خودپسندی بری بلا ہے۔ خودپسندی میں مبتلا انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پروین شاکر، احمد فراز اور فیض احمد فیض کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا مگر میر، غالب اور اقبال کو سمجھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس سے منشی پریم چند، کرشن چندر اور منٹو نہیں سنبھلتے مگر وہ قرۃ العین حیدر کیا دوستو وسکی اور ٹالسٹائے کا ماہر بن کر گھوم رہا ہوتا ہے۔ ایاز امیر ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ ان کا سب سے بڑا دُکھ یہ ہے کہ پاکستان میں کوٹھے کا کلچر پچک اور بکھر کر رہ گیا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب آسانی اور فراوانی سے دستیاب نہیں۔ ہمیں ایاز امیر کے کوٹھے اور شراب سے دلچسپی سے کچھ لینا دینا نہیں مگر اس بنیاد پر اتنی سی بات تو کہی ہی جاسکتی ہے کہ جو شخص کوٹھے اور شراب سے بلند نہ ہوسکتا ہو اسے قیام پاکستان کا خدائی منصوبہ ہونا کیسے سمجھ میں آسکتا ہے۔ اسے یہ بات کیسے معلوم ہوسکتی ہے کہ پاکستان، پاکستان کیوں نہ بن سکا۔ ایسا شخص قائداعظم کو صحیح تناظر میں کیسے دیکھ سکتا ہے؟ بدقسمتی سے ان تمام حقائق کے باوجود ایاز امیر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستان اور اس کے خدائی منصوبہ ہونے کا مذاق اُڑایا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’پاکستان فلاں چیز کا قلعہ ہے۔ یہ ہم کب سے سنتے آئے ہیں۔ پاکستان کسی خاص مقصد کے لیے بنا تھا، یہ بھی ہم سنتے آئے ہیں اور اس سننے میں یہ ذکر بھی رہا کہ پاکستان کے بننے میں آسمانوں کا بھی حصہ ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ انسانی عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ میری خوش قسمتی کہ ایک دفعہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا لاہور میں ایک لیکچر سنا جس میں انہوں نے کہا کہ ہماری گلیکسی، جو کہ ملکی وے ہے، میں ایک بلین سے زیادہ ستارے ہیں اور زمین سے نزدیک ترین ستارہ اتنا دور ہے کہ آج کل کے خلائی جہازوں کو اُن کی موجودہ رفتار پر 80 ہزار سال لگیں وہاں پہنچنے کے لیے۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ بلین کا پیمانہ درست نہیں، ستارے اس گلیکسی میں بلین کی گنتی سے زیادہ ہیں اور کائنات میں گلیکسیز کی گنتی بھی پتا نہیں کتنے بلین سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں جو ہمارے پسندیدہ افسانے ہیں اُن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ساری کائنات کو ایک طرف رکھ کر آسمانوں نے پاکستان کے بننے پر خصوصی توجہ فرمائی۔
میں کسی مبالغے کا مرتکب نہیں، پچھتر سال ہم ایسی باتیں ہی کرتے رہے ہیں۔ پھر جب آج کل کے حالات نظروں کے سامنے آتے ہیں لامحالہ خیال اٹھتا ہے کہ اتنی خصوصی توجہ اس منفرد قوم پر صرف کی گئی اور پھر بھی کچھ بات نہ بنی۔ ظاہر ہے آسمانوں پر تو انگلی اٹھائی نہیں جاسکتی، ناقص شاید ہمارے افسانے ہی تھے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بڑے بڑے جید عالم، سنجیدہ حضرات، جنہیں ہم بڑا سمجھتے آئے ہیں، وہ ایسے افسانے بیان کرتے رہے ہیں اور ان کی باتیں اتنی پُراثر ہوا کرتی تھیں کہ قوم اُن پر یقین لے آتی رہی ہے۔ ہم جیسے تو ناقص عقل کے مالک ہیں۔ آج تک ہمیں کئی چیزیں سمجھ نہیں آئیں۔ بہت سارے محرکات ہمیں سمجھ نہیں آتے۔ سچ پوچھیے تو یہاں تاریخ کے مطالعے پر پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ جتنی تاریخ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اُتنے کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔ کھل کربات کرنی یہاں دشوار ہے، سو نہیں کرتے۔ افسانوں پر اتنا اعتراض نہیں، قومیں ایسے افسانے گھڑتی آئی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس مشق کو ہم نے کچھ زیادہ ہی طوالت دے دی اور پھر یوں بھی ہوا کہ افسانوں پر ہی ہم گزارا کرتے رہے۔
