میاں نواز شریف کے کئی المیوں میں سے ایک المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے ہر مرحلے پر اپنی ’’کمپنی‘‘ کے حوالے سے پہچانے گئے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کی پہچان جنرل ضیا الحق، جنرل جیلانی اور جنرل حمید گل تھے۔ مذہبی تشخص کے دائرے میں ان کی پہچان علامہ طاہر القادری تھے جن سے میاں صاحب معصومیت کے ساتھ پوچھا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کہیں امام مہدی تو نہیں؟ اب خیر سے میاں صاحب نظریاتی عرف سیکولر اور لبرل ہوگئے ہیں۔ مگر اس وقت بھی ان کی شناخت کا تعین کچھ اور حوالوں سے ہورہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کا تشخص امریکا کا ہے۔ علاقائی سطح پر وہ مودی کے حوالے سے پہچانے جارہے ہیں۔ قومی سطح پر ان کا تشخص مذہب بیزار سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کے حوالے سے متعین ہورہا ہے۔ اصول ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ میاں صاحب کے ’’فرشتوں‘‘ میں ایک فرشتہ معروف کالم نگار عطا الحق قاسمی بھی ہیں۔ ملک کے معروف مورخ اور سابق بیورو کریٹ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے ایک حالیہ کالم میں میاں صاحب کے فرشتوں کو میاں صاحب کے نظریاتی انحرافات کا ذمے دار قرار دیا تو عطا الحق قاسمی نے 13 جنوری 2017ء کے جنگ میں ڈاکٹر صفدر محمود کے کالم کا جواب تحریر فرمایا۔
’’تاریخ پاکستان کی تین شخصیات ایسی ہیں، جن کا میں عاشق ہوں۔ ان میں پہلے دو نام قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال ہیں اور تیسرا نام مولانا حسرت موہانی کا ہے۔ قائد اعظم کے اقوال اور اعمال میں مجھے پاکستان کی وہ ’’نظریاتی اساس‘‘ دکھا دی جائے جس کا ذکر ہم ایک عرصے سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ ان سے زیادہ لبرل رہنما ہماری پوری تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ میں ان کے حوالے سے بہت سی باتیں ’’گول‘‘ کررہا ہوں کہ ایک چیز ’’خوف فساد خلق‘‘ بھی ہے جو آج سوچنے سمجھنے والے طبقے کو گونگا بنائے ہوئے ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کو لے لیجیے، پاکستان کی اصل نظریاتی اساس تلاش کرنا ہو تو وہ ان کے خطبات میں آپ کو ملے گی جس میں وہ پارلیمنٹ کو اجتہاد تک کا حق بھی دیتے ہیں اور جہاں تک مولانا حسرت موہانی کا تعلق ہے وہ خود کو کھلم کھلا سوشلسٹ کہتے تھے اور گیارہویں کی نیاز بھی دیتے تھے۔ قائد اعظم کو حسرت موہانی اتنے عزیز تھے کہ ان کی کڑوی سے کڑوی بات بھی پوری توجہ اور تحمل سے سنتے تھے‘‘۔
عطا الحق قاسمی کے کالم کا یہ اقتباس پڑھ کر کسی عام شخص کو خیال آسکتا ہے کہ عطا الحق قاسمی نے اقبال، قائد اعظم اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ اپنے ’’عشق‘‘ کا اظہار کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عطا الحق قاسمی نے اپنے کالم میں اقبال، قائد اعظم اور مولانا حسرت موہانی کی ہولناک توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اقبال کا اصل تشخص ان کی شاعری ہے۔ یہ شاعری تخلیق کا سمندر ہے۔ اس شاعری میں اقبال اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کو ایک ایک وحدت بنائے کھڑے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے سمندر کے مقابلے پر اقبال کے خطبات کی نوعیت ایک تالاب سے بھی کم ہے۔ مگر عطا الحق قاسمی اقبال کے سمندر کو نظر انداز کرکے ’’تالاب‘‘ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اقبال کی شاعری اور خطبات کا فرق کسی مزید وضاحت کا محتاج نہیں مگر عام لوگوں کی تفہیم کے لیے عرض ہے کہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری پر اب تک تقریباً چھ ہزار کتب لکھی جاچکی ہیں۔ اس کے برعکس خطبات پر لکھی جانے والی کتب کی تعداد ایک ڈیڑھ درجن سے زیادہ نہیں۔ مگر جس طرح مکھی خوبصورت اور وسیع حجم کو نظر انداز کرکے صرف زخم پر بیٹھتی ہے اسی طرح عطا الحق قاسمی اقبال کی شاعری کے ’’تاج محل‘‘ کو چھوڑ کر خطبات کی ’’جھونپڑی‘‘ میں جاگھسے ہیں۔ بلاشبہ اقبال کی شاعری کے مقابلے پر اقبال کے خطبات کچھ بھی نہیں مگر بدقسمتی سے عطا الحق قاسمی سے خطبات کا حق بھی ادا نہیں ہوا۔
اقبال کے خطبات میں بڑے بڑے فکری موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ خطبات میں شامل اقبال کے سات مضامین کے عنوانات یہ ہیں۔ (1) علم اور مذہبی مشاہدہ (2) مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفانہ معیار (3) خدا کا تصور اور دعا کا مفہوم (4) انسانی خودی، اس کی آزادی اور لافانیت (5) مسلم ثقافت کی روح (6) اسلام میں حرکت کا اصول (7) کیا مذہب ممکن ہے؟۔ مگر عطا الحق قاسمی کو اقبال کی اس کتاب میں جو جو چیز نظر آئی ہے اور وہ پارلیمنٹ اور اس کا حق اجتہاد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عطا الحق قاسمی نے آج تک خطبات نہیں پڑھے ہوں گے کیوں کہ خطبات عطا الحق قاسمی کیا ان کے فرشتوں کو بھی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ چناں چہ انہوں نے یہ بات بھی کسی سے سنی ہوگی کہ اقبال نے خطبات میں پارلیمنٹ کا ذکر کیا ہے اور اقبال پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے کے قائل تھے۔ لیکن اقبال جس ’’روحانی جمہوریت‘‘ کے قائل تھے اس کے زیر سایہ اگر کوئی پارلیمنٹ وجود میں آئی تو عطا الحق قاسمی کیا ان کے ’’عظیم رہنما‘‘ میاں نواز شریف کو بھی اس پارلیمنٹ کی دربانی میسر نہ آسکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کی پارلیمنٹ بھی شاہینوں کی پارلیمنٹ ہوگی مردار کھانے والے کرگسوں کی پارلیمنٹ نہیں ہوگی۔ اقبال نے صاف کہا ہے شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ عطا الحق قاسمی کا خیال ہے کہ پاکستان کی اصل نظریاتی اساس اقبال کے خطبات میں موجود ہے لیکن پاکستان کی نظریاتی اساس پارلیمنٹ نہیں اسلام ہے۔ پاکستان کا مطالبہ پارلیمنٹ میں کیا جاتا تو پاکستان قیامت تک وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے کہ پارلیمنٹ کا اصول اکثریت ہوتا اور ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کے پاس تھی۔ پاکستان جداگانہ تشخص یا دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا اور دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر میاں نواز شریف کے بد باطن مشیران دروغ گوئی کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اقبال کی کھلی توہین سے بھی گریزاں نہیں اور کیسے ہوں گے؟ جو لوگ اسلام کی توہین کرسکتے ہیں وہ اقبال کی توہین سے کیوں ڈریں گے؟۔
