شاعر نے کہا ہے
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ظاہر ہے کہ یہ پرانے زمانے کا تذکرہ ہے کہ جب مفلسی صرف مرد کا اعتبار کھوتی تھی۔ ہماری دنیا میں تو اب مفلسی عورتوں کیا قوموں تک کا اعتبار غتربود کردیتی ہے۔ کہنے کو ہماری دنیا صرف ایک دنیا ہے مگر دولت کے اعتبار سے اس ایک دنیا میں تین دنیائیں آباد ہیں۔ پہلی دنیا جسے انگریزی میں ’’فرسٹ ورلڈ‘‘ کہا جاتا ہے مالدار قوموں کی دنیا ہے۔ دوسری دنیا ترقی پزیر ممالک کی دنیا ہے جسے انگریزی میں ’’سیکنڈ ورلڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا سرمائے کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسری دنیا جسے انگریزی میں ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ’’پسماندہ‘‘ یا غریب قوموں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں امارت کا کال پڑا ہوا ہے اور اس دنیا میں مفلسی ہر گھر پر بال کھولے سو رہی ہے۔ چناں چہ اس دنیا کی کہیں کوئی عزت نہیں ہے۔ اس دنیا کی بات نہ اقوام متحدہ سنتی ہے نہ اسے امریکا اور یورپ گھاس ڈالتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس دنیا میں قوموں کی تکریم دولت کی بنیاد پر ہوتی ہے اس دنیا میں غریب لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
یہ آج سے بیس بائیس سال پرانی بات ہے۔ اس زمانے کے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا تھا نہ غربت کے سیلاب نے کروڑوں پاکستانیوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا اس کے باوجود متوسط زیریں متوسط اور غریب طبقے کا حال برا تھا۔ ہم نارتھ ناظم آباد کے جس اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں وہ متوسط طبقے کی بستی ہے۔ اس اپارٹمنٹ میں ہماری بھابی کی ایک بہن بھی رہائش پزیر تھیں۔ ہماری بھابی کی بہن ایک اسکول میں ٹیچر تھیں اور ان کے شوہر بھی برسر روزگار تھے۔ ہمارا ایک بھتیجا اپنی خالہ کے یہاں جانے کا بڑا شوقین تھا لیکن ہم نے ایک دن محسوس کیا کہ اس نے اپنی خالہ کے یہاں جانا ترک کردیا ہے۔ ہمارے بھتیجے کی عمر اس وقت چھے سات سال تھی۔ ہم نے ایک دن اپنے بھتیجے سے پوچھا کہ تم نے اپنی خالہ کے یہاں جانا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگا چاچا میں ان کے یہاں جاتا ہوں تو وہ مجھ سے کھانا کھانے کو کہتے ہیں۔ ہم نے کہا بھائی آدمی خالہ کے یہاں کھانا نہیں کھائے گا تو اور کہاں کھائے گا؟ کہنے لگا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے یہاں روز مونگ کی دال پکی ہوتی ہے اور میں روز مونگ کی دال نہیں کھا سکتا۔ یہ ایک ایسا انکشاف تھا جس نے ہمارے رونگٹے کھڑے کردیے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے اپارٹمنٹ میں ایک گھر ایسا بھی ہے جہاں روزانہ مونگ کی دال پکتی ہے۔
یہ واقعہ بھی پندرہ بیس سال پرانا ہے ہمارے دوستوں زبیر منصوری اور عبیدالرحمن نے ہم سے ایک دن پوچھا کہ آپ کے شائع شدہ کالم مرتب صورت میں آپ کے پاس ہیں یا نہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ کالم تو سارے موجود ہیں مگر مرتب حالت میں نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ اس طرح تو آپ کے کالم ضائع ہوجائیں گے۔ ہم نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن کیا کیا جاسکتا ہے۔ کچھ دن کے بعد ہمارے دوستوں نے ہمیں مطلع کیا کہ انہوں نے دو ایسے نوجوان تلاش کرلیے ہیں جو ہمارے تمام کالموں کو رجسٹروں میں تاریخ وار چپکا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان نوجوانوں کو دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے دے دیا کیجیے گا باقی معاملات ہم دیکھ لیں گے۔ ہمارے دوستوں کے بندوبست کے مطابق دو نوجوان صبح نو بجے ہمارے فلیٹ پر آجاتے۔ ہم انہیں ایک کمرے میں بٹھادیتے اور وہ شام پانچ بجے تک ہمارے کالموں کو مرتب کرتے رہتے۔ اس دوران دوپہر کے وقت ہمارے گھر میں جو کچھ پکتا نوجوانوں کے آگے رکھ دیا جاتا۔ دوچار دن تو خیریت سے گزرے مگر پانچویں روز انہوں نے ہمارے دوستوں سے شکایت کی کہ ہم انہیں ’’فائیواسٹار‘‘ کھانے کھلا رہے ہیں، گویا کھانوں کا خصوصی اہتمام کیا جارہا ہے۔ ہمارے دوستوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہم کھانوں کا خصوصی اہتمام نہ کریں۔ ہم نے عرض کیا کہ بھائی ہم کوئی خصوصی اہتمام نہیں کررہے۔ گھر میں دال چاول پکتے ہیں تو وہ نوجوانوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔ مرغی یا گائے بکرے کا گوشت پکتا ہے تو پیش کردیا جاتا ہے۔ ہم نے اس صورت حال میں ان نوجوانوں نے کہا کہ بھائی آپ نے تو ہماری شکایت کردی ان میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ سر بات شکایت کی نہیں ہے ہمارے لیے آپ کے ’’نارمل کھانے‘‘ بھی فائیو اسٹار ہیں۔ اس نے کہا کہ میرے گھر میں گزشتہ پانچ ماہ سے صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جاتا ہے۔ ہم مل جل کر طے کرتے ہیں کہ آج ہم دوپہر کا کھانا کھائیں گے یا رات کا۔ اس نے بتایا کہ پندرہ دن پہلے میری دو بہنوں کو ایک ٹیکسٹائل مل میں دھاگا چننے کی نوکری ملی ہے۔ چناں چہ پندرہ دن سے ہمارے گھر میں دو وقت کھانا پکنا شروع ہوا ہے۔ اس نوجوان کے چہرے بشرے سے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان کس غربت میں مبتلا ہے۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب ایک ڈالر 60 روپے کا تھا اور ملک میں کہیں مہنگائی کا طوفان اور غربت کا سیلاب نہیں آیا ہوا تھا۔
آج سے بیس سال پہلے ایک روز ہمیں دفتر سے گھر آنے میں تاخیر ہوگئی۔ گھر پہنچے تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے اور گھر میں نہاری بنی ہوئی تھی ہماری بیوی نے کہاآپ تھک کر آئے ہیں سامنے موجود تندور سے میں روٹی لے آتی ہوں۔ آپ اتنے میں منہ ہاتھ دھو کر ترو تازہ ہوجائیں۔ تندور گھر سے ایک منٹ کے فاصلے پر تھا اور اس وقت تندور پر رش بھی نہیں ہوتا تھا اس کے باوجود ہماری بیوی کو گئے ہوئے دس بارہ منٹ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد ہماری بیوی لوٹی تو اس نے ایک عجیب واقعہ سنایا۔ اس نے کہا کہ میں تندور سے روٹی لینے نکلی تو میں نے دیکھا ایک عورت ایک بچے کو آغا خان کی ڈسپنسری کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے۔ وہ نہ ڈسپنسری کے اندر جاتی ہے نہ وہاں سے ہٹتی ہے۔ ہماری بیوی نے ازراہِ تجسس پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اس عورت نے بتایا کہ میرے بچے کو تیز بخار ہے، ہماری بیوی نے کہا تو ڈسپنسری میں دکھا دو، یہاں کی فیس صرف پندرہ روپے ہے۔ اس عورت نے انکشاف کیا کہ اس کے پاس پندرہ روپے نہیں ہیں۔ چناں چہ ہماری بیوی نے اس کے بیمار بچے کو دکھایا اور اسے دوا لے کر دی۔ ہمیں یاد ہے اسی زمانے میں ملک کے ایک بڑے اردو اخبار میں اتوار کے روز ایک کالم شائع ہوتا تھا۔ کالم نگار کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ غریبوں کی کسی بستی میں چلا جاتا تھا اور لوگوں سے پوچھتا تھا کہ ان کی آمدنی کیا ہے۔ وہ کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں، ان کے یہاں شادی بیاہ کس طرح ہوتے ہیں، ان کے بچوں کا کیا حال ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک صاحب نے کالم نگار کو بتایا کہ ان کے یہاں پورے سال میں صرف ایک وقت گوشت پکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب عیدالاضحی پر کہیں سے گوشت آجاتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ شام کو سبزی فروشوں سے سبزیوں کی تلچھٹ خرید کر پکاتی ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی محلے داروں نے چندے سے کی ہے۔ ایک بوڑھی عورت نے بتایا کہ میرے پوتے پوتیاں دو ماہ سے چڑیا گھر جانے کی ضد کررہے ہیں مگر ہم انہیں چڑیا گھر نہیں لے جا پارہے کیوں کہ ہمارے پاس کرائے کے سو روپے نہیں ہیں۔
آج ملک میں شریف بدمعاشوں کی حکومت نے مہنگائی کا طوفان اور غربت کا سیلاب برپا کر رکھا ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان نے ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کی زندگی کو اتھل پتھل کرکے رکھ دیا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے آٹھ سے دس کروڑ لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کہا جاتا تھا کہ جو شخص کراچی میں ماہانہ پچیس تیس ہزار روپے کماتا ہے وہ مشکل سے سہی گزارہ کرلیتا ہے مگر مہنگائی کے طوفان نے ایک لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کی زندگی میں معاشی زلزلہ برپا کردیا ہے۔ ہم نارتھ ناظم آباد کے جس فلیٹ میں رہتے ہیں وہ 40 سال پرانے ہیں۔ ان فلیٹوں میں میٹھا پانی دستیاب نہیں۔ یہ فلیٹ بورنگ کے کھارے پانی پر چل رہے ہیں مگر اس کے باوجود تین کمروں کے فلیٹ کا کرایہ 30 ہزار روپے ہے۔ بجلی کے نرخ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ایک مہینے میں کسی اے سی کے بغیر ایک فلیٹ میں 20 ہزار روپے بل آتا ہے۔ ٹیلی فون، گیس، پانی اور Maintenance پر مزید پانچ ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ روپے کمانے والے کا پاس صرف 45 ہزار باقی رہ جاتے ہیں۔ اب اسے انہی 45 ہزار میں کھانا پینا ہے۔ انہی 45 ہزار میں بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہیں۔ اور انہی 45 ہزار میں علاج معالجے اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے اخراجات پورے کرنے ہیں۔
روزنامہ ڈان کراچی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 40 فی صد ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں جو آٹا 944 روپے میں آتا تھا وہی آٹا اب 2023ء میں 1736 روپے کا آرہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں جو باسمتی چاول 81 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا وہ اب 154 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020ء میں زندہ مرغی 170 روپے فی کلو فروخت ہوریہ تھی، اس وقت یہی مرغی 375 روپے فروخت ہورہی ہے۔ 2020ء میں ایک درجن انڈے 128 روپے میں مل جاتے تھے اب یہی انڈے 285 روپے میں مل رہے ہیں۔ 2020ء میں کھانے کا جو تیل 1185 روپے میں دستیاب تھا وہی تیل اب 2715 روپے میں دستیاب ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں پیاز 59 روپے فی کلو فروخت ہورہی تھی۔ اس وقت یہی پیاز 231 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں پٹرول کے نرخ 117 روپے فی لٹر تھے جو اب بڑھ کر 265 روپے فی لٹر ہوچکے ہیں۔ 2020ء میں ایک لیٹر ڈیزل 128 روپے میں مل رہا تھا۔ یہی ڈیزل اب 228 روپے میں فراہم ہورہا ہے۔ 2020ء میں جو ایل پی جی 1819 روپے میں دستیاب تھی وہی ایل پی جی اب 2711 روپے میں دستیاب ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن لوگ ہنگائی اور غربت سے پریشان ہو کر خودکشیاں کررہے ہیں۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق دیہی سندھ سے آنے والے ایک شخص امام علی نے اخبار کو بتایا کہ ہم چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں۔ رات کو بچے کھانا مانگتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں سو جائو۔ 41 سالہ رخسانہ بی بی نے ڈان کو بتایا کہ میں ماسی کے طور پر کام کرتی ہوں۔ اس کے بقول پہلے کام پر آنے جانے کے لیے وہ سو روپے خرچ کرتی تھی مگر اب روزانہ تین سو روپے خرچ ہورہے ہیں۔ رخسانہ بی بی نے بتایا کہ اس کے گھر میں تین وقت کھانا نہیں بن پاتا۔ ایک اور غریب خاتون دلشاد بیگم نے ڈان کو بتایا کہ ہم ایک وقت کھانا پکا کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ کر تین وقت استعمال کرتے ہیں۔ ایک چھوٹے دکاندار نعیم الدین صدیقی نے ڈان کو بتایا کہ مہنگائی اس کی زندگی بھر کی بچت نگل گئی ہے۔ نعیم الدین کے مطابق پہلے ان کے گھر میں چار مرتبہ چائے پی جاتی تھی اب صرف ایک بار چائے پی جاتی ہے۔ ایم بی بی ایس کی ایک طالبہ ہانیہ وسیم نے ڈان کو بتایا کہ مہنگائی کے طوفان نے اس کی کالج آمدورفت کو مشکل بنادیا ہے۔ ہانیہ کے مطابق پہلے کالج آنے جانے میں 15000 روپے ماہانہ خرچ ہوتے تھے اب 30 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں۔