مغرب اور اس کے آلہ کار ایک ہزار سال سے اسلام کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ رسول اکرمؐ پیغمبر نہیں ہیں۔ مغرب رسول اکرمؐ کو عظیم شخصیت کہتا ہے۔ ان کا شمار تاریخ کے بڑے لوگوں میں کرتا ہے مگر انہیں نبی تسلیم نہیں کرتا۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ چونکہ رسول اکرمؐ پیغمبر نہیں ہیں اس لیے اسلام ’’آسمانی مذہب‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ معاذاللہ رسول اکرمؐ کی ایجاد ہے۔ انہوں نے کچھ یہودیت سے لیا کچھ عیسائیت سے لیا اور اس کو جوڑ کر اسلام بنالیا۔ مغرب کا اسلام کے بارے میں ایک پرانا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اس موضوع پر اکبر الٰہ آبادی نے ایک معرکہ آرا شعر کہہ رکھا ہے۔ اس لیے وہ بھی سن لیجیے۔ اکبر نے کہا ہے۔
یہی کہتے رہے تلوار سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
20 ویں صدی کے آغاز میں مغرب کے دانش وروں نے اسلام کے بارے میں یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا۔ اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لیکن 20 ویں صدی کے وسط میں اسلام نے پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کر ڈالی۔ مولانا مودودیؒ اور حسن النبا نے مسلم دنیا میں احیا کی غیر معمولی تحریکیں برپا کردیں۔ 1999ء میں اسلام نے ایران میں انقلاب برپا کردیا۔ 1980ء کی دہائی میں اسلام کے تصورِ جہاد نے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو افغانستان میں منہ کے بل گرادیا۔ اس صورت حال میں مغرب نے اسلام کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے نئے حملوں کا آغاز کیا۔ مغرب نے کہا اسلام ایک نہیں ہے۔ ایک روایتی اسلام ہے۔ ایک صوفی اسلام ہے۔ ایک سیاسی اسلام ہے۔ ایک جدید اسلام ہے۔ ایک اسلحہ بردار اسلام ہے۔ مسلم دنیا میں موجود مغرب کے ایجنٹوں نے مغرب کا سکھایا ہوا یہ سبق یاد کرلیا اور اب وہ آئے دن اپنی تحریروں میں اسلام اور اسلامی معاشرے کا کوئی نہ کوئی نیا روپ ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کے مغربی ایجنٹ ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں اور بدقسمتی سے خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد ہیں۔ چناں چہ وہ اپنے کالموں میں اسلام اور اسلامی معاشرے کے خدوخال مسخ کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں خورشید ندیم کا ایک حالیہ کالم مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کالم میں خورشید ندیم نے کیا فرمایا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ہمارا تصورِ اسلام ہماری جغرافیائی اور کلچرل حساسیت سے ماخوذ ہے۔ مسلم معاشرے زیادہ تر پدرسرانہ ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اسلام کو لاحق تمام خطرات عورت کے وجود سے پھوٹ رہے ہیں۔ وہی ہے جو مرد کو گمراہ اور سماج کو بے راہ گرتی ہے۔ اس کو اگر مرد سے دور اور چار دیواری میں قید کردیا جائے تو سماجی فتنوں کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ مرد کی عصمت کو محفوظ بنانے کا یہی طریقہ ہے۔
اخباری خبر ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ اور طالبات کے لیے پردہ لازم کردیا ہے۔ اس پر تحسین کے پھول نچھاور کیے جارہے ہیں کہ وہاں کی حکومت نے کیسے اسلام کے ساتھ سچی وابستگی کا ثبوت دیا ہے۔ اسی طرح ہر سال عورت مارچ کو روکنا اسلام کا سب سے بڑا ’’تقاضا‘‘ بن جاتا ہے اور مجاہدین سر پر کفن باندھے سڑک پر نکل آتے ہیں کہ آج کے دن اگر دینی حمیت کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو کب کریں گے۔