نئے ملک کو تعمیر و ترقی کی ضرورت تھی۔ زبانیں مختلف تھیں، ثقافتیں مختلف تھیں، طور طریقے مختلف تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مختلف اجزا کو ایک قومی سوچ میں ڈھالا جائے۔ لیکن شروع دن سے ہمارے اکابرین نے یہ تسلیم کرنا گوارا نہ کیا کہ یہاں مختلف زبانیں اور ثقافتیں ہیں۔ نعرہ تو یہ تھا کہ ہم مخصوص نظریات کا قلعہ ہیں۔ جب ساری دلیل کی بنیاد یہ ہو تو پھر زبان اور ثقافت کی بنیاد پر فرق اور اُس فرق کا اظہار ممنوع سمجھا جانے لگتا ہے۔ یعنی آپ نے کسی فرق کی بات کی تو آپ پر تہمت لگ گئی کہ آپ پاکستان کے نظریے کے خلاف بات کررہے ہیں۔ بنگالیوں نے اپنی زبان کی بات کی، انہیں بُرا سمجھا گیا۔
قائداعظم کی ذات کو تو ایک طرف رکھیے، ان کی بات تو ویسے نہ مانی گئی۔ جو اپنی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ اپنے مندروں میں جائو، مسجدوں میں جائو، ریاست کے نظام اور کاروبار کا تعلق ان چیزوں سے نہیں، کیا ہمارے اکابرین نے اس نصیحت و تلقین پر کان دھرے؟‘‘
(روزنامہ دنیا۔ 15 فروری 2023ء)
ایاز امیر کے اس کالم کا عنوان ہے۔ ’’افسانے اور کہانیاں‘‘ یعنی ایاز امیر کے نزدیک پاکستان کا خدائی منصوبہ ہونا ایک افسانہ ہے۔ ایک کہانی ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایاز امیر کے نزدیک یہ بات بھی ایک افسانہ یا کہانی ہی تھی کہ پاکستان کا مقدر عظیم ریاست بن کر ابھرنا تھا۔ ایاز امیر کے لیے یہ بھی ایک افسانہ اور کہانی ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان اتنا اندھا، اتنا کم فہم اور اتنا سخت دل ہے کہ اس کے سامنے پیغمبر وقت کھڑا ہوتا ہے اور وہ اس پر ایمان نہیں لاتا۔ سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرتے رہتے مگر ان کی قوم ان پر ایمان نہ لائی۔ چناں چہ سیدنا نوحؑ نے قوم کے فنا ہونے کی دعا کی۔ قوم تو بڑی بات ہے سیدنا نوحؑ پر ان کا بیٹا تک ایمان نہ لایا۔ سیدنا لوطؑ پر ان کی بیوی تک ایمان نہ لائی۔ رسول اکرمؐ 13 سال تک مکے میں حق پیش کرتے رہے مگر صرف چند سو لوگ مسلمان ہوئے۔ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرکے اپنی سیاسی اور عسکری طاقت کو حقیقت بنا کر دکھادیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات پر کوئی سیکولر، لبرل، کوٹھے اور شراب کا رسیا کیسے ایمان لاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کا واقعہ حکمت الٰہیہ کا ایک مظہر تھا۔ اس سلسلے میں دلائل کی بھی کمی نہیں۔ اس سلسلے کی ایک دلیل یہ ہے کہ جس وقت مطالبۂ پاکستان سامنے آیا اس وقت عالمی سطح پر قومیں اپنا تشخص، نسل، جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر متعین کرتی تھیں مگر برصغیر کی ملت اسلامیہ نے کہا کہ میرا تشخص نسل، جغرافیے اور زبان سے نہیں میرے دین، میرے نظریے یا میرے اسلام سے متعین ہوتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں بروئے کار آنے والی ایک انوکھی دلیل تھی اور یہ دلیل یقینا ایاز امیر کے ’’آسمان‘‘ ہی نے برصغیر کے مسلمانوں کو سجھائی گئی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1940ء کی دہائی کا زمانہ دنیا میں ’’مذہبی ڈسکورس‘‘ کا زمانہ نہیں تھا۔ ایک طرف قوم پرستی تھی جو نسل، زبان اور جغرافیے کے سوا کچھ جانتی ہی نہیں تھی۔ دوسری طرف سوشلزم تھا جو ایک مذہب دشمن نظریہ تھا۔ اس دنیا میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے یا اسلام کی بنیاد پر ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو وقت کے دھارے کی مخالف سمت میں تیرنے کا عمل تھا۔ یہ عالمی تاریخ سے خود کو الگ کرلینے اور خود کو اسلامی تاریخ سے مربوط کرلینے کی ایک غیر معمولی کاوش تھی۔ اس عمل پر ’’آسمان‘‘ کے سائے کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب قائداعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کیا تو مولانا حسین احمد مدنی جیسے جید عالم دین نے اس کی مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ قومیں دین سے نہیں ’’اوطان‘‘ سے بنتی ہیں۔ اس پر اقبال نے ایک قطعے میں مولانا حسین احمد مدنی کی سخت گرفت کی اور کہا کہ مولانا رسول اکرمؐ کی حقیقت پر مطلع نہیں ہیں۔ مولانا مودودی نے بھی مولانا حسین احمد مدنی کے ایک قومی نظریے سے سخت اختلاف کیا۔ مولانا نے تاریخ کے اس مرحلے پر دو قومی نظریے کی تشریح و تعبیر کے سلسلے میں تواتر کے ساتھ قلم اٹھایا۔
مولانا کی اس فکری کاوشوں کو مسلم لیگ نے بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور مولانا دو قومی نظریے کے بڑے شارح بن کر اُبھرے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس دائرے میں بھی برصغیر کے مسلمان تاریخ کے دھارے کی مخالف سمت میں تیر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں یہ جرأت رندانہ خدا نہیں فراہم کررہا تھا تو کون فراہم کررہا تھا؟ ہمیں یہاں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی کئی بڑی شخصیتیں اپنی زندگی کے ایک مرحلے پر ایک قومی نظریے کی علمبردار تھیں۔ سرسید ہندو اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے۔ اقبال کو خاک وطن کا ہر ذرہ دیوتا نظر آتا تھا اور وہ ہندوئوں کے دیوتا شری رام کو ’’امام ہند‘‘ کہا کرتے تھے۔ قائداعظم کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سب سے بڑا سفیر کہا کرتی تھیں مگر ہندوئوں کی اسلام اور مسلمان دشمنی نے سرسید، اقبال اور قائداعظم تینوں کی قلب ماہیت کردی۔ ایسا نہ ہوتا تو اقبال کبھی برصغیر میں مسلمانوں کی علٰیحدہ ریاست کا خواب نہیں دیکھ سکتے تھے اور قائداعظم کبھی قیام پاکستان کی جدوجہد پر مائل نہیں ہوسکتے تھے۔
اس سلسلے کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ عین ممکن تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آبادی وہی ہوتی جو 1940ء میں تھی مگر مسلمانوں کے پاس اکثریتی علاقے نہ ہوتے اور ان کی آبادی پورے برصغیر میں بکھری ہوئی ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ بنگال، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان مسلم اکثریتی علاقے بن کر اُبھر آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی ’’تاریخی اتفاق‘‘ نہیں تھا۔ یہ صورت حال خدائی حکمت کے عین مطابق تھی۔ دراصل قدرت الٰہیہ مدتوں سے اس خطے میں ایک علٰیحدہ مسلم ریاست کو ممکن بنانے کے منصوبے پر عمل کررہی تھی۔ اسی سلسلے میں قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
’’گاندھی جی کہتے ہیں: ’’ہندوستان کو جیتے جی ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے‘‘۔
راج گوپال اچاریہ کہتے ہیں: ’’بچے کے دو ٹکڑے کیے جارہے ہیں‘‘۔
قدرت نے پہلے ہی سے ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے ٹکڑے کر رکھے ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی سے موجود ہیں۔ نہ معلوم اس کے متعلق اتنا واویلا کیوں کیا جاتا ہے۔ وہ ملک ہے کہاں جس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے؟ اور وہ قوم کہاں ہے جس کی قومیت فنا کی جانے کو ہے؟
