پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ ایک ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا تھے جس میں جسم کے مختلف اعضاء یکے بعد دیگرے اپنا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جنرل پرویز کی مرضی کے بنا پاکستان میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا اور ایک وقت یہ تھا کہ وہ انتقال سے پہلے ایک پتا بھی نہیں ہلا سکتے تھے۔ جنرل پرویز جب تک زندہ رہے متنازع رہے۔ مرنے کے بعد بھی ان کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ سینیٹ میں جماعت اسلامی کے رہنما اور سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ کے اجلاس میں جنرل پرویز کے لیے دعا کرانے سے بجا طور پر انکار کر دیا۔
جنرل پرویز جنرل ایوب، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کا سایہ تھے۔ جنرل پرویز کے دو ہیروز تھے۔ اسلام دشمن مصطفی کمال پاشا اور جنرل ایوب۔ مصطفی کمال اور جنرل ایوب دونوں سیکولر تھے۔ جنرل پرویز مشرف بھی سیکولر تھے۔ جنرل یحییٰ شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ جنرل پرویز بھی ان دونوں دائروں میں بدنام تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف جنرل پرویز بھی قسمت کے دھنی تھے۔ بھٹو کے دور میں جنرل ضیا الحق سینئر موسٹ جنرل نہیں تھے۔ ان کے آرمی چیف بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ فوج میں جنرل ضیا الحق کی شہرت ایک مولانا کی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے انہیں اس خیال سے آرمی چیف بنا دیا کہ وہ سیاست میں دلچسپی نہیں لیں گے اور بھٹو صاحب کے لیے دردِ سر نہیں بنیں گے۔ مگر بالآخر جنرل ضیا الحق نے پہلے بھٹو کا دھڑن تختہ کیا اور وہ انہیں پھانسی کے پھندے تک لے گئے۔ جنرل پرویز بھی فوج میں سینئر موسٹ جنرل نہیں تھے۔ ان کے بھی آرمی چیف بننے کا اور دور تک کوئی امکان نہ تھا مگر میاں نواز شریف کو ایسے آرمی چیف کی تلاش تھی جو ان کے لیے مسائل کھڑے نہ کرے جنرل پرویز کے بارے میں میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ وہ مہاجر ہیں چنانچہ ان کی فوج میں کوئی لابی نہیں ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے جنرل پرویز کو آرمی چیف بنا دیا۔ لیکن بالآخر جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو کھٹمنڈو سے پاکستان آرہے تھے کے میاں نواز شریف نے انہیں برطرف کر کے جنرل ضیا الدین بٹ کو پاک فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔ بعد ازاں میاں صاحب نے جنرل پرویز کے طیارے کو فضا ہی میں اغوا کر لیا۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں لینڈ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جنرل پرویز کے طیارے کے پائلٹ کو حکم دیا گیا کہ وہ طیارے کو کسی خلیجی ملک میں اُتار دے۔ لیکن طیارے میں اتنا ایندھن نہیں تھا۔ قصہ کوتاہ فوج نے میاں نواز شریف کے خلاف بغاوت کر دی۔ فوج نے وزیراعظم ہائوس پی ٹی وی اور کراچی کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت کراچی کے کور کمانڈر جنرل عثمانی تھے۔ انہوں نے فضا میں موجود جنرل پرویز کو پیغام دیا کے کراچی کا ہوائی اڈا آپ کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ چنانچہ جنرل پرویز کا طیارہ کراچی کے ہوائی اڈے پر اتر گیا۔ جنرل پرویز طیارے سے باہر نکلے تو جنرل عثمانی نے ان کا استقبال کیا اور کہا “Sir you are number one” وہ رات جنرل پرویز نے کراچی میں بسر کی اور وہیں سے انہوں نے قوم سے خطاب کیا۔ جنرل پرویز نے اپنے خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ جس طرح انہیں برطرف کیا گیا اس طرح تو کسی کلرک کو بھی برطرف نہیں کیا جاتا۔ جنرل پرویز کے حکم پر میاں نواز شریف اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔ میاں نواز شریف کے خلاف آرمی چیف کے طیارے کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا۔
