تحریک پاکستان شخصیات اور سیاسی جماعتوں کا تصادم نہیں تھا۔ اسی تحریک میں جناح بمقابلہ گاندھی اور کانگریس بمقابلہ مسلم لیگ کی فضا نہیں تھی۔ اس تحریک میں ایک مذہب دوسرے مذہب کے مقابل تھا۔ ایک تہذیب دوسری تہذیب کے خلاف صف آرا تھی۔ ایک تاریخ دوسری تاریخ سے پنجہ آزمائی کررہی تھی۔ ایک نظریہ دوسرے نظریہ سے گتھم گتھا تھا۔ چناں چہ پاکستان کی سیاست اور صحافت کو بھی پہلے دن سے آج تک نظریاتی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ چناں چہ ہماری سیاست اور صحافت پر شخصی، گروہی، طبقاتی اور جماعتی آویزش کا غلبہ رہا۔ جنرل ایوب گیارہ سال تک ملک و قوم پر مسلط رہے۔ وہ سر سے پائوں تک سیکولر تھے مگر ان کے خلاف تحریک چلی تو تشخصی بنیادوں پر۔ ان کے خلاف فوج میں بغاوت ہوئی تو گروہی اور مفاداتی حوالے سے۔ 1970ء میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی کے سوا کوئی نظریاتی جماعت انتخابی میدان میں نہ تھی۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان یا بنگالی قومیت کی علامت بن کر ابھری اور بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کے زاویہ نگاہ کی ترجمان بن کر سامنے آئی۔ فوج خود کو اسلام کی نہ سہی پاکستانیت کی علامت باور کراتی تھی مگر جنرل یحییٰ کو پاکستانیت عزیز ہوتی تو وہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرکے اقتدار شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے حوالے کردیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنرل یحییٰ اور ان کے فوجی ساتھیوں کا پاکستان صرف مغربی پاکستان تھا۔ اسی لیے سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹو نے کہا تھا خدا کا شکر ہے پاکستان کو بچالیا گیا۔ جنرل نیازی نے تو اس منظرنامے میں حد ہی کردی انہوں نے اسلام کا کیا پاکستانیت تک کا خیال نہ کیا۔ انہوں نے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے کہا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اتنا بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی قومیت بدل کر رہ جائے گی۔ جنرل نیازی نے اپنی قوم کے خلاف جو کہا وہ بات تو کوئی مسلمان اپنے بدترین دشمن کے خلاف بھی نہیں کہہ سکتا۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے لیکن اگر کوئی جنرل یہ کہے کہ ہم ہندو خواتین کا اتنے بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ ہندوئوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی تو اس بیان کو ایک لمحے کے لیے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ بھٹو صاحب کا زمانہ ایک حد تک نظریاتی تھا۔ اس زمانے میں بھٹو بائیں بازو کے ترجمان تھے اور جماعت اسلامی دائیں بازو کی ترجمان سمجھی جاتی تھی اور معاشرے میں مذہب اور سیکولر ازم کی کشمکش عروج پر تھی مگر بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک شروع ہوئی تو اس کا رنگ شخصی ہوتا چلا گیا۔ پی این اے کی تحریک کے دوران بھٹو کے خلاف یہ نعرہ لگا کرتا تھا۔
ہل چلے گا
ہل چلے گا
گنجے کے سر پر ہل چلے گا
گنجا سر کے بل چلے گا
آج نہیں تو
کل چلے گا
یہ نعرہ زور دار بھی تھا اور مقبول عوام بھی مگر اس کا کوئی نظریاتی رنگ نہیں تھا۔ یہ امر بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی این اے کی تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا رنگ جماعت اسلامی نے دیا ورنہ پی این اے کی اکثر جماعتوں کو صرف بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے میں دلچسپی تھی۔ یہ جماعتیں اینٹی سیکولر ازم نہیں اینٹی بھٹو تھیں۔
پاکستانی سیاست میں جنرل ضیا الحق کے ظہور نے معاشرے کا جیسا تیسا نظریاتی تشخص بھی ختم کردیا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا نظریاتی شہر تھا۔ اس شہر میں جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو کھڑا کرکے ’’مہاجریت‘‘ کا طوفان بدتمیزی خلق کر ڈالا۔ جنرل ضیا الحق نے طلبہ تنظیموں اور طلبہ یونینوں پر پابندی لگا کر ملک کی نوجوان نسل کو نظریاتی شعور سے بیگانہ کرنے اور نوجوانوں کی مزاحمتی صلاحیتوں کو کچل دینے کی سازش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیا اور پیپلز پارٹی کی کشمکش صرف ایک شخصی کشمکش تھی۔ اس کا کوئی نظریاتی حوالہ نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دو دہائیوں تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے رہے مگر ان کی کشمکش بھی شخصی اور خاندانی کشمکش تھی اس کا کوئی نظریاتی یا قومی حوالہ نہیں تھا۔ بدقسمتی سے عمران خان کے سیاسی ظہور نے بھی معاشرتی تقسیم کو گہرا کیا ہے لیکن عمران خان اور شریف خاندان کی کشمکش کا بھی کوئی نظریاتی پہلو نہیں ہے۔ البتہ اس کشمکش نے صرف سیاسی اور معاشرتی تقسیم ہی کو گہرا نہیں کیا بلکہ اس تقسیم نے اسٹیبلشمنٹ، صحافت اور عدلیہ کو بھی بدترین تقسیم کا شکار کردیا ہے۔ یہ منظر پوری قوم کے سامنے ہے کہ اے آر وائی عمران خان کا چینل بن کر اُبھر رہا ہے اور جیو اور جنگ کے بارے میں یہ خیال عام ہوا ہے کہ وہ شریفوں کے ادارے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک میں صرف روزنامہ جسارت اور روزنامہ مساوات کو پارٹی پریس کہا جاتا تھا مگر اب کون سا اخبار ہے جسے پارٹی پریس نہیں کہا جاسکتا۔ اب کون سا چینل ہے جو کسی نہ کسی پارٹی کا ترجمان نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کالم نگاروں تک کے نظریات ہوتے تھے مگر اب کالم نویس تک کسی نظریے کے بغیر اپنی اپنی پارٹی کا دفاع کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن علی بلال کی موت ایک المناک تجربہ ہے اور بلاشبہ اس موت کی ذمے دار شریف حکومت ہے۔ مگر ملک کے معروف کالم نگار خورشید ندیم نے ایک حالیہ کالم اس طرح تحریر کیا ہے کہ شریفوں پر علی بلال کے قتل کا الزام نہ لگنے پائے۔ خورشید ندیم نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’اس وقت دل کی جو کیفیت ہے، اس کو ناصر کاظمی سے بہتر کوئی نہیں بیان کرسکا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
علی بلال کی موت نے اداس کردیا۔ پوسٹ مارٹم کہہ رہی ہے کہ اُس پر موت سے پہلے تشدد ہوا۔ تادمِ تحریر یہ ثابت نہیں کہ یہ تشدد کس نے کیا۔ اسے جب ایک گاڑی میں اسپتال لایا گیا تو وہ جیتا جاگتا انسان نہیں، ایک لاش تھا۔ جو وہاں تک لائے، ان کے چہرے کیمروں نے محفوظ کرلیے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ رکے نہیں، کہیں غائب ہوگئے۔ علی بلال کو اسپتال لانے والے کون تھے؟ یہ گاڑی کس کی تھی؟ جب تک ان سوالات کے جواب نہیں ملتے، تشدد اور موت کے ذمے داران کا حتمی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ زیادہ اشارے پولیس کی طرف کیے جارہے ہیں کہ ایسے معاملات میں اس کا ریکارڈ کبھی اچھا نہیں رہا۔
اداسی کی بات یہ ہے کہ ایک سادہ لوح سیاسی کارکن اقتدار کی آگ کا ایندھن بن گیا۔ اہل سیاست کے لیے اُس کی موت، اس کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک طرف اس کے جنازے سے سیاسی قوت کشید کی جارہی ہے۔ دوسری طرف ریاست اسے اپنی قوت کے مظہر کے طور پر پیش کررہی ہے کہ جو ریاست سے ٹکرائے گا انجام یہ ہوگا۔ دونوں اطراف میں جو لوگ اقتدار کی لذتیں سمیٹنے والے ہیں، وہ اپنے اپنے قلعوں میں محفوظ ہیں۔ ان کے لیے کارکن اس فصیل کی اینٹوں سے زیادہ اہم نہیں جو اُن کی حفاظت کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔
ہر سیاسی جماعت سیاسی جلسے جلوس کا حق رکھتی ہے۔ دوسری طرف اگر عوام کی جان و مال کو خدشات لاحق ہوں تو حکومت کا یہ قانونی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ عارضی طور پر ان مظاہروں پر پابندی لگا سکتی ہے۔ تاہم حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کا جواز فراہم کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو عدالت ایسے سرکاری احکام کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اب لاہور میں دفعہ 144 ختم کردی گئی ہے۔ اس لیے ہر سیاسی جماعت آزادی سے اجتماع کرسکتی ہے۔
سیاسی ریلی تحریک انصاف کا حق تھا۔ اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ تاریخ البتہ ایسی تھی کہ اسے ایک آدھ دن موخر کیا جانا چاہیے تھا۔ 8 مارچ کو عورتوں کا دن منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو خواتین کے حقوق کے لیے جلسے جلوس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد جلوس برآمد کرتی۔ اس پر انتظامیہ سے بات ہونی چاہیے تھی۔ اگر دونوں اطراف معاملہ فہم لوگ ہوتے تو یہ قضیہ ایسا نہیں تھا جو حل نہ ہوسکتا۔ افسوس یہ معاملہ فہم لوگ یہاں نہیں پائے جاتے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 11 مارچ 2023ء)
شریف بدمعاشوں کی پوری تاریخ فسطائیت، تشدد، ضمیر کی خریدوفروخت اور محسن کشی کی تاریخ ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق کے بغیر ایک بہت بڑا صفر تھے۔ ان کے والد تک انہیں اپنے بیٹوں میں سب سے ناکارہ سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے میاں نواز شریف کو سیاست کے لیے وقف کیا تھا۔ اس پس منظر میں میاں نواز شریف، جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ قرار دیا کرتے تھے مگر اب وہ انہیں ایک ’’فوجی آمر‘‘ کہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میاں نواز شریف امیر جماعت اسلامی قاضی حسین کے گرویدہ تھے۔ ان کی نظر میں قاضی صاحب کا مقام یہ تھا کہ وہ قاضی صاحب کو اپنے خاندانی جھگڑوں میں ثالث بنایا کرتے تھے۔ مگر پھر میاں نواز شریف کی اصل فطرت عود کر آئی اور انہوں نے قاضی حسین احمد پر الزام لگایا کہ وہ نواز شریف سے کشمیر کے سلسلے میں دس کروڑ روپے لے کر ہڑپ کر گئے ہیں۔ یہ اتنا رکیک الزام تھا کہ جماعت کے رہنمائوں پر یہ الزام ان کے بدترین مخالف بھی نہیں لگا سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے قاضی صاحب پر الزام تو لگادیا مگر ثبوت ایک بھی نہیں دیا۔ لیکن یہ قاضی صاحب اور جماعت کی قیادت کے سلسلے میں میاں نواز شریف کی شیطنت کی محض ابتدا تھی۔ 1999ء میں میاں صاحب نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری کو پاکستان کے دورے پر لاہور بلایا۔ انہوں نے اس سلسلے میں قوم کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ چناں چہ جماعت اسلامی نے لاہور میں واجپائی کے خلاف ایک چھوٹا سا مظاہرہ کر ڈالا۔ یہ مظاہرہ جماعت اسلامی کا سیاسی اور جمہوری حق تھا۔ مظاہرہ مکمل طور پر پُرامن تھا مگر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو یہ مظاہرہ پسند نہ آیا اور انہوں نے پنجاب پولیس کے ذریعے والٹن روڈ پر واقع جماعت اسلامی کے دفتر کا محاصرہ کرلیا۔ پنجاب پولیس نے والٹن روڈ کے دفتر پر اتنی آنسو گیس پھینکی کہ قاضی صاحب اور منور حسن صاحب نے ہمیں خود بتایا کہ اگر آنسو گیس پھینکنے کا سلسلہ مزید بیس منٹ جاری رہتا تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت دم گھٹنے سے ہلاک ہوجاتی۔ شریف بدمعاشوں نے صرف یہی نہیں کیا۔ انہوں نے پنجاب پولیس کے ذریعے جماعت کے ساٹھ اور ستر سال کے بوڑھوں کو بھی اس بری طرح پٹوایا کہ بدترین مجرموں کے ساتھ بھی یہ سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ شریف بدمعاش یہ کراسکتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو تشدد سے کیوں ہلاک نہیں کرواسکتے؟ ایک زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف علامہ طاہر القادری کے دیوانے تھے۔ وہ ان کی طرف محبت سے دیکھتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کہیں آپ امام مہدی تو نہیں۔ لیکن پھر 2014ء میں شریفوں کی محسن کشی عود کر آئی اور انہیں لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون میں واقع طاہر القادری کی جماعت کے دفتر پر پنجاب پولیس چھوڑ دی۔ جس نے چند گھنٹوں میں 18 افراد کو شہید اور 50 سے زائد کو زخمی کردیا۔ شہید ہونے والوں میں حاملہ خواتین بھی شامل تھیں۔ شریف بدمعاش یہ کرسکتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو تشدد سے ہلاک کرکے عمران خان کو سخت پیغام کیوں نہیں دے سکتے؟ آج جنگ اور جیو کے مالک میر شکیل الرحمن میاں صاحب کے صحافتی اتحادی ہیں مگر 1990ء کی دہائی کے اواخر میں میاں نواز شریف نے میر شکیل الرحمن کے انگریزی اخبار کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی کو ایک نظم شائع کرنے کے الزام میں گھیر لیا تھا اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔ ملیحہ لودھی کو نامعلوم فون نمبرز سے فون آرہے تھے کہ تمہارے گھر کو دھماکوں سے اڑا دیا جائے گا۔ شریف بدمعاش یہ کرسکتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو پولیس سے تشدد کرواکر مار بھی سکتے ہیں۔ شریف بدمعاشوں نے صحافت میں کس طرح ضمیر خریدے ہیں اس کی ایک مثال قاضی حسین احمد نے ہمیں خود سنائی۔ قاضی صاحب کے بقول انہوں نے میاں نواز شریف کو کشمیر کاز آگے بڑھانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں مجیب الرحمن شامی سمیت ملک کے اہم صحافیوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔ یہ سن کر نواز شریف نے قاضی صاحب سے کہا کہ شامی صاحب کا تو ذکر نہ کریں ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر انہیں پیسے ملنے میں تاخیر ہوجاتی ہے تو وہ فون کرکے میرا جینا حرام کردیتے ہیں۔ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ شریفوں کا خدا صرف پیسہ ہے۔ معروف صحافی ضیا شاہد نے نواز شریف سے متعلق اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ میاں صاحب کے والد نے ضیا شاہد سے کہا کہ میں نے نواز شریف کی سیاست پر تین ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ضیا شاہد نے پوچھا اب آپ کی توقع کیا ہے۔ نواز شریف کے والد نے کہا کہ اب نواز شریف کو کم از کم 9 ارب روپے مجھے لوٹانے چاہئیں۔