اسلامی دنیا کہنے ہی کو اسلامی ہے۔ ورنہ اس دنیا کی ہر چیز مغرب سے آئی ہوئی ہے۔ اسلامی دنیا کا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے۔ اسلامی دنیا کا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے۔ اسلامی دنیا کا عدالتی نظام مغرب کی دین ہے۔ اسلامی دنیا کے تعلیمی بندوبست پر مغرب کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ہمارا لباس مغربی ہے، ہماری غذا مغربی ہے، ہماری تفریح مغربی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، آرزوئیں اور تمنائیں بھی مغرب سے آرہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر خوابوں پر میڈاِن امریکا یا میڈاِن یورپ لکھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم دنیا میں مغرب سے تعلق رکھنے والوں کی تین اقسام ہیں۔ مسلم دنیا کے کچھ لوگ صرف مغرب سے ’’متاثر‘‘ ہیں۔ ایسے لوگوں کی زبان و بیان اور لب و لہجے سے مغرب کی تعریف اور توصیف جھلکتی ہے۔ مسلم دنیا کے کچھ لوگ مغرب سے ’’مرعوب‘‘ ہیں۔ ایسے لوگ مغرب کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی زبان وبیان اور لب و لہجے میں حیرت و ہیبت ہوتی ہے۔ البتہ مسلم دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مغرب کو خدا بنایا ہوا ہے اور وہ باقاعدہ مغرب کی پوجا کرتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے کالم نگار افضال ریحان بھی مغرب کے پجاریوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے کالموں میں مغرب کا ذکر آتا ہے تو اس ذکر میں افضال ریحان مغرب کی پوجا کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ مغرب کے سامنے رکوع کی حالت میں ہوتے ہیں۔ کبھی سجدے کی حالت میں۔ افضال ریحان کی مغرب پوجا ان کے ایک حالیہ کالم میں پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہورہی ہے۔ انہوں نے کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’عصر حاضر کی فکری و شعوری ترقی ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے جس کی بنیاد منطق و استدلال اور انسان نوازی پر ہے، آپ کا عقیدہ یا مذہب کیا ہے؟ یہ آپ کا اور آپ کے معبود کا باہمی معاملہ ہے، سماج یا دیگر افراد کا اس سے کوئی واسطہ یا سروکار نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے ورنہ ایک سو ایک پیچیدگیاں اور مسائل جنم لیں گے۔ اکیسویں صدی کا انسانی شعور ’’مساوات مردو زن‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’انسانی مساوات‘‘ کے نظریے کو بالفعل اپنا چکا ہے۔ آج کے مہذب سماج میں مذہبی، نسلی یا جنسی امتیازات و تعصبات اپنی تمام تر عصبیت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ تہذیبی سربلندی محض مغرب، امریکا یا یورپ کا ہی طرہ امتیاز نہیں رہی، کئی مشرقی اقوام بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کی مثالیں اپنی جگہ مگر درویش کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان جیسے ذات پات میں جکڑے ہوئے دقیانوس سماج میں یہ کتنا بڑا انقلاب ہے کہ انہوں نے پون صدی قبل اپنی اس نوآزاد جمہوریہ کو جو سیکولر پارلیمانی جمہوری آئین دیا، وہ انسانی حقوق اور انسانی مساوات کے وسیع تر تصورات کے ساتھ ایک آئیڈیل آئین ہے، روایتی ہندو سماج میں اونچی اور نیچی جاتی کے جتنے بھی تعصبات ہیں شدت پسندی کے ردعمل میں ابھرنے والی جتنی بھی مذہبی منافرتیں ہیں آفریں ہے اس عظیم قوم کی قیادت پر کہ تمام تر عصبیت کے باوجود انسانی مساوات کے حوالوں سے اس قابل فخر آئین کا ایک بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکا بلکہ ماضی میں اگر کوئی سہو یا تجاوز ہوگیا تھا تو اس کی بھی درستی کردی گئی ہے، کوئی مرد ہے یا عورت، شودر ہے یا برہمن بھارتی آئین سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے، یہ اسی آئین عظمت کا کرشمہ ہے کہ ڈھائی فی صد مذہبی اقلیت کا فرد ایک ارب تیس کروڑ کے انڈیا کا وزیراعظم منتخب ہو کر برسوں عالمی برادری سے اپنی قوم کے معاملات طے کرتا دکھائی دیتا ہے بشمول خواتین اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما صدر جمہوریہ بن کر عالمی طاقتوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
(روزنامہ جنگ۔ 9 مارچ 2023ء)
مولانا مودودی عہد جدید کے سب سے بڑے مجدد تھے۔ 20 ویں صدی مسلم دنیا کے رہنما تو بہت تھے مگر امام صرف ایک تھا۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا مودودیؒ نے جدید مغربی تہذیب کو سو فی صد مسترد کردیا ہے۔ مولانا مودودی نے جدید مغرب کو توہین آمیز القابات سے یاد کیا ہے۔ مولانا نے جدید مغرب کو ’’باطل‘‘ کہا ہے۔ ’’شجر خبیث‘‘ کہا ہے، ’’تخم خبیث‘‘ کہا ہے۔ مولانا کی مغرب سے یہ نفرت اتفاقی چیز نہیں تھی۔ جدید مغرب خدا کا منکر ہے۔ رسالت کا منکر ہے۔ علم وحی کا منکر ہے۔ آخرت کا منکر ہے۔ جنت و دوزخ کا منکر ہے۔ فرشتوں کے وجود کا منکر ہے۔ معروضی اخلاق یا Objective Morality کا منکر ہے۔ چنانچہ مغرب کسی بھی باہوش مسلمان کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اقبال مذہبی معنوں میں مجدد تو نہیں تھے مگر وہ 20 ویں صدی کی سب سے بڑی تخلیقی آواز تھے۔ چنانچہ اقبال نے اپنی شاعری میں مغرب کی ہرچیز کا مذاق اُڑایا ہے۔ اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘۔ اس نظم میں اقبال نے ابلیس سے مغرب کے پیدا کردہ جمہوری رہنمائوں یا سیاست دانوں کو شیطان قرار دیا ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال اس خوبصورت نظم میں کیا کہہ رہے ہیں۔
کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے
پرکالۂ آتش ہُوئی آدم کی کفِ خاک!
جاں لاغر و تن فربہ و ملبُوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں، خِرد پُختہ و چالاک!
ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک!
تجھ کو نہیں معلوم کہ حُورانِ بہشتی
ویرانیِ جنت کے تصّور سے ہیں غم ناک؟
جمہور کے اِبلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مغرب کے زیر اثر سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کے تصور جہاد کا مذاق اُڑانا شروع کردیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ جہاد کا تصور پرانا ہوگیا ہے۔ اب نیا زمانہ ہے اور نئے زمانے میں جہاد تلوار سے نہیں صرف قلم سے ہوگا۔ اقبال نے اس کے جواب میں جہاد کے عنوان سے ایک معرکہ آرا نظم تحریر کی۔ اس نظم میں اقبال نے فرمایا۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجہٗ خونیں سے ہو خطر
باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!
چونکہ مغرب باطل اور شجر خبیث ہے اس لیے اقبال کی شاعری مغرب کی تنقید سے بھری ہوئی ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال نے اپنی شاعری میں مغرب کا ذکر کن الفاظ میں کیا ہے۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
٭٭
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ
٭٭
تعلیم پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو ہستیٔ غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
٭٭
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دید استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایاتِ حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آفریں
گرمئی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھتا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
٭٭
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
٭٭
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
افضال ریحان نے اپنے کالم میں مغرب کو علم و شعور اور منطق و استدلال کا سرچشمہ قرار دیا ہے اور اسے مساوات کا علمبردار گردانا ہے۔ لیکن مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس میں ایک ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا ہے۔ دوسری ’’ترقی پزیر‘‘ دنیا ہے۔ تیسری ’’پسماندہ‘‘ دنیا ہے۔ چونکہ ترقی یافتہ صرف مغرب ہے اس لیے دنیا میں اہمیت صرف مغرب کی ہے۔ مغرب نے پوری ترقی پزیر اور پسماندہ دنیا کو عملاً اپنا سیاسی اور معاشی غلام بنایا ہوا ہے۔ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں جمہوریت آتی ہے تو مغرب کی مرضی سے۔ ان ممالک میں فوجی آمریت آتی ہے تو مغرب کی آشیرباد سے۔ کیا یہی مغرب کا علم اور شعور اور یہی اس کی منطق و استدلال ہے؟ کیا یہی مغرب کی مساوات ہے؟ مغرب کہتا ہے کہ پوری دنیا کو جمہوری ہونا چاہیے۔ لیکن مسلم دنیا میں اسلامی تحریکیں انتخابات جیت کر کھڑی ہوتی ہیں تو مغرب مسلم دنیا کے جرنیلوں اور فوجوں کے ذریعے ان کے خلاف سازش کرادیتا ہے۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی مگر مغرب نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ اس نے الجزائر کی فوج کو پاگل کتے کی طرح اسلامی فرنٹ پر چھوڑ دیا۔
جس کے نتیجے میں الجزائر میں خانہ جنگی ہوگئی اور دس سال میں دس لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ فلسطین میں حماس نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی مگر امریکا اور یورپ نے حماس کی جمہوری اور انتخابی کامیابی کو تسلیم ہی نہ کیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان کس طرح ترکی کے وزیراعظم بن گئے مگر مغرب نے ان کو ’’اسلامسٹ‘‘ قرار دے کر ان کی حکومت کو ایک سال میں گرا دیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو بمشکل ایک سال چلنے دیا گیا۔ ایک سال کے بعد جنرل سیسی کو صدر مرسی اور اخوان پر بھوکے بھیڑیے کی طرح چھوڑ دیا گیا۔ اس سلسلے میں امریکا کا کردار اتنا شرمناک تھا کہ اس نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا بھی قرار نہ دیا کیونکہ اس صورت میں امریکا کو مصر کی معاشی امداد روکنی پڑ جاتی۔ بنگلادیش میں جماعت اسلامی ایک بڑی عوامی قوت بن کر اُبھر رہی تھی۔ مغرب نے حسینہ واجد سے اس پر پابندی لگوا دی۔ رجب طیب اردوان ترکی کے سیکولر آئین کے پاسدار ہیں مگر اس کے باوجود مغرب انہیں ’’خفیہ اسلامسٹ‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ طیب اردوان کے دور میں ترکی کے اندر اسلام رینگتا ہوا ہی سہی مگر آگے بڑھ رہا ہے چنانچہ مغرب نے فوج کے ذریعے ان کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی جسے ترکی کے غیور عوام کی مزاحمت نے ناکام بنادیا۔ کیا یہی مغرب کا شعور اور یہی اس کی مساوات ہے؟
مغرب نے بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے 20 ویں صدی میں اقوام متحدہ بنائی۔ لیکن مغرب نے اقوام متحدہ کے دو حصے کیے کہ اقوام متحدہ کا ایک حصہ جنرل اسمبلی ہے۔ جنرل اسمبلی میں تقریروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور اس کی منظور کی ہوئی قرار دادوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اقوام متحدہ کا دوسرا حصہ سلامتی کونسل ہے جہاں پانچ بڑوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ ان پانچ میں سے چار بڑے مغربی ممالک ہیں۔ ان ویٹو پاورز نے گزشتہ 70 سال میں نہ مسئلہ کشمیر کو حل ہونے دیا نہ مسئلہ فلسطین کو حل ہونے دیا۔ کیا یہی مغرب کا شعور، اس کا علم، اس کی منطق، اس کا استدلال اور اس کی مساوات ہے؟
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ امریکا کے سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے لیے وہاں 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو ہلاک کردیا۔ کیا یہی مغرب کی منطق اور اس کی مساوات ہے؟ جدید مغرب نے 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ایجاد کیں جن میں 10 کروڑ افراد ہلاک اور 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ کیا یہی مغرب کا شعور اس کی منطق اور اس کی مساوات ہے؟ افضال ریحان جیسے مغرب کے پجاریوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی پوجا تو دل لگا کر کرتے ہیں لیکن خود مغرب میں ہونے والی مغرب کی تنقید نہیں پڑھتے۔ اسپنگلر 20 ویں صدی میں مغرب کے دو بڑے مورخین میں سے ایک تھا اس نے 20 ویں صدی کے اوائل میں ’’زوال مغرب‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی جس میں اسپنگلر نے ثابت کیا ہے کہ جدید مغرب ہر اعتبار نے زوال پزیر ہے۔ مغرب کے ممتاز فلسفی نٹشے نے کہا تھا کہ ہم عہد جدید میں ہر اعتبار سے بالشتیے پیدا کررہے ہیں۔ آرنلڈ ٹوائن بی 20 ویں صدی کے سب سے اہم مورخ تھے انہوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ مغرب کو موت سے بچانے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب تہذیب یہ کسی طرح روحانیت داخل کردی جائے اور دوسرے یہ کہ اسے ٹیکنالوجی کے عشق سے نجات دلائی جائے۔ مگر افضال ریحان جیسے لوگ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں ترقی کرنی ہے تو مغرب جیسے بنو۔