جنرل پرویز مشرف کی پہلی پریس کانفرنس بڑی جان دار تھی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اب سب کا احتساب ہو گا۔ کسی صحافی نے سوال کیا کہ کیا فوج، عدلیہ اور پریس کا بھی احتساب ہو گا۔ جنرل پرویز نے کہا کہ احتساب سے کوئی بالاتر نہیں۔ لیکن ابھی انہیں اقتدار میں آئے ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ جنرل پرویز احتساب کے وعدے سے مکر گئے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو احتساب کی ضرورت نہیں کیونکہ فوج میں داخلی احتساب کا ایک پورا نظام موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدلیہ کا احتساب کریں گے تو یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ہم عدلیہ کو دبائو میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے پریس کا احتساب کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ احتساب آزادیٔ اظہار کے اصول کے خلاف ہوگا۔
جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق کے مارشل کی پشت پر امریکا موجود تھا مگر جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا اچانک لگا تھا۔ چنانچہ امریکا نے جنرل پرویز کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ امریکا کے صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے تو جنرل پرویز نے انہیں پاکستان لانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیے۔ مگر کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت منت سماجت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے تک محدود رہیں گے اور وہیں سے پاکستانی قوم سے خطاب فرما لیں گے۔ یہی ہوا بھی۔ لیکن نائن الیون نے جنرل پرویز مشرف کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا۔ چند گھنٹوں میں پاکستان امریکا کے لیے بہت اہم ہو گیا۔ نائن الیون کی رات کو جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکا کے نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرماٹیج نے جنرل پرویز مشرف کو فون کیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے امریکا کی وار آن ٹیرر میں امریکا کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان پر اتنی بمباری کی جائے گی کہ اسے پتھر کے دور میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ رچرڈ آرماٹیج نے اس خیال کے تحت سات مطالبات جنرل پرویز کے سامنے رکھے کہ جنرل پرویز ان میں سے تین چار مطالبات ہی تسلیم کریں گے مگر جنرل پرویز نے ساتوں کے سات مطالبات تسلیم کر لیے۔ یہ صورت حال پاکستانی جرنیلوں کی روایت کے عین مطابق تھی۔ پاکستانی جرنیلوںکی روایت یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں اور بھارت اور امریکا کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ جنرل پرویز کے ہیرو جنرل ایوب نے تو امریکا کو بڈھ بیر کا ہوائی اڈا دیا تھا جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی امریکا کے تابع کر دی۔ انہوں نے ملک کے تین ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے۔ انہوں نے ملک کی بندرگاہ امریکا کو سونپ دی۔ انہوں نے عرب اور افغان مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور جنرل پرویز کے اپنے اعتراف کے مطابق اس عمل سے لاکھوں ڈالر کمائے۔ انہوں نے پاک فوج کو مکمل طور پر کرائے کی فوج بنا دیا۔
سب سے بدترین بات یہ ہوئی کہ جنرل پرویز کی امریکا پرستی کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جو چند برسوں میں 75 ہزار افراد کو نگل گئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل پرویز نے امریکا کی وار آن ٹیرر میں شامل ہو کر 30 ارب ڈالر کمائے لیکن یہ بات کہنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ جنرل پرویز نے امریکا کا اتحادی بن کر ملک کا 120 ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ جنرل پرویز کا ایک وقت وہ تھا جب امریکا کا صدر ان کے دور میں پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا اور پھر ایک دور وہ آیا جب جنرل پرویز مشرف پوری مغربی دنیا کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کو ’’آمر‘‘ کہنا بند کر دیا۔ اس کے برعکس نہیں ایک ’’مدبر‘‘ کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ وہ اسرائیل کے صدر تک کو اتنا عزیز ہو گئے کہ اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کرتا۔ جس زمانے میں جنرل پرویز مشرف امریکا پرستی کی انتہائوں کو چھو رہے تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے انٹرویو کے حوالے سے ملاقات ہوئی تو وہ جنرل پرویز کے لیے پرخلوص جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ پاکستان پر منڈلاتی ہوئی ایک بہت بڑی بلا کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ جنرل پرویز مشرف جو کچھ کر رہے ہیں وہ امریکا کی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا نعرہ ہے سب سے پہلے پاکستان۔ لیکن اس کا مطلب ہے سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف یا سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ۔ جنرل حمید گل نے اس وقت ہماری رائے سے اتفاق نہیں کیا مگر بعد میں وہ وہی کچھ کہتے نظر آئے جو ہم نے ان سے عرض کیا تھا۔
