خواب انسانی تاریخ میں — شاہنواز فاروقی
انسانی زندگی خواب اور حقیقت سے عبارت ہے، مگر انسانوںکی عظیم اکثریت کے ساتھ یہ سانحہ ہوجاتا ہے کہ ان کی زندگی سے خواب غائب ہوجاتا ہے اور صرف ’’حقیقت‘‘ باقی رہ جاتی ہے، اور پھر انسان کی پوری زندگی حقیقت کی غلامی میں بسر ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ خواب اور حقیقت کا مفہوم کیا ہے؟
زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زندگی جیسی ہے اس کو اسی طرح قبول کرلیا جائے۔ یہ رویہ اپنی نہاد میں ’’حقیقت پسندی‘‘ کا رویہ ہے۔ زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی کو پست خواہشات سے نجات دلاکر بلند تر تصورات سے ہم آہنگ کیا جائے اور اسے ایسا بنایا جائے جیسی کہ وہ ’’ہوسکتی‘‘ ہے۔ یعنی حقیقت ’’موجود پرستی‘‘ ہے اور خواب ’’ممکن پرستی‘‘۔ حقیقت پسند شخص زندگی کو جوں کا توں قبول کرلیتا ہے، مگر خواب دیکھنے والا زندگی کو بدل کر کچھ اور بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔
انسانی تاریخ میں انبیاء و مرسلین خواب دیکھنے والوں کی بلند ترین سطح کی علامت ہیں۔ انسانی تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کے راستے پر گامزن ہوگیا، اس نے کفر اور شرک اختیار کرلیا، وحی کا انکار کردیا، مذہب کے اخلاقی تصورات کی تکذیب کردی۔ نمرود حضرت ابراہیمؑ کے زمانے کی ’’حقیقت‘‘ تھا۔ اس کے پاس ملک تھا، حکومت تھی، رعایا تھی، اس کے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اس کے انکار کی جرأت کسی کو نہ ہوئی۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے عقائد اور اس کی طاقت کا انکار کردیا۔ نمرود حضرت ابراہیمؑ کی دلیل کے مقابلے پر اپنی دلیل لایا، اس نے کہا کہ تمہارا خدا اگر زندگی اور موت دیتا ہے تو اس میں بڑی بات کیا ہے! یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ میرا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو اسے ذرا مغرب سے نکال کر دکھا۔ حضرت ابراہیمؑ کے اس ایک فقرے نے نمرود کی جھوٹی خدائی کو پاش پاش کردیا۔ انہوں نے بتادیا کہ نمرود کی طاقت کے آگے سر جھکانے والے زندگی کے امکانات کے در بند کیے بیٹھے ہیں۔
بنی اسرائیل صدیوں سے فرعون کے غلام تھے اور ایسا لگتا تھا کہ ان کی غلامی دائمی ہے۔ فرعون کی طاقت بے پناہ تھی۔ اس کا کفر اور اس کا شرک ہی اُس دور کی سب سے بڑی حقیقت تھا، لیکن حضرت موسیٰؑ نے فرعون اور اس کی حقیقت کو چیلنج کیا۔ فرعون کو اپنے باطل کی حقیقت کا اتنا زعم تھا کہ وہ معجزے کے مقابلے پر جادو کو لے کر کھڑا ہوگیا، مگر معجزے نے جادو کو چند لمحوں میں شکست دے دی۔ تاہم فرعون نے شکست تسلیم نہ کی اور وہ اپنی تخلیق کردہ حقیقت پر اصرار کرتا رہا اور سمندر برد ہونے تک کرتا رہا۔ لیکن فرعون کی حقیقت تاریخ میں نشانِ عبرت بن کر رہ گئی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب کفر میں مبتلا تھے، شرک میں ملوث تھے، قبائل پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہ تھے، اور ایسا لگتا تھا کہ ان کا سفرِ حیات قیامت تک اسی طرح چلے گا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کفر اور شرک کی جگہ توحید نے لے لی، قبائل پرستی کو امت کے تصور نے موت کے گھاٹ اتار دیا، اور عرب آدھی سے زیادہ دنیا کے فاتح بن کر ابھرے۔ یہ اتنا بڑا تغیر تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے تو انہیں یقین نہیں آتا کہ وہ کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے ہم تو بکریاں چَرانے والے تھے، اور اسلام نے ہمیں جو کچھ بنادیا وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ خیر حضرت عمرؓ تو آزاد انسان تھے، حضرت بلالؓ تو ’’غلام‘‘ تھے، مگر ان کے بارے میں اقبال نے معرکہ آرا مصرعہ لکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے؎