وہ طاقت جس کے قبضہ ٔ قدرت میں آج ہندوستان ہے‘ وہ انگریزوں کی طاقت ہے اور یہ جو ایک خیال دماغوں میں بیٹھ گیا ہے کہ ہندوستان ایک متحدہ ملک ہے اور اس کی ایک حکومت ہے، وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ انگریز اس سارے ملک پر حکمران ہیں۔ (مسلم لیگ کانفرنس، ممبئی، 26 مئی 1940ء)
ظاہر ہے کہ اگر ہندوستان کے نقشے پر ’’ہندو ہندوستان‘‘ اور ’’مسلم ہندوستان‘‘ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو مسلمان ایک الگ وطن کا مطالبہ کر ہی نہیں سکتے تھے۔
اس سلسلے میں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور سلطنت برطانیہ سے تھا اور دوسری طرف وہ ہندو اکثریت سے پنجہ آزمائی کررہے تھے۔ چناں چہ مسلمانوں کی ’’کامیابی‘‘ کا امکان ’’صفر‘‘ تھا، اس کے باوجود مسلمانوں نے سو فی صد کامیابی حاصل کی۔ کیا یہ کامیابی خدا کی غیبی تائید و حمایت کے بغیر ممکن تھی۔
ایاز امیر نے اپنے کالم میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر پاکستان کو خدا کی تائید حاصل تھی تو پاکستان مضبوط ریاست بن کر کیوں نہ اُبھر سکا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو جو قیادت میسر آئی اس نے پاکستان کے نظریے کو اُٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ پاکستان کے نظریے کی طاقت یہ تھی کہ اس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا کر کھڑا کردیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ’’ایک قوم‘‘ میں ڈھال دیا۔ پاکستان کو تاریخ کے عدم سے نکال کر وجود بخش دیا۔ پاکستان کا نظریہ اتنے بڑے بڑے کام کرسکتا تھا تو وہ پاکستان کو ایک عظیم الشان ریاست بھی بناسکتا تھا مگر پاکستان کے حاکموں نے پاکستان کے نظریے سے جان چھڑا لی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ سیکولر ازم، لبرل ازم اور سوشلزم سے رومانس کرتا ہوا پایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور یورپ اپنے نظریات سے غداری کرکے عظیم بن سکتے تھے؟ کیا روس اور چین اپنے نظریے کے بغیر عالمی طاقت قرار پاسکتے تھے؟ اگر نہیں تو پاکستان اپنے نظریے کے بغیر کیسے عظیم بن سکتا تھا؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بڑے حکمرانوں کی روح، دل اور ذہن بھی بڑا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ہمیں جو حکمران فراہم ہوئے ان کی روح بھی چھوٹی تھی، ان کا دل بھی چھوٹا تھا، ان کا ذہن بھی چھوٹا تھا۔ چناں چہ انہوں نے پاکستان کو بھی چھوٹا بنادیا۔ صرف بھٹو صاحب ایسے حکمران تھے جن کی انا بڑی تھی اور وہ قائد ایشیا بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام کا تحفہ دیا۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہوں کی کانفرنس منعقد کرادی۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ انہوںنے شراب پر پابندی لگادی اور انہوں نے جمعہ کی تعطیل کا اعلان کردیا۔
ایاز امیر نے اپنے کالم میں قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ بھی دیا ہے۔ یہ ہمارے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ذہنی اور اخلاقی بنجر پن کا ایک ثبوت ہے کہ انہیں قائداعظم کی صرف ایک تقریر یاد ہے۔ حالاں کہ قائداعظم نے اپنی درجنوں تقریروں میں اسلام پر اصرار کیا ہے۔ ذرا دیکھیے تو قائداعظم اس تقریر میں کیا کہہ رہے ہیں۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ۔ 1943ء، کراچی)
کیا کوئی سیکولر یا لبرل رہنما اسلام اور اس کے بنیادی تصورات پر اس طرح اصرار کرسکتا ہے؟ ایاز امیر نے اپنے کالم میں اردو پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس طرح اگر اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا، ٹھیک اسی طرح اگر اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