جنرل پرویز کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ کارگل تھا۔ یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس میں ہزاروں بھارتی فوجی پاکستانی فوج کے محاصرے میں آگئے تھے۔ اس صورت میں ان کے سامنے دو ہی امکانات تھے، یا تو وہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں یا بھوک اور سردی سے مر جائیں اس لیے کہ پاکستان نے ان کی سپلائی لائن مکمل طو رپر کاٹ دی تھی۔ اس تناظر میں جنرل پرویز مشرف بجا طور پر ’’کاگل کے ہیرو‘‘ بن کر ابھرے تھے مگر کارگل کا یہ ہیرو بہت جلد بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا نظر آیا۔ امریکا کے دبائو پر انہیں بھارت سے مذاکرات کی بھیک ملی مگر جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے روایتی اور اصولی موقف کے پرخچے اڑا دیے۔ اس صورت حال پر دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی اور عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے بڑی رعونت کہا کہ میرے ساتھ امریکا کا صدر جارج اور برطانیہ کا وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہے۔ اس پر گیلانی صاحب نے کہا آپ کے ساتھ صدر جارج بش اور ٹونی بلیئر ہے تو ہمارے ساتھ اللہ ہے۔ جنرل پرویز کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ ایک بیان میں انہوں نے علی گیلانی کو پاگل بھی قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کو وار آن ٹیرر میں شرکت کا جواز یہ پیش کیا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا دفاع کر لیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کر دی ہے۔ مگر جنرل پرویز کی امریکا پرستی سے نہ مسئلہ کشمیر حل ہوا نہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہوا۔
پاکستان کی کہانی کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر قدیر نے پاکستان بچایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر قدیر قائداعظم کے بعد ملک کی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ظلم کی انتہا کر دی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر سے بزور طاقت یہ تسلیم کرایا کہ انہوں نے پاکستان کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی فروخت کر کے مال بنایا ہے۔ انہوں نے برسوں تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید تنہائی میں رکھا۔ انہیں اپنی بیٹیوں تک سے نہ ملنے دیا۔ انہوں نے’’محسن ِ پاکستان‘‘ کو ’’مجرم پاکستان‘‘ بنا کر کھڑا کر دیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ الطاف حسین نے بھارت میں بیٹھ کر یہ بات کہی کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے الطاف حسین کی اس ملک دشمنی کے باوجود جنرل پرویز نے دہلی میں موجود پاکستان کے سفارت خانے کو ہدایت کی کہ وہ الطاف حسین کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کرے۔ جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے وہ ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد اور بھتہ خور تنظیم کے سیاسی اتحادی رہے۔ پاکستانی جرنیلوں کا ایک ورثہ یہ ہے کہ انہوں نے ملک کے سیاست دانوں اور صحافیوں کو کرپٹ بنایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دس سالہ دور میں سیاست دانوں کے 200ارب روپے کے قرضے معاف کرائے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے نو سالہ دور میں 200 ارب روپے سے زیادہ کے قرضے معاف کرائے۔ جنرل پرویز ملک کے واحد جرنیل تھے جنہیں ملک کی عدالت نے غداری کے الزام کے تحت سزائے موت دی مگر اسٹیبلشمنٹ سے یہ سزا ہضم نہ ہوئی اور اس نے زیادہ بڑی عدالت سے یہ سزا ختم کرا دی مگر جنرل پرویز اب اللہ کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں اپنی ایک ایک بات کا حساب دینا ہو گا۔