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
یعنی سلطنتِ روما مٹ گئی اور آج کوئی اس کا نام لیوا نہیں ہے مگر حضرت بلالؓ آج بھی زندہ ہیں اور کروڑوں لوگ ان کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔ دنیا میں مذہب کے خواب سے وابستگی کا یہی صلہ ہے، اور آخرت کا صلہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے۔
غور کیا جائے تو مابعدالطبعیاتی سطح پر اسلام کا سب سے بڑا خواب اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ خواب اتنا بڑا ہے کہ دنیا کیا جنت بھی اس کے آگے ہیچ ہوجاتی ہے۔ اسلام کی تاریخ نے اگر اس خواب کو بسر کرنے والے لاکھوں لوگ پیدا نہ کیے ہوتے تو یہ خواب، خواب ہی رہتا اور اس کی تاثیر معمولی نوعیت کی ہوتی۔ مگر اسلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دنیا کو انسانِ کامل کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ ایسے صحابہ عطا کیے کہ جن میں سے ہر ایک آسمانِ ہدایت کا ستارہ تھا۔ اسلام نے لاکھوں کی تعداد میں وہ صوفی اور علما پیدا کیے جنہیں دیکھ کر صحابہ کرامؓ یاد آجاتے تھے۔ اسلام کا ایک بڑا خواب جنت ہے۔ جنت کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کی علامت ہے۔ اس کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی نا ختم ہونے والی زندگی، نعمتوں اور راحت کا استعارہ ہے۔ اور اسلام کے یہ خواب انسان میں اتنا بڑا تحرک پیدا کرتے ہیں کہ انسان کوئلے سے ہیرا اور مٹی سے سونا بن جاتا ہے۔
حقیقت یا حاضر و موجود کا انسان پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے، عصرِ حاضر میں اس کی ایک بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ سرسید نیت کی خرابی کا شکار نہ تھے مگر انگریزوں کا غلبہ اُن کے لیے ایک سیلاب بن گیا تھا جس میں سرسید کی پوری شخصیت ڈوب گئی تھی۔ سرسید دیکھتے تھے کہ انگریزوں کی سلطنت اتنی بڑی ہے کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ وہ دیکھتے تھے کہ انگریز ریل، بحری اور ہوائی جہاز پر سوار تھے اور ان چیزوں کی نوعیت ’’جادوئی‘‘ تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ مسلمانوں نے انگریزوں کی مزاحمت کی اور ہار گئے۔ اس صورت حال سے سرسید نے تین نتائج نکالے، ایک یہ کہ انگریز ’’حق‘‘ ہیں کیونکہ اگر وہ حق نہ ہوتے تو انہیں غلبہ کیوں حاصل ہوتا؟ سرسید نے انگریز کے غلبے سے دوسرا نتیجہ یہ نکالا کہ انگریز آگئے ہیں اور اب وہ قیامت تک جانے والے نہیں، چنانچہ مسلمانوں کے پاس اس سے بہتر امکان نہیں کہ وہ انگریزوں کے سچے خدمت گار بن کر رہیں۔ سرسید نے اس صورت حال میں تیسرا نتیجہ یہ نکالا کہ مسلمانوں کی ہر چیز میں نقص ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا وہ حال کیوں ہوتا جو ہوا؟ اس خیال کے تحت سرسید نے جنت اور دوزخ کے خارجی وجود کا انکار کیا۔ انہوں نے فرشتوں کے بارے میں کہا کہ یہ انسان کی باطنی قوتیں ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے پورے تفسیری علم کو مسترد کردیا۔ سرسید کی شخصیت اور فکر کا یہ پورا منظرنامہ صرف ایک چیز کے دبائو کا نتیجہ تھا… ’’حقیقت‘‘ کے دبائو کا۔
سرسید کے برعکس معاملہ اکبر الہٰ آبادی کا تھا۔ اکبر انگریزوں کے غلبے کے منکر نہ تھے۔ وہ جج تھے اور انگریزوںکے نظام کا حصہ تھے۔ انہیں انگریزوں کی مزاحمت کی کامیابی کا امکان کبھی نظر نہ آتا تھا، مگر ان کی روح آزاد تھی اور آزاد رہنا چاہتی تھی۔ اکبر کا دل جوان تھا اور جوان رہنا چاہتا تھا۔ اکبر کا ذہن خلّاق تھا اور خلّاق رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اکبر نے وہ شاعری کی جو ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں کا ایک بڑا تہذیبی سہارا بنی ہوئی تھی۔ اقبال کی تہذیبی شخصیت اکبر سے زیادہ توانا تھی، چنانچہ وہ اکبر سے زیادہ آزاد اور نام نہاد ’’حقیقت‘‘ کے زیادہ بڑے منکر تھے۔ ان کا یہ انکار ان کے ’’خواب‘‘ کی عطا تھا۔ اقبال کو یقین تھا کہ امتِ مسلمہ اپنی ماضی کی عظمت کو ایک بار پھر بازیافت کرے گی۔ اسی خواب نے اقبال کو شاعری کی وہ سلطنت عطا کی جس کو ہماری روایت میں جزویست پیغمبری کہا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے خواب نے وہ علمِ کلام پیدا کیا جس کی تخلیق پر علما کی ایک پوری نسل قادر نہ ہوسکی۔ مولانا نے کوئی بھی نئی بات کہے بغیر ہر پرانی بات کو نیا بناکر رکھ دیا۔ وہ نہ مغرب کے غلبے سے متاثر ہوئے، نہ کمیونزم کی بالادستی نے انہیں مرعوب کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی فکری اور عملی عسرت کی سرزمین پر کھڑے ہوکر اقبال کے امکانات میں نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرکے دکھائے۔ تجزیہ کیا جائے تو اقبال اور مولانا مودودی کی ساری قوت ان کے خواب میں تھی۔ اقبال حاضر و موجود کو قبول کرلیتے تو استاد داغؔ یا ان سے کچھ بڑے شاعر ہوتے۔ مولانا حقیقت کے آگے سپر ڈال دیتے تو زیادہ سے زیادہ کسی بڑے مدرسے کے شیخ یا مہتمم ہوتے۔
انسانی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر صرف دو ریاستیں قائم ہوئی ہیں: ریاست مدینہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ لیکن جب پاکستان بن رہا تھا تو اُس وقت کی حقیقت اسلام نہیں ’’قومیت‘‘ تھی، ’’سوشلزم‘‘ تھا۔ مگر برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کی بنیاد پر ایک نئے ملک کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ جنون تھا اور بظاہر اس کا عملی صورت اختیار کرنا ناممکن تھا۔ مگر قائداعظم محمد علی جناح کو یقین تھا کہ یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔ چنانچہ وہ برصغیر کے طول و عرض میں ایک بڑا نظریاتی خواب فروخت کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے ان کو بہت ڈرایا کہ اس خواب کے ’’گاہک‘‘ نہیں ملیں گے، مگر قائداعظم اپنے خواب کو سینے سے لگائے آگے بڑھتے رہے اور بالآخر دنیا نے دیکھا کہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کی عظیم اکثریت اس خواب کی گاہک ہی نہیں اس کی عاشق بن گئی اور تاریخ بدل کر رہ گئی۔
کارل مارکس ایک باطل پرست تھا، مگر اس کی آنکھوں میں بھی ایک خواب تھا۔ چنانچہ اس نے معاشرے، تاریخ، تہذیب، یہاں تک کہ مذہب کے حاضر و موجود کو بھی مسترد کردیا۔ مارکس باطل پر کھڑا تھا مگر اُس کے پاس خواب بھی تھا اور خواب کے ساتھ تعلق یا Commitment بھی تھا۔ چنانچہ اس کی فکری بنیاد پر روس میں انقلاب برپا ہوکر رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا سوشلزم کے زیراثر آگئی۔ مارکس کی فکر باطل سے نمودار ہوئی تھی اس لیے اس میں ایک ہولناک خون آشامی تھی اور سوشلسٹ انقلاب کی عمر طویل نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ سوشلزم صرف 70 سال میں اس دنیا سے اس طرح فنا ہوگیا جیسے وہ کبھی دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خواب کی قوت کا مرکز کہاں واقع ہے؟
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ خواب کی اصل قوت یہ ہے کہ خواب ’’حاضر و موجود‘‘ کے ’’معمولی پن‘‘ اور اپنے ’’غیرمعمولی پن‘‘ کو مجسم کردیتا ہے۔ مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو خواب ’’ماورا‘‘ کی علامت بن کر سامنے آتا ہے اور وہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تیرا تعلق جتنا زمین سے ہے اس سے کہیں زیادہ آسمان سے ہے۔ حاضر و موجود انسان کے خارج کو انسان سے زیادہ اہم بنادیتا ہے۔ خواب انسان کو بتاتا ہے کہ جو کچھ ہے تیرے اندر ہے۔ اس طرح خواب انسان کی قوت کو خارج سے اس کے باطن میں منتقل کردیتا ہے۔ پھر انسان ماحول سے اثر قبول کرنے والے کے بجائے اس پر اثرانداز ہونے والا بن جاتا ہے۔
انسانی تاریخ میں انبیاء و مرسلین خواب دیکھنے والوں کی بلند ترین سطح کی علامت ہیں۔ انسانی تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کے راستے پر گامزن ہوگیا، اس نے کفر اور شرک اختیار کرلیا، وحی کا انکار کردیا، مذہب کے اخلاقی تصورات کی تکذیب کردی۔ نمرود حضرت ابراہیمؑ کے زمانے کی ’’حقیقت‘‘ تھا۔ اس کے پاس ملک تھا، حکومت تھی، رعایا تھی، اس کے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اس کے انکار کی جرأت کسی کو نہ ہوئی۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے عقائد اور اس کی طاقت کا انکار کردیا۔ نمرود حضرت ابراہیمؑ کی دلیل کے مقابلے پر اپنی دلیل لایا، اس نے کہا کہ تمہارا خدا اگر زندگی اور موت دیتا ہے تو اس میں بڑی بات کیا ہے! یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ میرا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو اسے ذرا مغرب سے نکال کر دکھا۔ حضرت ابراہیمؑ کے اس ایک فقرے نے نمرود کی جھوٹی خدائی کو پاش پاش کردیا۔ انہوں نے بتادیا کہ نمرود کی طاقت کے آگے سر جھکانے والے زندگی کے امکانات کے در بند کیے بیٹھے ہیں۔
بنی اسرائیل صدیوں سے فرعون کے غلام تھے اور ایسا لگتا تھا کہ ان کی غلامی دائمی ہے۔ فرعون کی طاقت بے پناہ تھی۔ اس کا کفر اور اس کا شرک ہی اُس دور کی سب سے بڑی حقیقت تھا، لیکن حضرت موسیٰؑ نے فرعون اور اس کی حقیقت کو چیلنج کیا۔ فرعون کو اپنے باطل کی حقیقت کا اتنا زعم تھا کہ وہ معجزے کے مقابلے پر جادو کو لے کر کھڑا ہوگیا، مگر معجزے نے جادو کو چند لمحوں میں شکست دے دی۔ تاہم فرعون نے شکست تسلیم نہ کی اور وہ اپنی تخلیق کردہ حقیقت پر اصرار کرتا رہا اور سمندر برد ہونے تک کرتا رہا۔ لیکن فرعون کی حقیقت تاریخ میں نشانِ عبرت بن کر رہ گئی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب کفر میں مبتلا تھے، شرک میں ملوث تھے، قبائل پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے لیے تیار نہ تھے، اور ایسا لگتا تھا کہ ان کا سفرِ حیات قیامت تک اسی طرح چلے گا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کفر اور شرک کی جگہ توحید نے لے لی، قبائل پرستی کو امت کے تصور نے موت کے گھاٹ اتار دیا، اور عرب آدھی سے زیادہ دنیا کے فاتح بن کر ابھرے۔ یہ اتنا بڑا تغیر تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے تو انہیں یقین نہیں آتا کہ وہ کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے ہم تو بکریاں چَرانے والے تھے، اور اسلام نے ہمیں جو کچھ بنادیا وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ خیر حضرت عمرؓ تو آزاد انسان تھے، حضرت بلالؓ تو ’’غلام‘‘ تھے، مگر ان کے بارے میں اقبال نے معرکہ آرا مصرعہ لکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے؎
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
یعنی سلطنتِ روما مٹ گئی اور آج کوئی اس کا نام لیوا نہیں ہے مگر حضرت بلالؓ آج بھی زندہ ہیں اور کروڑوں لوگ ان کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔ دنیا میں مذہب کے خواب سے وابستگی کا یہی صلہ ہے، اور آخرت کا صلہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے۔