عطا الحق قاسمی نے مذکورہ بالا اقتباس کے ذریعے قائد اعظم کی توہین میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ عطا الحق قاسمی نے کہا ہے کہ قائد اعظم سے بڑا ’’لبرل‘‘ رہنما ہماری تاریخ میں کوئی نہیں ہوا۔ مگر وہ قائد اعظم کی تقاریر، بیانات اور انٹرویوز سے صرف ایک فقرہ ایسا نکال کر دکھائیں جس میں قائد اعظم نے خود کو سیکولر یا لبرل قرار دیا ہو۔ البتہ ہم عطا الحق قاسمی جیسے بدفطرت اور بدباطن افراد کو ایک منٹ میں ایسے 162 حوالے دکھا سکتے ہیں جن میں قائد اعظم نے اسلام، قرآن، سیرت طیبہ، شریعت، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر پاکستان کے تناظر میں گفتگو کی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف جتنے جڑ کٹے ہیں اتنے ہی جڑ کٹے ان کے مشیر اور صحافتی وکیل ہیں۔ عطا الحق قاسمی کو قائد اعظم کے اقوال اور اعمال میں پاکستان کی نظریاتی اساس نظر آتی ہے مگر وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں قائد اعظم کے حوالے سے بہت سی باتیں ’’گول‘‘ کررہا ہوں جن سے بقول ان کے ’’فساد خلق‘‘ پیدا ہو سکتا ہے۔ اقبال کی طرح قائد اعظم کے سلسلے میں بھی میاں نواز شریف کے صحافتی وکیل کی بدباطنی پوری طرح عیاں ہے۔ اقبال کے ضمن میں ان کی نظر ’’شاعری کے سمندر‘‘ کے بجائے ’’خطبات کے تالاب‘‘ پر مرکوز ہوئی اور قائد اعظم کے سلسلے میں ان کی وکالت کا یہ عالم ہے کہ وہ قائد اعظم کے ’’معروف افکار و افعال‘‘ کو نظر انداز کرکے ان باتوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جو نہ مستند ہیں نہ معروف بلکہ ان کی نوعیت ایسی ہے کہ خود عطا الحق قاسمی کو ان کے حوالے سے ’’فساد خلق‘‘ برپا ہونے کا ’’خوف‘‘ ہے۔ یہاں بھی عطا الحق قاسمی کی بدباطنی انہیں خوبصورت جسم کے بجائے زخم پر بیٹھنے اور تاج محل کے بجائے جھونپڑی میں مقیم ہونے پر مجبور کررہی ہے۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تو تاریخ کی نظر میں قائد اعظم کا سب سے بڑا اور سب سے اہم قول دو قومی نظریہ ہے اور دو قومی نظریہ اسلام پر اصرار ہے۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے جو قائد اعظم کا سب سے بڑا فعل پاکستان کی تخلیق ہے اس عمل کے سامنے خود قائد اعظم کے دوسرے ’’اعمال‘‘ کچھ بھی نہیں۔
میاں نواز شریف کے صحافتی وکیل کی بدباطنی مولانا حسرت موہانی کے سلسلے میں بھی پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ مولانا حسرت موہانی کی مذہبیت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں گیارہ حج کیے اور وہ بھی پیدل۔ حسرت حق گوئی کی علامت تھے۔ ان کے وجود کا خمیر درویشی سے اٹھا تھا۔ اردو ادب کی تاریخ انہیں رئیس المتغزلین کہہ کر پکارتی ہے۔ انہوں نے جیل میں چکی کی مشقت اور مشقِ سخن کو ہم معنی بنادیا تھا۔ مگر عطا الحق قاسمی کو حسرت کے حوالے سے کچھ یاد آیا تو صرف یہ کہ وہ سوشلزم سے متاثر تھے۔ اقبال نے بھی روس کے سوشلسٹ انقلاب کے حوالے سے کہا تھا۔
آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
مگر یہ سوشلسٹ انقلاب کے سلسلے میں اقبال کا ایسا ردعمل تھا جس کی اقبال کی فکر میں کومے کے برابر بھی اہمیت نہیں۔ اقبال کو بہت جلد روس کے سوشلسٹ انقلاب کی ’’اصلیت‘‘ معلوم ہوگئی۔ حسرت بہت حساس تھے اور انہیں ’’معاشی مساوات‘‘ کا اصول عزیز تھا۔ ان کا خیال تھا کہ روسی انقلاب معاشی مساوات کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابتدا میں سوشلسٹ انقلاب کی مذہب دشمنی عیاں نہیں تھی۔ ہوتی تو حسرت اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ مگر عطا الحق قاسمی وہ مخلوق ہیں جسے اگر خوشبو اور بدبو کے درمیان کھڑا کردیا جائے تو وہ ہر بار بدبو کی طرف بیٹھیں گے۔ عطا الحق قاسمی نے حسرت کے حوالے سے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ قائد اعظم پر بھی تنقید کرلیا کرتے تھے اور یہ بات درست ہے مگر اس بات کا میاں نواز شریف، ان کی جماعت اور میاں صاحب کے حواریوں سے کیا تعلق۔ میاں نواز شریف سے چودھری نثار نہیں سنبھل رہے تو ان سے کوئی حسرت موہانی کیا سنبھلتا۔ عدالت عظمیٰ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اس نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ یہ بھی ’’تنقید‘‘ ہی کی ایک صورت ہے۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کے صحافتی وکلا اس تنقید پر اتنے برہم ہیں کہ انہوں نے اپنے طور پر عدالت عظمیٰ کو زندہ دفن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایسے لوگوں کو حسرت اور ان کی تنقید یاد آرہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اقبال، قائد اعظم اور حسرت کا نام لینے سے بھی بالجبر روک دینا چاہیے۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ میاں صاحب کے مشیروں نے میاں صاحب کو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے دور کردیا ہے۔ عطا الحق قاسمی نے اس کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ صرف نواز شریف اور عطا الحق قاسمی کو نہیں احسن اقبال، سعد رفیق اور عرفان صدیقی کو بھی اس نظریاتی اساس سے دور کردیا ہے جس نے بقول ان کے جنرل ضیا کے دور میں ملائیت کی صورت اختیار کی۔ جس کے نتیجے میں اقلیتیں غیر محفوظ ہوئیں اور جس کی وجہ سے ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ عطا الحق قاسمی کو معلوم نہیں کہ ملائیت صرف اسلامی نہیں ہوتی۔ ملائیت سیکولر اور لبرل بھی ہوتی ہے بلکہ سیکولر اور لبرل ملائیت کے مقابلے پر اسلامی ملائیت بچوں کا کھیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچارے مذہبی ملاؤں کے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں ہے مگر سیکولر اور لبرل ملائیت تو اقتدار پر بھی قابض ہے اور اقتصادیات پر بھی۔ یہاں تک کہ ابلاغیات کے سارے ذرائع اس کی مٹھی میں ہیں۔ اس لبرل اور سیکولر ملائیت نے جنت جیسی دنیا کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ بے معنویت، بے سمتی، غربت، جہالت، بھوک، بیماریاں، قوموں کے درمیان رنجشیں اور جنگیں اس سیکولر اور لبرل ملائیت نے برپا کی ہوئی ہیں۔ مگر سیکولر اور لبرل ملائیت کے خلاف پروپیگنڈا تو درکنار اس کے خلاف آواز بلند کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ میاں نواز شریف اور عطا الحق قاسمی کو ملک میں اقلیتیں غیر محفوظ نظر آتی ہیں حالاں کہ وطن عزیز میں تو اکثریت کا بھی برا حال ہے۔ اکثریت کی حالت بدلے گی تو اقلیتیں بھی بہتر حالات میں زندگی بسر کریں گی۔ ویسے ہم نے آج تک اکثریت کے کسی نمائندے کو اقلیت کے خلاف شعوری طور پر سازش کرتے نہیں دیکھا۔ اقلیتوں کا حال دیکھنا ہو تو میاں صاحب اور ان کے بدباطن حواریوں کو ہندوستان میں 25 کروڑ مسلمانوں کا حال دیکھنا چاہیے۔ امریکا اور یورپ میں اسلامو فوبیا کو ملاحظہ کرنا چاہیے۔ فلسطین اور برما میں مسلمانوں کی حالت زار ملاحظہ کرنی چاہیے۔ مگر سیکولر اور لبرل ملائیت میں یہ اخلاقی جرأت کہاں کہ وہ سیکولر ازم اور لبرل ازم کے تخلیق کردہ جہنم زاروں پر نظر ڈالے۔