:اقبالؔ نے کہا تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
بدقسمتی سے امتِ مسلمہ نے تو اقبال کے اس مشورے پر عمل نہ کیا مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے 1940ء کی دہائی میں اقبال کی اس آواز کو بڑی توجہ سے سنا اور اس نے تحریکِ پاکستان میں اسلام کی پاسبانی کے لیے ایک ہوکر دکھا دیا۔ دو قومی نظریے کے ظہور اور مطالبۂ پاکستان سے پہلے برصغیر کے مسلمان ہر بنیاد پر تقسیم تھے۔ ان میں فرقوں اور مسالک کے تعصبات پائے جاتے تھے۔ یوپی، سی پی کے امتیازات موجود تھے۔ پنجابی، بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچی کی تفریق تھی۔ مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کے تصور نے برصغیر میں مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ’’قوم‘‘ میں ڈھال دیا۔ کتنی عجیب بات تھی کہ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بن رہا تھا مگر تحریکِ پاکستان دِلّی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ حالانکہ دلی، یوپی اور سی پی کے لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، لیکن ایک اسلامی ریاست دلی، یوپی اور سی پی کے لوگوں کا خواب تھی۔ چنانچہ انہوں نے قیام پاکستان کے لیے پورے وجود کی قوت صرف کردی۔ انہوں نے اس سلسلے میں تن من دھن کی بازی لگا دی۔ اقبال کی طرح اسلام نے قائداعظم کی بھی قلبِ ماہیت کردی تھی، چنانچہ محمد علی جناح جو کبھی ایک قومی نظریے کے علَم بردار تھے وہ دو قومی نظریے یا اسلام کے علَم بردار بن کر ابھرے۔ اسلام کی بنیاد پر وحدت کا خیال اتنا قوی تھا کہ اس نے قائداعظم سے درجنوں شاندار تقریریں کروائیں، درجنوں لاجواب بیانات دلوائے، مثلاً قائداعظم نے فرمایا:
ایک وقت تھا کہ قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے، مگر اسلام کی بنیاد پر وجود میں آنے والے دو قومی نظریے نے ان کی پوری فکر اور شخصیت کو بدل کر رکھ دیا، اور وہ ہندو مسلم اتحاد کے بجائے ہندو مسلم اختلاف اور ہندو مسلم امتیاز کے سفیر بن کر ابھرے۔ اسی لیے انہوں نے فرمایا:
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ درحقیقت وہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔
یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں بلکہ اکثر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کے متعلق ہندوئوں اور مسلمانوں کے خیالات اور تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنی اپنی ترقی کی تمنائوں کے لیے مختلف تاریخوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ ان کے تاریخی وسائل اور ماخذ مختلف ہیں۔ ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے سربرآوردہ بزرگ اور قابلِ فخر تاریخی کارنامے سب مختلف اور الگ الگ ہیں۔ اکثر اوقات ایک قوم کا زعیم اور رہنما دوسری قوم کی بزرگ اور برتر ہستیوں کا دشمن ثابت ہوتا ہے۔ ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہوتی ہے۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست اور ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی کے دو بیل بنانے اور ان کو باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری روز بہ روز بڑھتی رہے گی جو انجامِ کار تباہی لائے گی۔ خاص کر اس صورت میں کہ ان میں سے ایک قوم تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہو اور دوسری کو اکثریت حاصل ہو۔ ایسی ریاست کے آئین کا عمل خاک میں مل کر رہے گا۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا؟ اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ یہاں آپ سب باہر کے آئے ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں بنگال کے اصلی باشندے کون تھے؟ وہ ہرگز نہیں جو آج کل بنگال میں رہتے ہیں۔ پس یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، ہم پٹھان ہیں؟ نہیں،‘ ہم مسلمان ہیں۔