غور کیا جائے تو مابعدالطبعیاتی سطح پر اسلام کا سب سے بڑا خواب اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ خواب اتنا بڑا ہے کہ دنیا کیا جنت بھی اس کے آگے ہیچ ہوجاتی ہے۔ اسلام کی تاریخ نے اگر اس خواب کو بسر کرنے والے لاکھوں لوگ پیدا نہ کیے ہوتے تو یہ خواب، خواب ہی رہتا اور اس کی تاثیر معمولی نوعیت کی ہوتی۔ مگر اسلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دنیا کو انسانِ کامل کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ ایسے صحابہ عطا کیے کہ جن میں سے ہر ایک آسمانِ ہدایت کا ستارہ تھا۔ اسلام نے لاکھوں کی تعداد میں وہ صوفی اور علما پیدا کیے جنہیں دیکھ کر صحابہ کرامؓ یاد آجاتے تھے۔ اسلام کا ایک بڑا خواب جنت ہے۔ جنت کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کی علامت ہے۔ اس کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی نا ختم ہونے والی زندگی، نعمتوں اور راحت کا استعارہ ہے۔ اور اسلام کے یہ خواب انسان میں اتنا بڑا تحرک پیدا کرتے ہیں کہ انسان کوئلے سے ہیرا اور مٹی سے سونا بن جاتا ہے۔
حقیقت یا حاضر و موجود کا انسان پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے، عصرِ حاضر میں اس کی ایک بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ سرسید نیت کی خرابی کا شکار نہ تھے مگر انگریزوں کا غلبہ اُن کے لیے ایک سیلاب بن گیا تھا جس میں سرسید کی پوری شخصیت ڈوب گئی تھی۔ سرسید دیکھتے تھے کہ انگریزوں کی سلطنت اتنی بڑی ہے کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ وہ دیکھتے تھے کہ انگریز ریل، بحری اور ہوائی جہاز پر سوار تھے اور ان چیزوں کی نوعیت ’’جادوئی‘‘ تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ مسلمانوں نے انگریزوں کی مزاحمت کی اور ہار گئے۔ اس صورت حال سے سرسید نے تین نتائج نکالے، ایک یہ کہ انگریز ’’حق‘‘ ہیں کیونکہ اگر وہ حق نہ ہوتے تو انہیں غلبہ کیوں حاصل ہوتا؟ سرسید نے انگریز کے غلبے سے دوسرا نتیجہ یہ نکالا کہ انگریز آگئے ہیں اور اب وہ قیامت تک جانے والے نہیں، چنانچہ مسلمانوں کے پاس اس سے بہتر امکان نہیں کہ وہ انگریزوں کے سچے خدمت گار بن کر رہیں۔ سرسید نے اس صورت حال میں تیسرا نتیجہ یہ نکالا کہ مسلمانوں کی ہر چیز میں نقص ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا وہ حال کیوں ہوتا جو ہوا؟ اس خیال کے تحت سرسید نے جنت اور دوزخ کے خارجی وجود کا انکار کیا۔ انہوں نے فرشتوں کے بارے میں کہا کہ یہ انسان کی باطنی قوتیں ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے پورے تفسیری علم کو مسترد کردیا۔ سرسید کی شخصیت اور فکر کا یہ پورا منظرنامہ صرف ایک چیز کے دبائو کا نتیجہ تھا… ’’حقیقت‘‘ کے دبائو کا۔
سرسید کے برعکس معاملہ اکبر الہٰ آبادی کا تھا۔ اکبر انگریزوں کے غلبے کے منکر نہ تھے۔ وہ جج تھے اور انگریزوںکے نظام کا حصہ تھے۔ انہیں انگریزوں کی مزاحمت کی کامیابی کا امکان کبھی نظر نہ آتا تھا، مگر ان کی روح آزاد تھی اور آزاد رہنا چاہتی تھی۔ اکبر کا دل جوان تھا اور جوان رہنا چاہتا تھا۔ اکبر کا ذہن خلّاق تھا اور خلّاق رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اکبر نے وہ شاعری کی جو ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں کا ایک بڑا تہذیبی سہارا بنی ہوئی تھی۔ اقبال کی تہذیبی شخصیت اکبر سے زیادہ توانا تھی، چنانچہ وہ اکبر سے زیادہ آزاد اور نام نہاد ’’حقیقت‘‘ کے زیادہ بڑے منکر تھے۔ ان کا یہ انکار ان کے ’’خواب‘‘ کی عطا تھا۔ اقبال کو یقین تھا کہ امتِ مسلمہ اپنی ماضی کی عظمت کو ایک بار پھر بازیافت کرے گی۔ اسی خواب نے اقبال کو شاعری کی وہ سلطنت عطا کی جس کو ہماری روایت میں جزویست پیغمبری کہا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے خواب نے وہ علمِ کلام پیدا کیا جس کی تخلیق پر علما کی ایک پوری نسل قادر نہ ہوسکی۔ مولانا نے کوئی بھی نئی بات کہے بغیر ہر پرانی بات کو نیا بناکر رکھ دیا۔ وہ نہ مغرب کے غلبے سے متاثر ہوئے، نہ کمیونزم کی بالادستی نے انہیں مرعوب کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی فکری اور عملی عسرت کی سرزمین پر کھڑے ہوکر اقبال کے امکانات میں نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرکے دکھائے۔ تجزیہ کیا جائے تو اقبال اور مولانا مودودی کی ساری قوت ان کے خواب میں تھی۔ اقبال حاضر و موجود کو قبول کرلیتے تو استاد داغؔ یا ان سے کچھ بڑے شاعر ہوتے۔ مولانا حقیقت کے آگے سپر ڈال دیتے تو زیادہ سے زیادہ کسی بڑے مدرسے کے شیخ یا مہتمم ہوتے۔
انسانی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر صرف دو ریاستیں قائم ہوئی ہیں: ریاست مدینہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ لیکن جب پاکستان بن رہا تھا تو اُس وقت کی حقیقت اسلام نہیں ’’قومیت‘‘ تھی، ’’سوشلزم‘‘ تھا۔ مگر برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اسلام کی بنیاد پر ایک نئے ملک کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ جنون تھا اور بظاہر اس کا عملی صورت اختیار کرنا ناممکن تھا۔ مگر قائداعظم محمد علی جناح کو یقین تھا کہ یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔ چنانچہ وہ برصغیر کے طول و عرض میں ایک بڑا نظریاتی خواب فروخت کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے ان کو بہت ڈرایا کہ اس خواب کے ’’گاہک‘‘ نہیں ملیں گے، مگر قائداعظم اپنے خواب کو سینے سے لگائے آگے بڑھتے رہے اور بالآخر دنیا نے دیکھا کہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کی عظیم اکثریت اس خواب کی گاہک ہی نہیں اس کی عاشق بن گئی اور تاریخ بدل کر رہ گئی۔
کارل مارکس ایک باطل پرست تھا، مگر اس کی آنکھوں میں بھی ایک خواب تھا۔ چنانچہ اس نے معاشرے، تاریخ، تہذیب، یہاں تک کہ مذہب کے حاضر و موجود کو بھی مسترد کردیا۔ مارکس باطل پر کھڑا تھا مگر اُس کے پاس خواب بھی تھا اور خواب کے ساتھ تعلق یا Commitment بھی تھا۔ چنانچہ اس کی فکری بنیاد پر روس میں انقلاب برپا ہوکر رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا سوشلزم کے زیراثر آگئی۔ مارکس کی فکر باطل سے نمودار ہوئی تھی اس لیے اس میں ایک ہولناک خون آشامی تھی اور سوشلسٹ انقلاب کی عمر طویل نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ سوشلزم صرف 70 سال میں اس دنیا سے اس طرح فنا ہوگیا جیسے وہ کبھی دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خواب کی قوت کا مرکز کہاں واقع ہے؟
اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ خواب کی اصل قوت یہ ہے کہ خواب ’’حاضر و موجود‘‘ کے ’’معمولی پن‘‘ اور اپنے ’’غیرمعمولی پن‘‘ کو مجسم کردیتا ہے۔ مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو خواب ’’ماورا‘‘ کی علامت بن کر سامنے آتا ہے اور وہ انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تیرا تعلق جتنا زمین سے ہے اس سے کہیں زیادہ آسمان سے ہے۔ حاضر و موجود انسان کے خارج کو انسان سے زیادہ اہم بنادیتا ہے۔ خواب انسان کو بتاتا ہے کہ جو کچھ ہے تیرے اندر ہے۔ اس طرح خواب انسان کی قوت کو خارج سے اس کے باطن میں منتقل کردیتا ہے۔ پھر انسان ماحول سے اثر قبول کرنے والے کے بجائے اس پر اثرانداز ہونے والا بن جاتا ہے۔