عقیدہ

آج سے دس بارہ سال پہلے روزنامہ جسارت میں جاپان میں مقیم ایم عثمان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں ایم عثمان نے جاپانی معاشرے کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاپان میں قانون کی پاسداری، ایمان داری اور جھوٹ سے گریز کا تجربہ عام ہے انہوں نے اس سلسلے میں کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے شاہ فیصل کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا تھا۔ واقعے کے مطابق شاہ فیصل جاپان کے دورے پر آئے تو انہوں نے مسجد میں نماز ادا کی اور نماز کے بعد حاضرین سے ملاقات میں انہوں نے پوچھا کہ جاپان میں کتنے مسلمان پائے جاتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایم عثمان نے کہا کہ جاپان میں جتنے مسلمان ہیں ان کو چھوڑ کر باقی تمام مسلمان ہیں۔ یعنی وہ جو کلمہ گو ہیں وہ تو نام کے مسلمان ہیں۔ البتہ جاپانی کلمہ گو نہ ہونے کے باوجود مسلمان ہیں کیونکہ ایم عثمان کے بقول ان کا عمل مسلمانوں والا ہے۔ ہمارے زمانے میں اس طرح کے خیالات عام ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مغرب میں اسلام تو ہے مسلمان نہیں اور مسلم دنیا میں مسلمان ہیں مگر اسلام نہیں ہے۔ مغرب کو ’’اسلامی‘‘ کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہاں لوگ عام طور پر جھوٹ نہیں بولتے، چیزوں میں ملاوٹ نہیں کرتے، نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہیں، قانون کے پاسدار ہیں، اتفاق سے یہ خیالات جتنے عام ہیں اس سے زیادہ غلط ہیں۔ چونکہ ایسی باتیں لاعلمی اور بے شعوری کے ساتھ کی جاتی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان سے صرف نظر فرماتے ہوں گے ورنہ کوئی شخص علم اور شعور کے دعوے کے ساتھ ایسی باتیں کہے تو اس پر آسانی کے ساتھ گمراہی بلکہ کفر کا گمان ہوسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کی واحد حقیقت اللہ ہے۔ زندگی کا سارا خیر، سارا حسن و جمال، زندگی کی ساری معنویت خدا کے ہونے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلمہ طیبہ سے بڑھ کر اہم کچھ بھی نہیں۔ کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ توحید کا اظہار ہے اور دوسرا حصہ رسول اکرمؐ کی رسالت کا اعلان ہے۔ چنانچہ جس شخص کو کلمہ طیبہ کی دولت ملی اس کو سب کچھ مل گیا اور جو شخص کلمہ طیبہ سے محروم رہا اس کے پاس ساری دنیا کی دولت اور حکومت بھی تو اس کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دنیا اور آخرت کی ساری کامیابی کا انحصار کلمہ طیبہ یعنی ایمان پر ہے۔
مسلمانوں کے اسلام سے تعلق کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کے لیے ’’گھر کی مرغی‘‘ ہے۔ اور گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ بلکہ جب کوئی مسلمان کفر اور شرک پر کھڑے ہوئے معاشرے کی اس طرح تعریف کرتا ہے کہ وہ کلمے اور ایمان پر کھڑے ہوئے معاشرے سے برتر ہے تو اسلام دال کے مقام سے بھی کمتر ہوجاتا ہے۔ اللہ کے علم کی اہمیت یہ ہے کہ اگر خدا انسانوں کو خود نہ بتاتا کہ وہ کون ہے اور کیا ہے تو اربوں انسان ایک کھرب سال تک بھی خدا تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ انسان صرف اپنی عقل کے ذریعے خدا تک پہنچ سکتا تو رسالت اور وحی کے ادارے کے قیام کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ مگر خدا کو معلوم تھا کہ انسان ازخود مجھ تک نہیں پہنچ سکتا اس لیے اس نے انبیا و مرسلین کو وحی کی دولت عطا فرمائی اور انبیا نے اس دولت کو ساری دنیا اور پوری انسانیت میں تقسیم کردیا۔ اس کے باوجود اس دنیا کا حال یہ ہے کہ سات ارب انسانوں کی اس دنیا میں تقریباً ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو 21 ویں صدی میں بھی نہ خدا کو جانتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ مزید ڈھائی ارب انسانوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں۔ ایک ارب سے زیادہ ہندو ایسے ہیں جو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدائوں کو مانتے ہیں۔ ہندوستان میں آپ کو ایسے مندر بھی مل جاتے ہیں جن میں چوہوں کو پوجا جاتا ہے۔ دو ارب سے زیادہ عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰؑ اور سیدنا جبرائیلؑ کو خدا کی خدائی میں شریک بنایا ہوا ہے۔ یعنی اس وقت دنیا میں پانچ ارب انسان ایسے ہیں جو کفر یا شرک میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں زندہ رہتے ہیں اور امکانی طور پر اس میں مبتلا رہتے ہوئے وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ان انسانوں کا آخرت کی زندگی میں جو دنیا کی زندگی سے کھربوں گنا بڑی ہے کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آخرت میں ایک شخص ایسا ہوگا جس کا اعمال نامہ گناہوں سے بھرا ہوگا اور وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوگا لیکن اس کے اعمال نامے سے کلمہ طیبہ پر ایمان برآمد ہوگا۔ چنانچہ اس کا عقیدہ اسے جہنم سے بچالے گا اور بلاشبہ کامیاب انسان تو وہی ہے جو جہنم سے بچ جائے۔
عقیدے کی اہمیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سقوط بغداد ہے، سقوط غرناطہ ہے، سقوط ڈھاکا ہے، یورپی طاقتوں کی دو سو سال پر محیط عہد ِ غلامی ہے۔ امریکا اور یورپ کی بالادستی ہے، کشمیر اور فلسطین جیسے بڑے سیاسی مسائل ہیں، نااہل، بدعنوان اور مغرب کے آلہ کار مسلم حکمران ہیں۔ مسلمانوں کی علم سے لاتعلقی ہے۔ بدترین غربت ہے، فرقوں اور مسلکوں کی آویزش ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان زندہ ہیں اور ایک بہتر مستقبل کی تخلیق کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے عقائد محفوظ ہیں اور ان پر مسلمانوں کا ایمان ہے۔ اگرچہ مسلمان عمل میں کمزور ہیں مگر وہ عقیدے کی سطح پر توحید، رسالت، آخرت، عبادات اور معروضی اخلاق یا Objective Morality سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس عیسائیت کا حال ابتر ہے۔ اس کا مستقبل مخدوش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے عقائد محفوظ نہیں رہے۔ ان میں ملاوٹ ہوگئی۔ عیسائیت اسلام کی طرح توحید کا عقیدہ رکھنے والا مذہب تھا لیکن تاریخ کے سفر میں اس نے ’’تثلیت‘‘ کا تصور ایجاد کرلیا۔ یہ عیسائیت کی تاریخ میں خرابی کا آغاز تھا۔ خرابی کا یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ مغرب میں ڈی ازم کا تصور نمودار ہوا۔ ڈی ازم کا لب لباب یہ تھا کہ خدا موجود تو ہے مگر وہ کائنات کو بنا کر اس سے الگ ہو کر بیٹھ گیا ہے اور اب یہ کائنات اپنے قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک وال کلاک میں چابی بھر دی جائے تو وہ اپنے قانون کے تحت چلتی رہتی ہے۔ مغرب میں اس فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب نے بالآخر خدا ہی کا انکار کردیا۔ چنانچہ مغرب کی پوری مذہبی تہذیب فنا کی زد میں آگئی۔ ہندوازم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس میں ایک خدا کا تصور موجود تھا۔ ہندوازم کی مقدس کتب دعویٰ کرتی تھیں کہ خدا ایک ہے اور اس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی۔ مگر ہندوئوں نے خدا کی صفات کو الگ الگ خدائوں اور ان خدائوں کو بتوں میں ڈھال لیا۔ اس کا اثر ان کی پوری تہذیب پر پڑا۔ یہاں تک کہ ہندو ازم مجاز اور میلوں ٹھیلوں کا مذہب بن کر رہ گیا۔ چونکہ عیسائیت اور ہندوازم اپنے عقائد کو مسخ کرچکے ہیں۔ اس لیے ان کے دائرے میں ’’احیا‘‘ کا کوئی امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور ہندوازم کی دنیا میں سیکولرازم تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ کلمے کی بنیاد پر سامنے آنے والے اچھے عمل اور کلمے کے بغیر نمودار ہونے والی چیز میں فرق نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اخلاق کی مذہبی اور غیر مذہبی بنیادوں کے فرق کا شعور نہیں رکھتے۔
اخلاق کا تصور اپنی نہاد میں مذہبی ہے۔ اس لیے کہ نیکی اور بدی کا شعور مذہب کے سوا کہیں آ ہی نہیں سکتا۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ عمومی اخلاق آفاقی ہے۔ مثلاً جھوٹ بولنے کو مذہبی معاشرہ بھی برا خیال کرتا ہے اور لادین معاشرہ بھی۔ سچ بولنا مذہبی معاشرے کی بھی بڑی قدر ہے اور غیر مذہبی معاشرے کی بھی، لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت پر آگاہ نہیں کہ ایک مذہبی انسان اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ان کی محبت اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کے تحت سچ بولتا ہے۔
اس کے برعکس غیر مذہبی شخص کے لیے سچ بولنا ایک ذہنی و سماجی عادت ہے۔ مذہبی انسان کا سچ اپنی اصل میں ’’مطلق‘‘ یا Absolute ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور سچ بولنے سے کیسا ہی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو مذہبی انسان ہر حالت میں سچ بولے گا۔ اس کے برعکس غیر مذہبی انسانوں کا سچ اپنی اصل میں موضوعی یا Subjective یا اضافی یعنی Relative ہوتا ہے۔ اس بات کی شہادت انفرادی سطح پر کم اور اجتماعی سطح پر زیادہ فراہم ہوتی ہے۔ مثلاً مغربی دنیا انسانی حقوق کی سب سے بڑی علمبردار ہے۔ مغربی دنیا کے سیاسی رہنما اور دانش ور آئے دن تیسری دنیا کے لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ انسانی حقوق کتنے مقدس ہیں اور ان کا تحفظ کتنا ضروری ہے۔ لیکن عملی سطح پر دیکھا جائے تو مغربی ممالک سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کرنے والا کوئی نہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے صدام حسین کے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور دس سال میں دس لاکھ افراد غذا اور دوائوں کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔ ان میں پانچ لاکھ بچے بھی تھے۔ جب ایک مغربی صحافی نے امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن ابرائیٹ سے اس صورت حال پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے پوری سفاکی سے دس لاکھ معصوم اور مظلوم انسانوں کی ہلاکت کو درست قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا ’’it is acceptable and worth it‘‘ مغربی دنیا میں آزادی کے تصور کی پوجا کی جاتی ہے مگر امریکا میں پیٹریاٹ ایکٹ کی آڑ میں مسلمانوں کی بہت ساری آزادیاں سلب کرلی گئی تھیں۔ امریکا نے گوانتاناموبے میں سیکڑوں مسلم قیدیوں کو مقدمہ چلائے بغیر دو دہائیوں تک قید رکھا۔ فرانس میں مسلم خواتین کے اسکارف کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ کئی یورپی ممالک میں مسجد تعمیر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مغرب کے دوا ساز ادارے جن دوائوں کو ان کے مضر اثرات ظاہر ہونے کے بعد اپنے بازاروں سے اٹھا لیتے ہیں انہیں تیسری دنیا میں فروخت کرتے رہتے ہیں۔ جاپان کے معاشرے میں اگر خوبیاں ہیں تو ان کا اعتراف نہ کرنا قرین انصاف نہیں۔ لیکن جاپان کی اخلاقیات کو ناپنے کا ایک اور پیمانہ موجود ہے۔ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ جاپان میں خواندگی کی شرح سو فی صد ہے۔ جاپان سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی رہنمائوں میں سے ایک ہے۔ جاپان معاشرے میں قانون پسندی اور ایمانداری کا تجربہ عام ہے۔ اتنے طاقت ور معاشرے کو اصولاً سیاسی اور ثقافتی معاملات میں آزاد ہونا چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جاپان اپنی تمام تر معاشی اور تکنیکی طاقت کے باوجود امریکا کا غلام ہے۔ مغربی رجحانات اس کی ثقافت کا جنازہ نکال چکے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جاپان کی مجموعی اخلاقی حالت کیسی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا سبب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جاپان کا بنیادی مسئلہ حقیقی عقیدے سے محرومی ہے۔

Leave a Reply