عورت کے بعد، ہمارا دوسرا ہدف، عام طور پر مذہبی اقلیتیں ہیں۔ ان کو آئے دن یہ احساس دلانا بھی ہمارا ’’مذہبی فریضہ‘‘ ہے کہ وہ ایک اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں اور انہیں اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ ایک کالم سے اٹھنے والی صدائے احتجاج سے معلوم ہوا کہ سول سروسز اکیڈمی میں ہولی کا تہوار منایا گیا۔ سوال یہ اٹھایا گیا کہ جس ملک کے اعلیٰ تربیتی ادارے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
میں تیس پینتیس برس سے اسلام اور سماجیات کا طالب علم ہوں۔ مقدور بھر اللہ کی ہدایت اور سماجی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم جسے اسلام کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ اکثر ہمارے ان احساسات کا نتیجہ ہے جو ہمارے کلچر اور ماحول سے پھوٹے ہیں۔ ہم نے ان کی روشنی میں دینی متون کی تعبیر کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی اس کلچر اور ماحول کی تبدیلی کی طرف توجہ دلاتا ہے تو ہم اسے مطعون کرتے ہیں کہ وہ خود بدلتا نہیں، دین کو بدلنا چاہتا ہے۔ مراکش سے افغانستان تک مسلم معاشروں کے ساجی رویے یکساں نہیں۔ جب سب ایک دین کو مانتے ہیں تو رویوں میں یہ تنوع کیوں ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو مذہبی نہیں۔ اس کا تعلق زمان و مکان سے ہے۔ انبیا کی سیرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماجی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں تک احکام الٰہی کا ابلاغ کرتے اور اس باب میں اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ اس میں حالات کے ساتھ اہم اور اہم تر کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسے قرآن مجید نے حکمت سے تعبیر کیا ہے۔ مذہب سماج کو تدریجاً بہتری کی طرف لاتا ہے۔ جب اس کا ادراک نہیں ہوتا تو ہم دینی حمیت کے نام پر لوگوں کو تکلیف مالایطاق میں مبتلا کردیتے ہیں‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 14 مارچ 2023)
اسلام زمان و مکان سے ماورا ایک حقیقت ہے۔ بلاشبہ اسلام کی اپنی ایک تاریخ ہے مگر خود اسلام ایک ماورائے تاریخ حقیقت یا Metahistorical Reality ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح مغرب میں فلسفے کا ’’ارتقا‘‘ ہوا ہے اسلام کو کبھی ’’ارتقا‘‘ کا مرض لاحق نہیں ہوسکا۔ لیکن خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ ہمارا اسلام ہماری جغرافیائی اور کلچرل حساسیت سے ماخوذ ہے۔ اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ توہین آمیز بات شاید ہی کہی جاسکتی ہو۔ اسلام کا بنیادی تصور توحید ہے اور توحید کا تصور آج بھی وہی ہے جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں تھا۔ اسلام کا ایک بنیادی تصور رسالت ہے اور ہمارے زمانے میں بھی رسالت کا تصور وہی ہے جو رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں تھا۔ اسلام کا ایک اساسی تصورِ آخرت ہے اور مسلمانوں نے چودہ سو سال کے دوران اس تصور میں بھی کوئی ترمیم نہیں کی ہے۔ مسلمان خدا اور رسولؐ کے بعد قرآن کو حکم مانتے ہیں اور قرآن کے زیر و زبر بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ اسلام کے حلال و حرام کل بھی معروضی یا Objective تھے آج بھی اسلام کے حلال و حرام معروضی یا Objective ہیں۔ مسلمان کل بھی پانچ فرض نمازوں کے قائل تھے آج بھی وہ پانچ فرض نمازوں کے قائل ہیں۔ مسلمان ایک ہزار سال پہلے بھی رمضان المبارک میں 29-30 روزے رکھتے تھے آج بھی وہ رمضان المبارک میں 29 یا 30 روزے رکھتے ہیں۔ مسلمان پہلے بھی حج کرتے تھے آج بھی حج کرتے ہیں۔ مسلمان رسول اکرمؐ اور عہد خلافت میں بھی ڈھائی فی صد زکوٰۃ دیتے تھے آج بھی ڈھائی فی صد زکوٰۃ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے مسلمان پہلے یہ دیکھتے تھے کہ خود قرآن کسی آیت کے سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے آج بھی مسلمان پہلے یہی دیکھتے ہیں کہ خود قرآن اپنی کسی آیت کے بارے میں ہمیں کیا آگہی فراہم کرتا ہے۔ قرآن کی تعبیر کے سلسلے میں کل بھی احادیث کی اہمیت بنیادی تھی آج بھی بنیادی ہے۔ ایک ہزار سال پہلے بھی قرآن کی تشریح کے سلسلے میں صحابہ کے اقوال اہم تھے آج بھی اہم ہیں۔ قرآن کی تعبیر کے سلسلے میں پہلے بھی مفسرین تابعین اور تبع تابعین کے خیالات کو اہمیت دیتے تھے آج بھی دیتے ہیں۔ قرآن کی تفسیر بالرائے ایک ہزار سال پہلے بھی نامحمود تھی آج بھی نامحمود ہے۔ تو پھر ہمارا اسلام ہماری جغرافیائی اور کلچرل حساسیت سے ماخوذ کیسے ہوگیا؟ اور اگر بالفرض کسی کا اسلام جغرافیائی اور کلچرل حساسیت سے ماخوذ ہے بھی تو اس کا اصل اسلام اور مسلمانوں کی اصل تاریخ سے کیا تعلق ہے اور اسے مسلمانوں کے لیے مثال بنا کر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟
مغرب مسلمانوں پر ایک الزام یہ لگاتا ہے کہ ان کے معاشرے پدرسری نہیں۔ اس اصطلاح ایک سطح پر مفہوم یہ ہے کہ مسلم معاشرے ’’ماں مرکز‘‘ نہیں ’’باپ مرکز‘‘ ہیں۔ دوسری سطح پر اس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ مسلم معاشرے مرد مرکز یا Man centric ہیں عورت مرکز یا Woman centric نہیں۔
خورشید ندیم نے بھی اپنے کالم میں مغرب کا یہی تھوکا ہوا نوالہ چبا ڈالا ہے۔ خورشید ندیم اسلامی تاریخ سے آگاہ ہیں۔ وہ ذرا بتائیں کہ رسول اکرمؐ کے 23 سالہ عہد مبارک میں کب کسی نے یہ کہا کہ رسول اکرمؐ کے زمانے کا معاشرہ ’’پدرسری‘‘ ہے اور یہ ایک منفی بات ہے۔ کیا عہد خلافت میں کبھی کسی نے یہ کہا کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کا معاشرہ پدرسری ہے اور یہ ایک بری بات ہے۔ معاشرے کا پدرسری ہونا اگر بری یا منفی بات ہوتی تو رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین خود اس کی مذمت فرمادیتے مگر رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین نے ایسا نہیں کیا۔ صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین میں سے بھی کسی نے پدراسری معاشرے کی مذمت نہیں کی۔ امام غزالی پورے مشرق اور مغرب کو گھول کر پی گئے تھے مگر انہوں نے بھی کہیں پدرسری معاشرے کی برائی بیان نہیں کی۔ اسے عیب نہیں گردانا۔ غزالی سے اب تک لاکھوں علما آئے ہیں مگر ان میں سے کسی نے بھی پدرسری معاشرے کو عیب بنا کر پیش نہیں کیا۔ لیکن خورشید ندیم مغرب کے زیر اثر پاکستانی معاشرے کو پدرسری کہہ کر اس پر تھوک رہے ہیں۔ خورشید ندیم کے فقرے کا ’’تاثر‘‘ یہ ہے کہ دنیا میں اب کوئی معاشرہ پدرسری نہیں رہا یہ صرف مسلمانوں کے معاشرے ہیں جو پدرسری ہیں۔ تو کیا مغرب کے معاشرے مادر سری، عورت مرکز یا Woman Centric ہوگئے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
مغرب میں سیاست معاشرے کی طاقت کا سب سے اہم حوالہ ہے اور مغرب کی پوری سیاست ’’پدرسری‘‘ ہے۔ برطانیہ جمہوریت کی ماں ہے مگر وہاں دو سو سال کی تاریخ میں صرف دو عورتیں وزیراعظم بن سکی ہیں۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور وہ مغربی دنیا کا قائد ہے۔ امریکا کو سب سے مضبوط جمہوریت بھی کہا جاتا ہے مگر امریکا میں آج تک کوئی عورت ملک کی صدر نہیں بن سکی۔ دنیا کے دیگر مغربی ممالک کی صورت حال بھی یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کی سیاست پر مردوں کا غلبہ کیا بتارہا ہے؟ یہ کہ مغربی معاشرے ’’مرد مرکز‘‘ ہیں یا عورت مرکز؟۔