اسلام نے ہمیں یہی سبق دیا ہے اور آپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ آپ خواہ کچھ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں، اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ اب آپ ایک باقاعدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ نے ایک وسیع علاقہ اپنے تسلط میں کرلیا ہے جو آپ کا اپنا ہے۔ یہ پنجابیوں کا ہے نہ سندھیوں کا۔ پٹھانوں کا ہے نہ بنگالیوں کا… یہ آپ کا ہے۔ آپ کی اپنی ایک مرکزی حکومت ہے جس میں ان جغرافیائی وحدتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ اس لیے اگر آپ خود کو ایک قوم، ایک عظیم قوم کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو خدا کے لیے اس صوبائی عصبیت کو فوراً ترک کردیجیے۔ صوبائی عصبیت بھی سنّی شیعہ وغیرہ کی فرقہ واری کی طرح ایک بہت بڑی لعنت ہے۔‘‘ (جلسہ عام، ڈھاکہ۔ 21 مارچ 1948ء)
بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو جو فوجی اور سول حکمران فراہم ہوئے انہوں نے قوم کو ہر بنیاد پر تقسیم کرکے رکھ دیا۔ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی قوم مذہب اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہے، دیو بندی اور بریلوی کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ دیو بندیت اور بریلویت کی اساس ایک ہے، دونوں مسالک فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں، دونوں کا خدا ایک ہے، رسولؐ ایک ہے، کتاب ایک ہے، دونوں مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کو اپنا فکری رہنما مانتے ہیں، دونوں مسالک میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تکریم پائی جاتی ہے۔ مگر دیوبندیوں اور بریلیوں کی مساجد الگ ہیں، دونوں ایک دوسرے کو گمراہ کہتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جرنیلوں اور فوجیوں کا تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا، اس لیے کہ اُس وقت کوئی پاکستانی فوج موجود نہ تھی، مگر بدقسمتی سے جرنیلوں نے اس طرح پاکستان پر قبضہ کیا ہے جیسے پاکستان انہیں جہیز میں ملا ہو۔ چنانچہ ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر جرنیلوں اور فوج کے غلبے نے قوم اور فوج کو ایک وحدت نہیں رہنے دیا بلکہ جرنیلوں کی اقتدار پرستی نے معاشرے میں سول اور فوجی کی ایک ایسی تفریق کو جنم دیا جس کو دور کرنے کی اب کوئی صورت موجود نہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے تک عام خیال یہ تھا کہ جنرل ایوب کا مارشل لا ملک کا پہلا اور آخری مارشل لا ہے، اور اس کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر معاشرے میں سول اور فوجی ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی۔ مگر بدقسمتی سے جنرل ایوب کا مارشل لا آخری مارشل لا ثابت نہ ہو سکا۔ جنرل ایوب خود گئے تو ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ کے حوالے کرگئے۔ جنرل یحییٰ نے سول اور فوجی کی تفریق کو اتنا بڑھایا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اُن کے زمانے میں جنرل نیازی نے بنگالیوں کی مزاحمت کے تناظر میں یہ فرمایا کہ ہم بنگالیوں کی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی قومیت بدل کر رہ جائے گی۔ مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ کے فوجی آپریشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ 1980ء میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو دیہی سندھ میں جنرل ضیا نے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اور پروفیسر غفور اور مولانا نورانی یہ بیان دیتے ہوئے پائے گئے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا اور انہوں نے بلوچستان کے پہاڑوں میں نواب اکبر بگٹی کو مار ڈالا۔ اس سے بلوچستان آتش فشاں بن گیا۔ یہ بات بھی ہماری تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ میاں نواز شریف کی ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ مہم نے پہلی بار پنجاب میں جرنیلوں اور فوج کے خلاف ردعمل پیدا کیا، اور اب عمران خان کی مزاحمتی روش نے معاشرے میں سول اور فوجی کی تفریق کو بہت بڑھا دیا ہے۔
آپ کبھی پاکستان کے تعلیمی منظرنامے پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو تقسیم اور تفریق کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اس دائرے میں ایک طرف وہ اسکول ہیں جو کیمبرج سسٹم کے تحت آتے ہیں، دوسری طرف وہ اسکول ہیں جو انگلش میڈیم کہلاتے ہیں، تیسری طرف وہ تعلیمی ادارے ہیں جن کو اردو میڈیم کہا جاتا ہے، چوتھی طرف وہ دینی مدارس ہیں جن کا عصری تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک قوم چار طرح کے ذہنی و نفسیاتی سانچے تیار کررہی ہے اور ان سانچوں کو باہم مربوط کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی قوم معاشی بنیاد پر بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ ایک طرف دو فیصد مال دار طبقہ ہے۔ اس طبقے کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر پیٹرول ایک ہزار روپے فی لیٹر ہو جائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف آٹھ سے دس کروڑ وہ لوگ ہیں جو خطِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ درمیان میں ایک متوسط طبقہ بھی موجود ہے۔ مہنگائی کا طوفان اس طبقے کی قوتِ خرید کو متاثر کر رہا ہے اور یہ طبقہ تیزی کے ساتھ زیریں متوسط طبقے میں تبدیل ہورہا ہے۔
دنیا میں اس بات کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ عدلیہ جیسا ادارہ بھی تفریق اور تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے میاں نوازشریف نے اپنے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملہ کرایا اور ججوں کو تقسیم کرکے ایک سپریم کورٹ کو دو سپریم کورٹس میں تبدیل کیا۔ اگرچہ اِس وقت میاں نوازشریف ملک سے باہر ہیں مگر ان کا سازشی ذہن پوری طرح متحرک ہے اور اس نے سپریم کورٹ کو ایک بار پھر تقسیم کیا ہے۔ چنانچہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا تو 9 ججوں کی بینچ سے چار جج الگ ہوگئے اور پانچ ججوں میں سے دو ججوں نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھنا ضروری خیال کیا۔ کہنے والے تو اب یہ تک کہتے ہیں کہ خود اسٹیبلشمنٹ میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسرا حصہ عمران خان کی پشت پناہی کررہا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
یہاں سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی معاشرے کی ہولناک تقسیم کے اسباب کیا ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی قومی وحدت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہی نہیں کیا۔ جنرل ایوب سیکولرازم کے عاشق تھے۔ انہوں نے اسلام کا نام ہی آئین سے نکال دیا تھا۔ جنرل یحییٰ کو اسلام سے کوئی دل چسپی ہی نہیں تھی۔ وہ ہر وقت شراب اور شباب میں کھویا رہتا تھا۔ بھٹو نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرلیا تھا جس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ بلاشبہ پاکستان کے حکمران طبقے نے 1973ء کے آئین میں اسلام کو مرکزیت عطا کی، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے 1973ء کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے آج تک اسلام کو آئین سے نکل کر ریاستی نظام پر اثرانداز ہونے کی اجازت ہی نہیں دی۔ بھارت نے فلموں سے بھی معاشرے میں وحدت پیدا کی، جبکہ ہمارے حکمران طبقے نے خدا، رسولؐ اور قرآن سے بھی معاشرے کو یکجا کرنے کا کام نہیں لیا۔
پاکستان کے معاشرے کی ہولناک تقسیم کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ انگریزوں کے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فلسفے پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ قوم کو ’’حلیف‘‘ نہیں اپنا ’’حریف‘‘ سمجھتا ہے۔ وہ قوم کو اپنا ’’دوست‘‘ نہیں اپنا ’’دشمن‘‘ گردانتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ آقا اور غلام کی نفسیات کا شکار ہے اور آقائوں نے کبھی غلاموں میں وحدت پیدا نہیں کی، اس لیے کہ غلاموں میں وحدت پیدا ہوگئی تو وہ ظالم حکمرانوں کا دھڑن تختہ کردیں گے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حکمرانوں کا بڑا خیال بھی قوموں کو متحد کرتا ہے۔ بڑے خیالوں کو حقیقت بننے کے لیے قوموں کا اتحاد ناگزیر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے پاس کوئی بڑا خیال موجود نہیں۔