برصغیر کے مسلمانوں پر انگریزوں کا اصل ظلم یہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہم پر ڈیڑھ سو سال حکومت کی۔ ان کا اصل ظلم یہ ہے کہ انہوں نے مسلم معاشرے میں ایک ایسا حکمران طبقہ پیدا کیا جس کا صرف رنگ مقامی ہے ورنہ اس کی ہر چیز غیر مقامی ہے۔ اس کی زبان غیر مقامی ہے، اس کی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں غیر مقامی ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ مسلمانوں کے حکمرانوں نے خود کو عوام کا خادم سمجھا ہے۔ اسلامی تاریخ نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ سے بڑے لوگ پیدا نہیں کیے مگر یہ چاروں خلفا معاشرے کے خادم تھے لیکن پاکستان کے حکمران طبقے اور عوام میں حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے۔ آقا اور غلام کا تعلق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کا اصل حکمران طبقہ کون ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، اس اسٹیبلشمنٹ کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے، نہ کوئی قوم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہی ملک کا آئین ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہی ملک کا قانون ہے، ہر فرد اور ہر طبقے کا ایک تصورِ ذات ہوتا ہے، ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تصورِ ذات یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے نہیں ہے پاکستان اس کے لیے ہے۔ کہنے کو ملک میں سیاستدان بھی موجود ہیں مگر پاکستان کا ہر سیاستدان جرنیلوں کی سیاسی نرسری کی پیداوار ہے۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ سے سیاست دان بن کر اُبھرے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کی سرپرستی میں پنجاب کے وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ اور بالآخر ملک کے وزیراعظم بنے۔ الطاف حسین جنرل ضیا الحق کی سرپرستی سے پہلے ایک بڑا سا سیاسی صفر تھے جنرل ضیا الحق کی سرپرستی نے انہیں شہری سندھ کا سیاسی بادشاہ بنایا۔ عمران خان اپنی دنیا آپ پیدا کرسکتے تھے مگر وہ بھی جرنیلوں کے سائے میں پروان چڑھے اور اقتدار کی منزل تک پہنچے۔ اس صورت حال نے جرنیلوں کے تصورِ ذات کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی سیاست اور پالیسیوں نے سقوط ڈھاکا کی راہ ہموار کی۔ مگر نہ جنرل ایوب کوئی سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمے دار تصور کرتا ہے اور نہ جنرل یحییٰ کو سقوط دھاکا کا سبب قرار دیتا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن نے سقوط ڈھاکا کے سلسلے میں جنرل یحییٰ کے کردار کی وجہ سے ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی مگر جنرل یحییٰ شان سے جیے اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ کی پشت پر امریکا کھڑا تھا۔ بھٹو صاحب نے ملک کے ممتاز صحافی آصف جیلانی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ امریکا نے پاکستان کے حکمران طبقے کو باور کرایا تھا کہ جنرل یحییٰ نے امریکا اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے سقوط ڈھاکا کے حوالے سے انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں جرنیل اتنے طاقتور رہے ہیں کہ وہ دوسرے جرنیلوں یا امریکا کی سازش کے ذریعے ہی منظر سے غائب ہوئے۔ جنرل ایوب دس سال کے بعد بھی طاقتور تھے اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ لیکن ایک شام جنرل یحییٰ چند جرنیلوں کے ہمراہ ایوانِ صدر پہنچے اور جنرل ایوب سے کہا کہ جناب صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ جنرل ضیا الحق کے طیارے تک صرف ملک کے حساس ادارے کے اعلیٰ اہلکاروں کی رسائی تھی۔ چناں چہ انہوں نے ہی جنرل ضیا کے طیارے میں دھماکا خیز مواد رکھا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی جو تحریک چلی اس کی پشت پناہی جنرل کیانی کررہے تھے۔ اس تاریخ کے تناظر میں امریکا ہو یا بھارت سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے اصل حکمران کون ہیں۔ چناں چہ امریکا کے سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب ’’Never give an Inch‘‘ میں لکھا ہے کہ 2019ء میں بالاکوٹ کے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہوگئی اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر ایٹمی حملے کی تیاری کرلی۔ مائیک پومپیو نے لکھا ہے کہ امریکا کو اس کی اطلاع ہوئی تو امریکا نے پاکستان کے ’’اصل حکمران‘‘ جنرل باجوہ سے رابطہ کیا اور دونوں کو ایک دوسرے پر ایٹمی حملے سے باز رکھا۔ بھارت کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اس نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہی کشمیر پر سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھارت نے اس سلسلے میں سول حکمرانوں کو کبھی کشمیر پر سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کے قابل نہیں سمجھا۔ جرنیلوں کے ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں کے تعلقات کی نوعیت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے مجھے کیوں نکالا کے عنوان سے جرنیلوں کے خلاف پوری تحریک چلائی۔ انہوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور جرنیلوں کو خلائی مخلوق قرار دیا مگر آج نواز شریف کی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر پے در پے حملے کررہے ہیں مگر کل اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار میں لانے پر آمادہ ہوجائے گی تو وہ پھر لپک کر جرنیلوں کی گود میں بیٹھ جائیں گے۔ یہ ایک شرمناک سیاسی صورت حال ہے اور سلیم احمد نے اپنی معرکہ آرا نظم مشرق میں پاکستان کے اصل حکمران طبقہ کے مختلف کرداروں کی ہولناک تصاویر پینٹ کرکے دکھائی ہیں۔ آئیے سلیم احمد کی نظم مشرق کے دو حصے یعنی ’’ڈنر‘‘ اور ’’قصر سیاہ‘‘ ملاحظہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اصل حکمرانوں کا باطن کیا ہے؟
ڈنر
ایک دن، رات کو میں ایک ڈنر میں پہنچا
نو بجے ہوں گے کہ اِک دوست کے گھر میں پہنچا
روح پتھرا گئی اس طرح کا منظر دیکھا
جھک گئی آنکھ تو کوشش سے مکرّر دیکھا
ہوگیا سنگ نما دیدئہ حیراں کیا کیا
کرسیوں پر نظر آئے مجھے حیواں کیا کیا
سخت کالر میں پھنسے بیٹھے ہیں اور بوٹ میں ہیں
قاعدے کا ہے بہت پاس کہ فُل سوٹ میں ہیں
کھانا کھاتے ہیں تو چَپ چَپ کی صدا آتی ہے
پانی پیتے ہیں تو لَپ لَپ کی صدا آتی ہے
گھاس کی کرسی پر بیٹھا ہوا خَر کھاتا ہے
جہل کے توس سے دانش کا بٹر کھاتا ہے
پہلوئے نحس میں لنگور ہے اِک حُور لیے
لومڑی بیٹھی ہے اِک خوشۂ انگور لیے
سوپ اشکوں کے سڑپتا ہے وہ اجگر بیٹھا
رس نگاہوں کا نگلتا ہے وہ بندر بیٹھا
ریچھ اِک سمت میں وہ مغزِ ہنر کھاتا ہے
بھیڑیا پنجوں کے بل قاشِ جگر کھاتا ہے
تیندوا ایک طرف پشت کیے بیٹھا ہے
ایک انسانِ مسلم کو لیے بیٹھا ہے
اور وہ مہمانِ خصوصی کی بڑی کرسی میں
اک سگِ سرخ نشستہ ہے ہری ٹائی میں
کل ہی اِک ’’تمغۂ دمباز‘‘ ملا ہے اس کو
اپنی ناپاکی کا اعزاز ملا ہے اس کو
چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہوئے ڈر کر بھاگا
دور تک تیرہ و تاریک سڑک پر بھاگا
رفتہ رفتہ وہ سڑک جانے کہاں جا نکلی
مجھ کو محسوس ہوا راہ نئی آنکلی
قصرِ سیاہ
سوچتا تھا کہ یہ کس راہِ قضا میں، میں ہوں
دیکھتا کیا ہوں کہ اِک دشتِ بلا میں‘ میں ہوں
وسعتِ وقت کی مانند ہے جس کا دامن
ہُو کا سناٹا ہے، چلتی ہیں ہوائیں سَن، سَن
بھاگے پھرتے ہیں جھکولے کہیں غولوں کی طرح
رقص کرتے ہیں بگولے کہیں بھوتوں کی طرح
دور سے ’بوم‘ کی اس طرح صدا آتی ہے
قہقہہ مارتا ہو لاش پہ کوئی جیسے
روشنی ہے جو شفق پر کسی موتی کی طرح
تیرگی میں ہے سفیدی لبِ زنگی کی طرح
چاند تاریک فضائوں میں اُتر آیا ہے
برص کا داغ رُخِ شب پہ اُبھر آیا ہے
کہکشاں دُور تلک آئے نظر میں ایسے
راہ میں لوٹ رہا ہو کوئی اژدر جیسے
ایک تارا ہے ادھر خوں چکاں لب کی طرح
اک طرف خوشۂ پروین ہے عقرب کی طرح
خاکِ آفاق میں تارے جو دمک اُٹھے ہیں
دانت ہیں کالی بَلا کے جو چمک اُٹھے ہیں
ورنہ آسیب ہیں، عفریت ہیں یا سائے ہیں
مشعلیں لے کے سرِ راہ چلے آئے ہیں
اور اس دشت میں کچھ دُور پہ اِک قصرِ سیاہ
سہم کر جس سے پھر آئے درِ مژگاں میں نگاہ
برج کالے ہیں، فصیلیں ہیں سیہ، درکالے
فرش سے سقف تلک سارے ہیں پتھر کالے
شہ نشیں کالے، ستوں کالے، شجر کالے ہیں
شاخیں کالی ہیں، سبھی برگ و ثمر کالے ہیں
روشیں کالی، لکیریں بھی ہیں کالی کالی
کالے پردے پہ شبیہیں بھی ہیں کالی کالی
جا بہ جا اس کی فصیلوں پہ ہے اس طرح گیاہ
دہر پر جیسے مسلط ہو شبِ تارِ گناہ
اور اس قصر پہ اس طرح نحوست کا ہجوم
’شوم‘ کے فرق پہ جس طرح سے ہو سایۂ بوم
اور اس میں کوئی جھانکے تو نظر آتا ہے
ایسا منظر کہ جسے دیکھ کے ڈر آتا ہے
پالتی مار کے اِک سمت ہے وحشت بیٹھی
منہ پھلائے ہوئے اِک سمت عداوت بیٹھی
بُغض اِک کونے میں بیٹھا ہے جُگالی کے لیے
مُنہ بنائے ہے ہوس کاسۂ خالی کے لیے
آگ کھاتی ہے وہ اِک سمت میں نفرت بیٹھی
رال ٹپکاتی ہے اِک سمت شقاوت بیٹھی
جہل اک سمت میں کھاتا ہے وہ دانش کے کباب
کاسۂ سر میں اُدھر ظلم وہ پیتا ہے شراب
جام پر جام پلاتا ہے حسد کو کینہ
بے حیائی وہ دکھاتی ہے کمر اور سینہ
ران سہلاتی ہے عریانیِ فطرت اپنی
چھاتیاں ملتی ہے اِک سمت دہ شہوت اپنی
ایک کونے میں نظر جس سے اِبا کرتی ہے
دُنیا داری کسی کتّے سے زنا کرتی ہے
اپنی فطرت کی دنایت پہ گواہی بن کر
زہر کے جام لنڈھاتی ہے جماہی لے کر
کفروہ بیچ میں مسند پہ ڈٹا بیٹھا ہے
حاکمِ وقت کی مانند تنا بیٹھا ہے
سیر ہوتی نہیں اک ایسی طلب جاری ہے
جام گردش میں ہیں اور رقصِ طلب جاری ہے
غیرتیں ساز بجاتی ہیں دلوں میں رو کر
عصمتیں بھائو بتاتی ہیں برہنہ ہو کر
رقص میں جاں پہ شرافت کی عجب تنگی ہے
ضرب کوڑوں کی پڑی ہے سو کمر ننگی ہے
اشک آنکھوں میں سنبھلتا نہیں، بہتا بھی نہیں
سر پہ عزت کے تقدس کا دوپٹہ بھی نہیں
اور وہ اس کے مقابل میں عیاذاً باللہ
دیکھ کر جس کو تڑپتی ہے جراحت سے نگاہ
رحل تقدیر پہ قرآن جلی رکھاّ ہے
طشتِ زرّیں پہ سرِ ابنِ علی رکھاّ ہے