ایک اخبار میں نہایت اہم اور دلچسپ موضوع پر تفصیلی فیچر شائع ہوا ہے۔ فیچر کا موضوع یہ ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی نصیحتوں اور مشوروں پر عمل نہیں کرتا ہے۔ فیچر میں اس حوالے سے پیش کی گئی مثالیں نہ صرف یہ کہ دلچسپ ہیں بلکہ ہم سب اپنے تجربے سے ان کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔ آج ہم اس فیچر کی تلخیص آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ تلخیص کے مندرجات کا تجزیہ بعد میں ہوگا ۔
فیچر کے سلسلے میں اپنے تاثرات دینے والے والدین نے شکایت کی ہے کہ اولاد ہماری نہیں سنتی۔ ہماری نصیحتوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ نقصان اُٹھانے کے بعد ہی سدھرتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ ان کا بیٹا بری صحبت میں پڑ گیا۔ انہوں نے لاکھ سمجھا یا مگر وہ اپنی روش بدلنے پر تیار نہ ہوا، پھر یوں ہوا کہ وہ بیروزگار ہو گئے اور حالات کی خرابی نے انہیں ایک دن دل کے دورے تک پہنچا دیا اور گھر میں دوا کے لیے بھی پیسے دستیاب نہ ہو سکے۔ بقول ان صاحب کے ایسے میں نہ جانے ان کے بیٹے کو خیال آیا کہ اس نے بری صحبت یکا یک چھوڑ دی اور سیلز مین بن گیا۔ بقول والد کے ان کا بیٹا اب سدھر گیا ہے، بات مانتا ہے اور من مانی نہیں کرتا۔
ڈاکٹروں اور حکیموں نے رائے دی ہے کہ اکثر مریض ان کے طبی مشوروں کو نہیں مانتے۔ پر ہیز کے بارے میں ڈاکٹروں کی ہدایات مریضوں کو زہرلگتی ہیں ، ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ مریضوں سے لاکھ کہیں کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے بغیر دوا استعمال نہیں کرنی مگر وہ سنتے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں 30 ہزار دوائیں دستیاب ہیں جو سب کی سب بڑے پیمانےپر فروخت ہوتی ہیں، حالانکہ پانچ سو دواؤں سے 90 فیصد امراض کا علاج ہو جاتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ خوراک ،صفائی اور پر ہیز کے بارے میں کوئی مریض مشکل ہی سے سنجیدہ ہوتا ہے۔ علمائے کرام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ معاشرے کی حالت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں اور پند و نصائح اور مشورے سب رائیگاں ہیں۔ ایک عالم دین نے شکوہ کیا ہے: ملک میں لاکھوں مساجد اور مدارس ہیں جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لاکھوں افراد گھر گھر تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں، لیکن معاشرے پر اس کا کوئی اثر ہی نظر نہیں آتا ۔
سماجی رہنماؤں اور اصلاحی تحریکوں سے وابستہ افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لاکھ کوشش کر لیں ، سوشل ورکرز کی نصیحتوں پر کوئی عمل نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے شہروں میں روزانہ 60 لاکھ ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے جس کا 40 فیصد کھلے علاقوں میں پڑا رہتا ہے۔
فیچر نگار نے معاشرتی منظر نامے سے مثالیں ہی پیش نہیں کیں بلکہ بعض دانشوروں سے تجزیاتی آراء بھی حاصل کی ہیں۔ مثلاً ممتاز ڈرامہ نگار اشفاق احمد نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ہم مشوروں اور نصیحتوں کے سیلاب میں زندہ ہیں، ذرائع ابلاغ سے روزانہ لاکھوں مشورے ہم تک پہنچ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگ تجربے سے بھی نہیں سیکھتے کیونکہ تجربے کا زمانہ گزر چکاہے۔ یہ ترغیب و تحریص کا زمانہ ہے۔ اشفاق احمد نے خیال ظاہر کیا کہ لوگ مشوروں اور نصیحتوں پر عمل کریں یا نہ کریں مگر ان کی اہمیت اور افادیت باقی رہے گی۔ پروفیسر مسکین حجازی نے رائے دی ہے کہ کہنے والے کا اپنا عمل اگر کھوٹا ہو تو اس کی بات کا کسی پر اثر نہیں ہوگا۔ یہ تجزیے اہم ہیں ۔ قول و فعل کا تضاد ہر دور میں بات کو غیر مؤثر بنا تا رہا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم پر پیغامات کی یلغار ہو چکی ہے۔ یہ بات بھی ایک حد تک درست ہے کہ ترغیب و تحریص کو فی زمانہ بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے، لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ نفسیاتی ، جذباتی اور ذہنی عدم استحکام ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری حالت دھوبی کے کتے جیسی ہو گئی ہے۔ ہم گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔
داخلی آویزشوں نے ہر سطح پر معاشرے میں کارفرما ابلاغی نظام کے پرخچے اڑا دیے ہیں اور فرد کا فرد سے ابلاغ ناممکن ہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ابلاغ ہی نہیں ہو گا تو کسی پر کسی بات کے اثر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انسان کبھی پرندوں کی زبان بھی سمجھ سکتا تھا لیکن اب انسان انسان کی زبان نہیں سمجھتے۔