مغرب کی پوری ترقی ان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کی مرہون منت ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب کی سائنسی و تکنیکی ترقی کی پشت پر مرد کھڑے ہیں یا خواتین کھڑی ہیں؟ مغرب کی صنعت و تجارت کی ترقی بھی ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ترقی کا سہرا کس کے سر ہے۔ مردوں کے یا عورتوں کے؟ اس بنیاد پر اصل سوال یہ ہے کہ یہ تمام دائرے ہمیں کیا بتاتے ہیں؟ یہ کہ مغربی معاشرے مرد مرکز ہیں یا عورت مرکز؟ مغرب میں اہل کمال کو نوبل انعام سے نوازا جاتا ہے اور نوبل انعام دنیا میں اپنی طرز کا سب سے بڑا انعام ہے۔ اس انعام کی تاریخ کے مطابق گزشتہ 122 برس میں 102 مردوں اور صرف 17 عورتوں نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کیا بتارہی ہے؟ یہ کہ مغربی دنیا ’’مرد مرکز‘‘ ہے یا ’’عورت مرکز‘‘۔ مغرب کی ثقافتی زندگی کا سب سے بڑا مظہر امریکا کی فلم انڈسٹری بالی وڈ ہے۔ اس انڈسٹری نے گزشتہ سو سال میں اگر ایک ہزار فلمیں تخلیق کی ہیں تو ان میں سے 900 فلموں کا مرکزی کردار مرد ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاملے کی یہ نوعیت ہمیں کیا بتارہی ہے؟ کیا یہ کہ مغرب کا معاشرہ پدرسری ہے یا عورت مرکز؟ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر ساری دنیا کے معاشرے پدرسری ہیں تو خورشید ندیم صرف مسلم معاشروں کو پدرسری ہونے پر کیوں مطعون کررہے ہیں؟
خورشید ندیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلم معاشرے کے لوگ عورت کو ہر خرابی کی جڑ سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال کہ یہ عورت ہے جو مرد کو بے راہ رو کرتی ہے۔ چناں چہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر عورت کو چار دیواری میں قید کردیا جائے تو سماجی فتنوں کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ ہماری خوشی گمانی ہے کہ خورشید ندیم نے مغرب کے ممتاز ادیب ڈی ایچ بورنس کو کچھ نہ کچھ ضرور پڑھا ہوگا اور کچھ نہیں تو انہوں نے لارنس کا ذکر ضرور سنا ہوگا۔ لارنس مغرب کے بڑے عبقریوں میں سے ایک ہے۔ اس کے یہاں عورت اور جنس کی غیر معمولی تفہیم ملتی ہے۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ لارنس کا ایک چھوٹا سا مضمون Give Her A Pattern ضرور پڑھیں۔ اس مضمون میں لارنس نے صاف کہا ہے کہ عورت خود خراب نہیں ہوتی، یہ مرد ہے جو عورت کو خراب کرتا ہے۔ یہ مرد ہے جو عورت کو فکر و عمل کے سانچے بنا کر دیتا ہے۔ عورت مرد کے بنائے ہوئے سانچوں کو من و عن قبول کرتی ہے۔ مرد عورت کو پاک باز بنانا چاہتا ہے تو وہ پاک باز بن جاتی ہے۔ مرد عورت کو جسم فروش بنانا چاہتا ہے تو عورت پیشہ کرنے لگتی ہے۔ لارنس کا یہ تجزیہ بڑی حد تک درست ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کی عورت اگر عریاں ہے تو مرد کی وجہ سے، وہ ٹی وی اسکرین پر اپنی ادائیں فروخت کررہی ہے تو مرد کے اُکسانے پر، وہ روایات سے بغاوت کررہی ہے تو مردوں کے اشارے پر، وہ شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال سے گریزاں ہے تو مردوں کے دیے ہوئے ’’تصورِ زندگی‘‘ کی وجہ سے۔ یہ منظر ہمارے سامنے ہے کہ مغرب عورت کو ماں، بیوی، بہن، بیٹی، سائنس داں، ڈاکٹر، انجینئر اور استاد کی حیثیت سے ’’عظیم‘‘ بنا کر پیش نہیں کررہا۔ وہ اسے اداکارہ، گلوکارہ، ماڈل اور Porn Star کی حیثیت سے ’’عظیم‘‘ بنا کر پیش کررہا ہے۔ چناں چہ عورت انہی حیثیتوں کو اہم سمجھ رہی ہے۔ مگر خورشید ندیم اور ان جیسے لوگ ان امور پر غور ہی نہیں کرتے۔ یہاں ہمیں اقبال کی ایک چھوٹی سی نظم ’’پنجابی مسلمان‘‘ یاد آرہی ہے۔ اس نظم میں خورشید ندیم کے لیے سیکھنے کی کئی باتیں ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد