفرت، یہ غصہ اغوا، عصمت دری، اس کی کوشش اور اقدامِ قتل یعنی Attempt to murder ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ نام نہاد مشرق ہی میں نہیں “Sex Free”امریکہ میں بھی اغوا اور Rape کا شکار ہونے والی لڑکیوں اور لڑکوں میں سے 15 فیصد خودکشی کرلیتے ہیں۔ سلیم احمد کی نظم کا آخری حصہ پھر پڑھیے:
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت، ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں
میں بھی!
یہ انفرادی نہیں، اجتماعی خودکشی کی خواہش ہے۔ اس مقام پر سلیم احمد ایک فرد نہیں ہیں۔ وہ مشرق کی اجتماعی روح، اس کے اجتماعی غم، اس کی اجتماعی نفرت اور اس کے اجتماعی غصے کا استعارہ ہیں۔ مشرق کے حوالے سے یہ غم، یہ نفرت اور یہ غصہ درست ہے، البتہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے انفرادی یا اجتماعی خودکشی کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اس کی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ زمانہ ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کے تجربے کی جانب لوٹے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے نہیں، غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا جزوی زوال بہت بڑا صدمہ ضرور ہے مگر یہ جزوی زوال دائمی نہیں۔ مسلمان ایک بار پھر اصل کی طرف لوٹیں گے۔ اصل کی طرف لوٹیں گے تو عروج ایک کروڑ فیصد ان کا مقدر بنے گا۔ البتہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے سوا جو مشرق ہے اُس کا واقعتا انتقال ہوچکا ہے۔ بدقسمتی سے اس مشرق کو اپنے زوال پر نہ کوئی غم ہے، نہ اس کے حوالے سے اس میں کوئی نفرت اور غصہ ہے، چنانچہ اس مشرق میں نہ کوئی سلیم احمد ہے اور نہ ’’مشرق ہار گیا‘‘ کی طرح کی نظم ہے۔ مگر یہ ایک اور ہی موضوع ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب قوموں اور تہذیبوں کو اغوا کرنے والی ہے، انہیں Rape کرنے والی ہے اور انہیں قتل کرنے والی ہے۔ اس واردات کی ’’جھلکیاں‘‘ آپ ہمارے کالموں میں 27 سال سے ملاحظہ کررہے ہیں۔ ان جھلکیوں کی ایک جھلک یہ ہے:
پاکستان سمیت دنیا کے درجنوں ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت آتی ہے تو مغرب کے کہنے پر۔ مارشل لا آتا ہے تو مغرب کے اشارے پر۔ جرنیل ہوں یا سیاسی رہنما، سب واشنگٹن، لندن اور پیرس کا طواف کرتے ہیں۔ یہ قوموں کے سیاسی اغوا، سیاسی Rape اور سیاسی قتل کی مثال ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے 75 ممالک کی معیشت مغرب کے مالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہے۔ مغرب ان ملکوں میں قرضوں ہی کو نہیں، بجٹ اور محصولات کے نظام تک کو کنٹرول کررہا ہے۔ یہ ان ملکوں کی معیشتوں کے اغوا، Rape اور قتل کی نظیر ہے۔ پاکستان سمیت درجنوں ملکوں کی عسکری قوت مغرب کی مٹھی میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو جہاد ہوتا ہے، امریکہ نہیں چاہتا تو جہاد نہیں ہوتا۔ امریکہ حریت پسندوں کو مجاہد کہتا ہے تو مسلم ممالک کے حکمران بھی انہیں مجاہد کہتے ہیں۔ امریکہ مجاہدوں کو دہشت گرد کہنے لگتا ہے تو صرف ایک دن میں مسلم حکمرانوں کی لغت بدل جاتی ہے اور وہ بھی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے لگتے ہیں، بلکہ ان کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے لگتے ہیں اور امریکہ کی جنگ کو ’’اپنی جنگ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مغرب چاہتا ہے تو جنگیں ہوتی ہیں، نہیں چاہتا تو جنگیں نہیں ہوتیں۔ مغرب نہیں چاہتا تو فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود 70 سال تک حل نہیں ہوتا۔ مغرب چاہتا ہے تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان دو تین سال کی جدوجہد سے آزاد ممالک میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ قوموں کے دفاع، جنگ اور امن کا اغوا ان کا Rape اور ان کا قتل ہے۔
قوموں کی زندگی میں خوابوں اور مثالیوں یعنی Ideals کی اہمیت بنیادی ہے۔ ان کے بغیر کوئی قوم عظیم نہیں ہوسکتی۔ ہماری تہذیب کی معراج اللہ کی رضا کا حصول ہے، آخرت کی کامیابی ہے، جنت کا حصول ہے، سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، سیرتِ صحابہؓ ہے، امام غزالیؒ اور مولانا رومؒ کی طرح صاحبِ علم اور اخلاق ہونا ہے۔ ہمارا مثالیہ مردِ مومن ہے، فقر اختیار کرنے والا ہے، مجاہد ہے، شاہین ہے۔ مگر مغرب ہمارے تمام خوابوں اور مثالیوں یعنی Ideals کو ہڑپ کررہا ہے، اور اس نے اپنے خواب اور اپنے Ideals ہم پر مسلط کردیے ہیں۔ چنانچہ اب مسلم معاشروں کے Ideal اداکار ہیں، گلوکار ہیں، کھلاڑی ہیں، ماڈلز ہیں، Cat Walk کرنے والے اور کرنے والیاں ہیں۔ ہمارا خواب دولت ہے، عہدہ ہے، منصب ہے، شہرت ہے، طاقت ہے۔ کسی بھی طرح سے حاصل ہونے والی دولت، کسی بھی طرح سے حاصل ہونے والی طاقت، کسی بھی طرح سے حاصل ہونے والی شہرت، کسی بھی طرح سے حاصل ہونے والا عہدہ و منصب۔ یہ ہماری تہذیب، ہمارے خوابوں اور ہمارے Ideals کا اغوا ہے، ان کا Rape ہے اور ان کا قتل ہے۔ اس منظرنامے پر سلیم احمد کا یہ کہنا بجا ہے:
میری روح کے اندر ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کو بھرنے کے لیے صدیاں بھی ناکافی ہیں
اس سلسلے میں سلیم احمد کا یہ غصہ بھی درست ہے:
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
اس کے بعد کہنے کی ضرورت ہے:
ایسا غصہ، ایسی نفرت
جس کی آگ میں وہ جل جائے
جو باطل ہے
جو قاتل ہے
باطل اور قاتل سے جان چھوٹے گی تو ہر مسلمان کے سینے میں وہ دل دھڑکنے میں دیر نہیں لگے گی جس پہاس کے دین، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور اس کے خوابوں اور Idealsکی مہر لگی ہوگی۔
مغرب کے اجتماعی مزاج میں اغوا، عصمت دری اور قتل کا رجحان اس حد تک غالب ہے کہ اس کا اثر اس کے برپا کیے ہوئے تناظر اور اداروں پر بھی پڑا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ ہم نے مظلوم زینب کے سانحے کے حوالے سے ملاحظہ کیا ہے۔ اس سانحے کو ’’فروخت‘‘ کرنے کے سلسلے میں ہمارے ٹیلی وژن چینلز نے ’’ابلاغی بازار کاری‘‘ یا مارکیٹنگ شروع کی۔ چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں قومی شعور اغوا ہوگیا۔ اس منظرنامے میں ہمارے ایک عزیز دوست جیو کی اسکرین پر نظر آئے۔ وہ جیو پر جو گفتگو کررہے تھے اسے سن کر ہماری بڑی بیٹی نے کہا کہ چاچا جو گفتگو کرکے گئے ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ جو کچھ کرناہے ’’بیچاری بھیڑوں‘‘ کو کرنا ہے، ’’بھیڑیوں‘‘ کے سلسلے میں ہماری کوئی ذمے داری نہیں۔ بھیڑیے آئیں گے، ہماری زینبوں کو اغوا کریں گے، ان پہ ظلم کریں گے اور انہیں قتل کرڈالیں گے۔ غور کیا جائے تو یہ بھی مغرب کا اثر ہے کہ ہم جنسی درندگی کے واقعات میں اپنی ساری توجہ بچوں پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے مغرب زدگان کیا، بعض مذہبی لوگ بھی بچوں کو جنسی تعلیم مہیا کرنے کی بات کررہے ہیں، یا ازکم از کم یہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کو ’’باشعور‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ کہنے والوں کو نہ ’’شعور‘‘ کا مفہوم معلوم ہے، نہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ ہم بچوں کو صرف یہ بتاکر کہ تمہیں ’’دوسروں‘‘ کو ایک حد سے زیادہ اپنے قریب نہیں آنے دینا ہے، ان پر ایک ایسا نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی خوف اور بوجھ مسلط کردیں گے جس کی اکثر بچے تاب نہ لاسکیں گے اور ان کا تصورِ ذات، تصورِ معاشرہ، تصورِ دنیا اور تصورِ ’’دوسرا‘‘ تباہ ہوجائے گا۔
بلاشبہ جنس یا Sex کا تصور مغرب کی ایجاد نہیں، اور نہ ہی مغرب نے جنسی انحرافات کا آغاز کیا ہے، لیکن اس حقیقت کی گواہی اب خود اہلِ مغرب بھی دے رہے ہیں کہ جنسی انحرافات، جنسی جرائم، جنسی تشدد اور جنسی رغبت و میلان کو ’’طوفان‘‘ بنانے والا مغرب ہی ہے۔ صابر شاہ نے دی نیوز کراچی کی 17 جنوری 2018ء کی اشاعت میں اس حوالے سے اہم اور مستند شہادتیں پیش کی ہیں۔ صابر شاہ کے بقول امریکہ کے محکمہ انصاف نے 2016ء کی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ انٹرنیٹ کی توسیع نے Child Pornography یعنی بچوں کی عریانی اور جنسی افعال پر مشتمل فلموں اور تصاویر کی مارکیٹ میں دھماکا کردیاہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ دھماکا ہزاروں ایٹم بموں کے دھماکوں سے زیادہ بڑا ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس بات کی تصدیق امریکی ایف بی آئی اور انٹرپول نے بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر موجود ننگی فلموں اور بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد اور دیگرجنسی جرائم میں گہرا تعلق ہے۔ امریکہ کے سی بی این نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران Child Pornography سے متعلق جرائم میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔2015ء میں برطانیہ کے چیف جسٹس لارڈ تھامس دو لڑکیوں کے قتل کے سلسلے میں Pornographyکو براہِ راست ذمے دار قرار دینے کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے صاف کہا کہ انٹرنیٹ پر دستیاب ننگی فلمیں ماضی کے مقابلے میں عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کو کہیں زیادہ جرائم پر مائل کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ان دو مقدمات کی مثالیں دیں جن کی خود انہوں نے سماعت کی۔ 2011ء میں امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر جونیئر نے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ننگی فلموں اور تصاویر میں اضافے کی سطح سے بچوں کے استحصال، ان پر تشدد اور Child abuse کے واقعات میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ Child abuse کے دائرے میں آنے والے بچوں کی عمر میں کمی واقع ہورہی ہے، یعنی پہلے اگر بارہ چودہ سال کے بچے جنسی جرائم کا نشانہ بنتے تھے تو اب اس سے بھی کم عمرکے بچے جنسی جرائم کی زد میں آنے لگے ہیں۔ امریکہ کے نیشنل سینٹر نے 2011ء میں گمشدہ اور استحصال زدہ بچوں کی ایک کروڑ 70لاکھ ویڈیوز اور Images کا جائزہ لیا۔ یہ تعداد 2006ء کے مقابلے پر چار گنا زیادہ تھی۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سیکنڈ میں 28 ہزار 258 امریکی انٹرنیٹ پر ننگی فلمیں یا ننگی تصاویر ملاحظہ کررہے ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے ننگی فلمیں اور تصاویر دیکھنے پر ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر صرف کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے امریکی ایک سال میں 95 ارب ڈالر ننگی فلموں اور تصاویر پر خرچ کرتے ہیں۔ ایک ڈالر کو 100 روپے کے مساوی قرار دے کر دیکھا جائے تو امریکی ایک سال میں ننگی فلموں اور ننگی تصاویر پر ’’صرف 95 کھرب روپے‘‘ خرچ کرتے ہیں۔
صابر شاہ نے اپنی رپورٹ میں امریکہ کے ممتاز محقق اور ایوارڈ یافتہ شخصیت لیری سیگل کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ میں روزانہ 4 کروڑ امریکی ننگی فلموں اور ننگی تصاویر کی سائٹسVisit کرتے ہیں۔ امریکہ میں انٹرنیٹ سے روزانہ ڈائون لوڈ ہونے والا 35 فیصد مواد فحش ہوتا ہے۔ امریکہ کے تمام سرچ انجنز پر روزانہ 6کروڑ 80 لاکھ ’’استفسارات‘‘ طلوع ہوتے ہیں۔ ان میں سے 25 فیصد ننگی فلموں اور ننگی تصاویر سے متعلق ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ننگی فلموں اور ننگی تصاویر کی ایک تہائی ’’ناظر‘‘ خواتین ہوتی ہیں۔ امریکہ میں روزانہ ڈھائی ارب ای میلز ننگی فلموں اور ننگی تصاویر سے متعلق ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہر 39 منٹ میں ایک نئی Pornographic Video بازار یا نیٹ پر آجاتی ہے۔ امریکہ میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 35 فیصد افراد ایسے ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی ننگی فلمیں یا تصاویر دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران اچانک ننگے اشتہارات آجاتے ہیں۔Popup اشتہارات سے واسطہ پڑجاتا ہے۔ ان ای میلز میں ننگے Images موصول ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’ہولناک دنیا‘‘ مغرب نے ایجاد کی ہے، اور اب وہ اپنی ایجاد کردہ دنیا کو ایک ایک ملک میں پہنچا کر ان کے مذہب، اخلاق، تہذیب، ثقافت، اقدار کو اغوا کررہا ہے۔ انہیں Rape کا نشانہ بنارہا ہے۔ مغرب کئی تہذیبوں کو قتل کرچکا۔ اسلامی تہذیب قتل نہیں ہوئی اور نہ ان شاء اللہ ہوگی، مگر مغرب اسلامی تہذیب کے گلے پر تلوار رکھے کھڑا ہے اور اس کے دبائو کو بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ مغرب جیسا خود ہے ویسا ہی ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔ مغرب کی جنسی درندگی، جنسی وحشت اور جنسی انارکی کا ایک پہلو یہ ہے کہ مغرب میں جنسی طوفان اتنا طاقت ور ہوگیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا جاچکا ہے، یہاں تک کہ بعض چرچوں نے مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی کو قابلِ قبول قرار دے دیا ہے۔ ہمارے بعض سیاسی و مذہبی رہنما، علماء اور دانش ور شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جو کچھ مغرب میں ہورہا ہے ہمارے یہاں نہیں ہوگا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے بھی بچوں پر جنسی حملوں کے واقعات ہوتے تھے، مگر اب ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اگر پی ٹی وی کی انائونسر کے سر سے دوپٹہ کھسک جاتا تھا تو پی ٹی وی کے خلاف مظاہرہ ہوجاتا تھا، مگر اب معاشرے نے فلموں، اشتہاروں اور ڈراموں کی نیم عریاں، غارت گر ایمان یا Seductive خواتین کو قبول کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے کو اب اس کی کوئی فکر نہیں کہ انٹرنیٹ پر جو ننگی فلمیں اور تصاویر امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کے لوگوں کو دستیاب ہیں، وہی ننگی فلمیں اور تصاویر ہمارے نوجوانوں کو بھی مہیا ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب، اس کے مقامی آلۂ کاروں، اندھے، بہرے، گونگے علماء، مذہبی و سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور صحافیوں کی خاموشی اور عدم تحرک نے معاشرے کی Shock Value کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ جو معاشرہ 1980ء کی دہائی میں ٹی وی کی انائونسر کے ڈوپٹے کو مسئلہ بنائے ہوئے تھا وہ اب اس سے ہزار گنا ضرر رساں جنسی مواد کو خاموشی سے قبول کررہا ہے۔ صورت حال یہی رہی تو آج جو چیزیں ناممکن نظر آتی ہیں، وہ دس پندرہ برسوں میں اسی طرح ممکن ہوجائیں گی جس طرح پندرہ سال پہلے کا ناممکن آج ہمارے سامنے کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ننگی فلمیں اور تصاویر انٹرنیٹ تک محدود رہیں گی اور ہم جنس پرستی ہمارے معاشرے میں عام نہیں ہوگی تو وہ اپنی خوش فہمی یا غلط فہمی دور کرلے۔ ہمارے مذہبی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی شعور کا زوال اور ہمارا عدم تحرک کسی بھی چیز کو ممکن بناسکتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ چند سال پہلے جاوید احمد غامدی نے انٹرنیٹ پر موجود اپنے ایک مضمون میں ہم جنس پرستی کے لیے جواز جوئی کی تھی۔ ہم نے روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحے پر اس مضمون کا کئی قسطوں میں پوسٹ مارٹم کیا تو غامدی صاحب کے کئی شاگرد ہم سے ملنے گھر آئے، مگر وہ ہمارے کالموں میں اٹھائے گئے کسی نکتے کا جواب نہ دے سکے۔ ایسی ہی ’’معمولی مزاحمتوں‘‘ اور ان کے مضمرات نے غامدی صاحب کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ بلاشبہ وہ اب ملائشیا میں رہ کر اپنے خیالات کا پرچار کررہے ہیں مگر اب مدت ہوئی انہوں نے ہم جنس پرستی کی حمایت نہیں کی۔ معاشرہ مزاحمت نہیں کرے گا تو غامدی صاحب اور ان جیسے مغرب زدگان آج نہیں تو کل پھر سر اٹھائیں گے، اور زیادہ قوت کے ساتھ۔ آپ نے دیکھا کہ سات سالہ معصوم اور مظلوم زینب کے سانحے کی آڑ مہیا ہوتے ہی مغرب کے سیاسی اور صحافتی ایجنٹ اچانک ’’بلوں‘‘ سے باہر نکل آئے اور انہوں نے تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے لیے ہولناک مہم شروع کردی۔ انہیں اس سے بڑا موقع ملے گا تو وہ ننگی فلموں، ننگی تصویروں اور ہم جنس پرستی کے لیے بھی اسی طرح مہم چلائیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ منٹو کے افسانوں کو فحش قرار دے کر منٹو پر مقدمات چلائے جاتے تھے۔ منٹو کے جن افسانوں پر مقدمات چلے، ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ فحش نہیں تھے۔ لیکن اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ وہ فحش تھے تو یہ کہنا ناگزیر ہوجاتا ہے کہ منٹو کے افسانوں کی فحاشی کو اگر سو میں سے دس نمبر دیے جائیں گے تو ہمارے ٹی وی پر موجود مواد کو 50، اور انٹرنیٹ پر موجود مواد کو 100 نمبر دینے پڑیں گے۔ مگر اس کے باوجود نہ کوئی شور مچا رہا ہے، نہ ہنگامہ کررہا ہے، نہ جلوس نکال رہا ہے، نہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لفظوں کے ذریعے بیان ہونے والی فحاشی تصویر بالخصوص متحرک تصویر کے سامنے بچوں کا کھیل ہے۔ اس لیے کہ غیر متحرک تصویر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ہزار الفاظ پر بھی بھاری ہوتی ہے۔ متحرک تصویر کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ہمیں فلم دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ہم فلم دیکھ رہے ہیں، مگر فلم کے کردار ہنستے ہیں تو ہم ہنستے ہیں، فلم کے کردار روتے ہیں تو ہم روتے ہیں، فلم کے کردار خوف محسوس کرتے ہیں تو ہم خوف محسوس کرتے ہیں۔ اس اصول کو سمجھ لیا جائے تو اس بات کی تفہیم دشوار نہیں کہ اگر مذہب، اخلاق، علم اور تہذیب سے عاری نوجوان، جوان، یا بڑی عمر کے لوگ کمپیوٹر، ٹی وی یا فون کی اسکرین پر ننگی فلمیں اور ننگی تصاویر دیکھیں گے اور جنسی تشدد ملاحظہ کریں گے تو وہ عام زندگی میں یہی کچھ کرنے کی خواہش کریں گے۔ وہ مسلسل ننگی فلموں، ننگی تصاویر، بچوں بڑوں پر ہونے والے جنسی تشدد ملاحظہ کریں گے تو ان کی ’’خواہش‘‘ بہت دنوں تک خواہش نہیں رہے گی، بلکہ موقع ملتے ہی ’’عمل‘‘ بن جائے گی۔ پھر کروڑوں احمق اچانک کہیں گے: دیکھو دیکھو ایک ’’اسلامی معاشرے‘‘ میں کیا ہورہا ہے؟ ہم اپنی روح، اپنے قلب، اپنے ذہن، اپنی تعلیم، اور اپنے ابلاغی ذرائع پر اسلام کو ایک فیصد اور ننگی فلموں اور ننگی تصاویر کو 99 فیصد اہمیت اور وقت دیں گے تو ’’بیچارہ اسلام‘‘ اور ’’بیچارہ اسلامی معاشرہ‘‘ کیا کرے گا؟ مذہبی طبقات سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کے گھر جنسی طوفان سے محفوظ ہیں، لیکن اصول ہے کہ جب بستی میں آگ لگ جاتی ہے تو بالآخر وہ آگ ہر گھر تک پہنچتی ہے۔ چنانچہ عافیت اسی میں ہے کہ اس وقت آگ جہاں ہے وہیں اسے بجھادو۔ بدقسمتی سے معاشرے میں ’’مغرب زدگی‘‘ کی طرح ’’سیاست زدگی‘‘ کا مرض بھی عام ہے۔ چنانچہ ’’سیاست زدگان‘‘ خودکو صرف سیاست تک محدود رکھتے ہیں۔ وہ اتنی سی بات نہیں سمجھ رہے کہ جب معاشرے کے اخلاقی اور جنسی تصورات بدل جائیں گے تو یہ تغیر سیاسی پسند یا ناپسند کو بھی بدل کر رکھ دے گا۔ چنانچہ پھر بہت سے لوگوں کا ’’سیاسی کاروبار‘‘ بھی وقت کے بہائو میں بہہ جائے گا۔ ان شاء اللہ اسلام کا کچھ نہ بگڑے گا، اسلام اللہ کا دین ہے، وہ باطل کی گردن مار کر پھر اسٹیج پر واپس آجائے گا۔ البتہ اس منظرنامے میں اسلام کا نمائندہ اور ترجمان کوئی اور ہوگا۔ خدا اپنے دین کی حفاظت کے لیے کسی فرد، کسی گروہ، کسی تنظیم کسی طبقے یا کسی قوم کا محتاج نہیں۔ کیا آپ اقبال کا یہ شعر بھول گئے: