عطا الحق قاسمی کا شمار میاں نواز شریف کے اہم مشیروں اور وکیلوں میں ہوتا ہے۔ اصول ہے انسان پر صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ شاید محبت کے اثر کے تحت ہی عطا الحق قاسمی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اقبال، قائد اعظم اور مولانا حسرت موہانی کی توہین کی تھی۔ اس توہین کی صورت یہ نکالی گئی کہ عطا الحق قاسمی کو اقبال کی شاعری کے سمندر کے مقابلے پر ان کے خطبات پسند ہیں مگر صرف اس لیے کہ خطبات میں اقبال نے پارلیمنٹ کا ذکر کیا ہے اور پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دیا ہے۔ قائد اعظم کو پسند کرنے کی وجہ عطا الحق قاسمی کے نزدیک یہ ہے کہ ان سے کچھ ایسی چیزیں بھی منسوب ہیں جن کے ذکر سے فساد خلق پیدا ہوسکتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی کی شخصیت میں عطا الحق قاسمی کو صرف یہ بات نظر آئی کہ وہ خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ عطا الحق قاسمی کے اس کالم پر ہم نے گزشتہ ہفتے گفتگو کی تھی۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ عطا الحق قاسمی کے بعد ان کے فرزند ارجمند یاسر پیرزادہ بھی ہمارا کام ہے ہم تو سر بازار ناچیں گے‘ کہتے ہوئے سامنے آگئے۔ ان کے والد محترم نے اقبال، قائد اعظم اور حسرت موہانی پر ہاتھ صاف کیا تھا یاسر پیرزادہ نے مولانا روم اور ابن عربی پر کیچڑ اچھال دیا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ باپ بیٹے کے درمیان پست مزاجی کا مقابلہ ہورہا ہے۔ یاسر پیرزادہ نے 21 جنوری 2018ء کے کالم میں اگر چہ مولانا روم کو عبقری یا genius اور ابن عربی کو بڑا فلسفی قرار دیا ہے مگر انہوں نے ان عظیم شخصیات میں جو اصل شے دریافت کی ہے وہ ان کا ’’عاشقانہ مزاج‘‘ ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’وہ (یعنی ابن عربی) قرطبہ میں تھے تو فاطمہ نامی خاتون سے ان کی قربت عرصے تک رہی۔ اس کے بعد جب وہ مکے میں رہے وہاں مکین الدین نامی ایک عالم سے حدیث پڑھی۔ ان عالم کی بیٹی عین الشمس نظامی نہایت خوبصورت تھی جس پر ابن عربی مر مٹے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے اکثر مکاشفات کا روحانی جذبہ اس کے عشق کا رہن منت ہے۔ (بحوالہ۔ تصوف کی حقیقت از غلام احمد پرویز)‘‘۔
مولانا روم کے بارے میں یاسر پیرزادہ نے لکھا ۔
’’رومی اگر شمس تبریز کے عاشق تھے تو خدا جانے یہ کیسا عشق تھا۔۔۔ وہ قونیہ کی گلیوں میں گھومتے، دیوانہ وار رقص کرتے، اس عالم میں غزلیں کہتے اور ایسے کہ ان کے منہ سے جھاگ اڑتی، شمس تبریز کا قصہ رومی کے شاگردوں، پیرو کاروں اور کہا جاتا ہے کہ خود ان کے بیٹے نے پاک کیا مگر اس کے باوجود رومی کا عشق ماند نہ پڑا۔ رومی کا اگلا عشق احسام الدین چیلسپی سے ہوا۔ یہ عشق بھی شدید تھا‘‘۔
مولانا روم کی فکر، شخصیت اور تخلیقی جوہر اتنا بڑا ہے کہ انہیں عبقری یا genius کہنا بھی ان کی توہین ہے۔ مولانا کا مقام یہ ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال میں ہماری تہذیب جن لوگوں سے define ہوئی ہے مولانا روم ان میں سے ایک ہیں۔ اقبال نے یونہی تو نہیں کہا۔
عطار ہوں، رومی ہوں، رازی ہوں، غزالی ہوں
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
اقبال کے مصرع اولیٰ میں جن چار شخصیات کا ذکر ہے رومی ان میں سے ایک ہیں۔ غزالی کے ساتھ رومی کا تعلق یہ ہے کہ رومی کے والد مولانا بہاء الدین غزالی سے حد درجہ متاثر تھے چناں چہ رومی نے جب آنکھ کھولی تو ان کے گھر میں غزالی، غزالی کا شور برپا تھا اور مولانا نے غزالی سے کسب فیض کیا۔ رومی اپنے والد کے ساتھ بلخ گئے تو راستے میں ان کی ملاقات عطار سے ہوئی۔ عطار نے رومی کو دیکھا تو ان کے والد سے کہا کہ اس جوہر قابل کا خیال کرنا۔ لیکن رومی کی اصل اہمیت یہ نہیں ہے۔ رومی کی اصل اہمیت یہ ہے کہ ان کی مثنوی کو ’’فارسی کا قرآن‘‘ یا ’’فارسی میں قرآن‘‘ یا ’’فارسی میں قرأت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب میں کسی کتاب یا کسی صاحب کتاب کے بارے میں اس سے بڑی بات کہنا ممکن نہیں۔ اقبال اتنے بڑے شاعر ہیں کہ انہیں شاعروں کا شاعر قرار دینا غلط نہیں مگر شاعروں کا شاعر کہتا ہے کہ میں مولانا رومی کے کلام کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ وہ ایک سمندر ہے اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا کوزہ۔ ممتاز دانشور احمد جاوید نے ایک گفتگو میں کہا ہے کہ مولانا کی شاعری میں جو وفور ہے وہ مولانا کے سوا کسی غیر پیغمبر کے کلام میں موجود نہیں۔ مولانا کی مثنوی 25 ہزار 700 اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک روایت کے مطابق مولانا نے ڈھائی ہزار غزلیں بھی خلق کیں۔ لیکن مولانا صرف شاعر ہی نہیں تھے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں وہ درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی نے ان کے درس پر اعتراض کیا کہ آپ صرف قرآن کے ان مضامین پر گفتگو کرتے ہیں جن کی تشریح لکھی جاچکی ہے۔ مولانا نے کہا کہ آپ کوئی سورۃ پڑھیں، میں اس کی تفسیر بیان کروں گا۔ ان صاحب نے سورۂ الضحیٰ کی تلاوت کی۔ مولانا نے واضحیٰ کے ’’و‘‘ پر گفتگو شروع کی اور کئی گھنٹے ’’و‘‘ کی تشریح کے حوالے سے کلام کرتے رہے۔ مغربی دنیا میں گزشتہ سو سال کے دوران اسلام اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے جو کام ہوا ہے اس کے ضمن میں مسلم دنیا کے صرف تین مفکرین کا ذکر تکریم اور ہیبت کے ساتھ ہوا ہے۔ یعنی غزالی، رومی اور ابن عربی۔ مگر اتنی بڑی شخصیت کے حوالے سے یاسر پیرزادہ کی نظر صرف مولانا روم کے شمس تبریز اور احسام الدین چلیسپی کے ساتھ تعلق پر گئی ہے۔ بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ نے اس تعلق کو بھی یہ کہہ کر ’’اسکینڈل‘‘ بنادیا کہ
’’رومی اگر شمس تبریز کے عاشق تھے تو خدا جانے یہ کیسا عشق تھا‘‘۔
یہ رکیک النفسی کی انتہا ہے۔ یاسر پیرزادہ کے اس فقرے میں ایسی ضلالت اور ایسی رکاکت ہے کہ خواہش کے باوجود ہمارا قلم اسے نام دینے سے گریزاں ہے۔ ایک ہولناک بات یہ ہے کہ یاسر پیرزادہ نے اس سلسلے میں حوالہ غلام احمد پرویز کی کتاب کا دیا ہے۔ وہ غلام احمد پرویز جو منکر حدیث اور سرسید کی عقل پرستی کا ایک نتیجہ تھا اور جسے تصوف کی پوری روایت سے چڑ تھی۔ اس لیے کہ اس کی عقل اس روایت کی الف ب کو بھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔
تصوف کی روایت میں شیوخ تو بہت ہوئے ہیں مگر ’’شیخ اکبر‘‘ صرف ایک ہیں۔ محی الدین ابن عربی۔ ابن عربی، غزالی سے اتنا متاثر تھے کہ ان کی کتب حطیم میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ ابن عربی کی مشہور زمانہ تصنیف خصوص الحکم کے بارے میں خود ابن عربی کا بیان یہ کتاب انہیں خواب میں رسول اکرمؐ نے خود عطا کی اور اس میں موجود علم کو عام کرنے کی ہدایت کی۔ ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود تصوف کی فکری روایت کا مرکزی حوالہ ہے اور بڑے بڑے صوفیا اور علما اس کے زیر اثر رہے ہیں۔
مجدد الف ثانی نے جنہیں اقبال نے برصغیر کا سب سے بڑا مذہبی ذہن قرار دیا ہے وحدت الوجود کے تصور کو مسترد کیا ہے اور وحدت الشہود کا تصور پیش کیا ہے۔ مگر شاہ ولی اللہ نے فرمایا ہے کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ یعنی شاہ ولی اللہ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے درمیان پل بنادیا ہے۔ قاری طیب نے جو دارالعلوم دیوبند کے مہتم اور بڑے دیوبندی علما میں سے ایک تھے کہا ہے کہ شیخ اکبر کی تعلیمات دیوبند کے اساسی تصورات کی بنیاد ہیں۔ مجدد الف ثانی نے اگرچہ ابن عربی پر اعتراضات کیے ہیں مگر ایک مکتوب میں ان کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ ایک وہی تو ہیں جن سے کبھی اتفاق ہے اور کبھی اختلاف۔ اتنی بڑی شخصیت میں بھی یاسر پیرزادہ کو سب سے اہم چیز ’’معاشقے‘‘ نظر آئے۔ اگرچہ یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں مولانا روم کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا کے مطابق عشق حقیقی اور عشق مجازی ایک ہی حقیقت تک لے جانے والی چیزیں ہیں مگر ان کے کالم میں ابن عربی اور مولانا کے عشق کا ذکر تقریباً اس انداز میں ہوا ہے جس انداز میں اداکاروں کے معاشقوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ حفظ مراتب کا شعور عام تھا۔ چناں چہ لوگ انسانوں پر بھی مراتب کے شعور کے ساتھ کلام کرتے تھے مگر مغرب کے تصور آزادی اور تصور جمہوریت نے مراتب کے تصور کو تہہ بالا کردیا ہے۔
مغرب کے تصور آزادی نے تاریخ انسانی کی بڑی شخصیتوں پر خدا اور انبیا و مرسلین پر اس طرح گفتگو کی راہ ہموار کردی ہے جیسے خدا خدا اور انبیا انبیا نہ ہوں بلکہ عوام یا man on the street ہوں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت صرف سیاسی نظام کا نام ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ جمہوریت ایک تناظر ہے۔ اس تناظر نے علم تک کو جمہوریت بنالیا ہے یعنی democratization of knowledge کا سانحہ وقوع پزیر ہوچکا ہے۔ چناں چہ اب چوہے، ڈائنا ساروں پر، کتے، شیروں پر اور کوّے، ہنسوں پر تبصرہ کرنا اپنا ’’جمہوری حق‘‘ سمجھتے ہیں۔ رہی سہی کسر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے۔ ان ذرائع کی وجہ سے جو شخص چار عام فقرے لکھنے کے قابل ہے وہ دانشور، مدبر بلکہ مفکر بن گیا ہے۔ صحافیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ jack of all but master of none ہوتے ہیں۔ یعنی وہ ’’ماہر‘‘ تو کسی چیز کے نہیں ہوتے البتہ انہیں بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب علم اور تفہیم کیا کسی چیز کے بارے میں ہمیں بنیادی معلومات بھی مہیا نہیں ہوسکتیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی کی اصل چیز ’’صحیح تناظر‘‘ ہے اس کے بغیر معلومات کا ہمالہ بھی بیکار ہے۔ تناظر چشمے کی طرح ہوتا ہے۔ آپ کالا چشمہ لگا کر چیزوں کو دیکھیں گے تو آپ کو ہر چیز کالی نظر آئے گی۔ بڑی شخصیتوں کو سمجھنے کے لیے انسان کو اپنی سطح سے بلند ہونا پڑتا ہے جو لوگ ایسا نہیں کرپاتے وہ بڑی شخصیتوں کو بھی اپنی سطح پر گھسیٹ لاتے ہیں اور پھر انہیں ’’سمجھنے‘‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ چوروں کو سارے نظر آتے ہیں چور کے مصداق بونوں کو دیو قامت لوگ بھی بونے ہی نظر آتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جو عیب ہم میں ہیں وہی عیب بڑی شخصیتوں میں بھی ہوں گے۔ جیسی ہماری خواہشیں ہیں ویسی ہی بڑے لوگوں کی خواہشیں بھی ہوں گی۔ جہاں ہماری رال ٹپکتی ہے وہیں بڑے لوگوں کی رال بھی ٹپکتی ہو گی۔ یہاں سلیم احمد کا ایک شعر یاد آگیا
لوگ کہتے ہیں ہوس کو بھی محبت جیسے
نام پڑ جائے مجاہد کسی بلوائی کا
بقول ایک شاعر کے
محبت اور ہوس میں فرق یہ ہے
کہ اک پیچھے تو اک خواہش سے آگے
یاسر پیرزادہ کی خدمت میں ایک اور شعر
ہر بوالہواسی نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
فراق صاحب کہہ گئے ہیں
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
یاسر پیرزادہ اور ان کے والد کے ’’تزکیے‘‘ کے لیے انور شعور کا ایک شعر
صاف شفاف آسماں کو دیکھ کر
گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں