کیا آپ نے کبھی نواز لیگ کے رہنما اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے چہرے کو غور سے دیکھا ہے؟ ان کے چہرے پر ہر جرم کے آثار موجود ہیں۔ وہ چہرے سے شرابی لگتے ہیں، چرسی لگتے ہیں، افیمچی لگتے ہیں، زانی لگتے ہیں، قاتل لگتے ہیں، لُچّے لگتے ہیں، لفنگے لگتے ہیں، راشی لگتے ہیں۔ ان کے چہرے پر سفاکی بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ ان کے چہرے پر شقی القلبی نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ ان کے چہرے پر آدم خوری گلی ڈنڈا کھیل رہی ہے۔ ایسا چہرہ کروڑوں میں سے ایک کا ہوتا ہے۔ رانا ثنا اللہ شریف خاندان کے باطن کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ رانا ثنا اللہ نے اپنی قاتلانہ جبلت یا Killing Instinct کا کھل کر اظہار کردیا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے سیاست کو اس اسٹیج پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اب یا تو عمران رہے گا یا ہم رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وجود کی نفی کی گئی تو ہم جمہوری اور غیر جمہوری یا اصولی اور غیر اصولی کو نہیں دیکھیں گے بلکہ ہم اپنی بقا کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بات اب پوائنٹ آف نوریٹرن تک جا پہنچی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کو اتنا بھگائیں گے کہ وہ ایک دن خود ہی کہے گا کہ مجھے پکڑ لو۔ بلاشبہ عمران خان شریف خاندان اور نواز لیگ کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں۔ انہوں نے شریف خاندان کو دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا ہے۔ اس کے ردعمل میں شریف خاندان عمران خان کے خلاف جو سیاسی اقدام کرے کم ہے مگر رانا ثنا اللہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ شریف خاندان عمران خان کا سیاسی طور پر مقابلہ نہیں کر پارہا۔ چناں چہ وہ عمران خان کی سیاسی موت کے بجائے ان کی جسمانی موت کے درپے ہوچکا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو رانا ثنا اللہ یہ نہ کہتے کہ اب یا تو عمران رہے گا یا ہم رہیں گے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلادیش سیاست میں سیاسی حریفوں کو فنا کرنے کی خواہش ہر زمانے میں نہ صرف یہ کہ موجود رہی ہے بلکہ اس خواہش نے بارہا عمل کا روپ اختیار کیا ہے۔ پاکستان کے جرنیل ایک طبقے کی حیثیت سے سیاست دونوں کے بدترین حریف رہے ہیں۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954 سے امریکیوں کو خفیہ مراسلے لکھ رہے تھے۔ وہ ان خفیہ مراسلوں میں امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب جس وقت یہ خفیہ مراسلے لکھ رہے تھے امریکا وقت کی ایک سپر پاور بن کر ابھر چکا تھا اور امریکی سی آئی اے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ چناں چہ امریکا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستانی سیاست دان کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کو جنرل ایوب کی رہنمائی کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ مگر اس کے باوجود جنرل ایوب اپنے گھر کے پوتڑے امریکیوں کے سامنے دھو رہے تھے۔ جنرل ایوب نے جب 1954ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے ملک کے سیاسی عدم استحکام کو مارشل لا کا جواز قرار دیا تھا مگر دس سال بعد جنرل ایوب جب ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک میں اس وقت سے زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا جب جنرل ایوب نے ملک پر مارشل لا مسلط کیا تھا۔ جنرل ایوب نے سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو فنا کرنے کے لیے انہیں کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں زندہ رہیں۔ جنرل ایوب سیاسی حریفوں کے اتنا خلاف تھے کہ انہوں نے مادرِ ملت فاطمہ جناح تک کو نہ بخشا۔ فاطمہ جناح نے ایوب کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔ جنرل ایوب نے اس بات کا اتنا برا منایا کہ وہ مادرِ ملت کی کردار کشی پر اُتر آئے۔ انہوں نے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب کی اس کم ظرفی سے ثابت ہوا کہ اگر جنرل ایوب قائداعظم کے بھی سیاسی حریف ہوتے تو وہ شاید قائداعظم کو بھی بھارتی ایجنٹ قرار دے دیتے۔ جنرل ایوب سیاست کو ایک گندا کھیل سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس کھیل میں شریفوں کو حصہ نہیں لینا چاہیے۔ چناں چہ ایک ملاقات میں جنرل ایوب نے مولانا مودودیؒ سے کہا کہ مولانا سیاست ایک گندی گلی ہے آپ اس گندی گلی میں کہاں آنکلے۔ مولانا نے جواب دیا ہم سیاست میں اس لیے آئے ہیں کہ اسے ایک پاک صاف کام بنائیں۔ جنرل ایوب سیاسی جماعتوں کے وجود کے سخت خلاف تھے اور وہ انہیں ہر قیمت پر فنا کردینا چاہتے تھے مگر خود جب جنرل ایوب کو سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو انہوں نے کنونشن لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کھڑی کردی۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے تو ان انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ چناں چہ جنرل یحییٰ کا فرض تھا کہ وہ پاکستان کا اقتدار شیخ مجیب اور عوامی لیگ کے حوالے کردیتے۔ ایسا کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یہ فوجی آپریشن شیخ مجیب اور عوامی لیگ کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی رہنما کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو اُسے فوجی آپریشنوں سے سرنگوں نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں ایسے بے ایمان لوگ سیاست اور صحافت دونوں جگہ موجود ہیں جو شیخ مجیب پر پاکستان کو دولخت کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن میجر صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو ایک رات شیخ مجیب نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو اعلیٰ فوجی اہلکاروں سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ ان رہنمائوں نے فوج کے اعلیٰ اہلکاروں کو بتایا کہ شیخ مجیب نے کہا ہے کہ ان پر ملک سے الگ ہونے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ اس سے پہلے کے پانی سر سے اونچا ہوجائے شیخ صاحب چاہتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے تا کہ ملک توڑنے کے اعلان کی نوبت نہ آئے۔
جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر ملک پر مارشل لا مسلط کردیا۔ انہوں نے 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر جنرل ضیا الحق کے یہ 90 دن 9 سال بعد بھی پورے نہ ہوئے۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تھا تو ولی خان نے کہا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دو۔ بعدازاں جنرل ضیا الحق نے اپنے اقدامات سے ولی خان کے اس تجزیے کو درست ثابت کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو سیاسی طور پر مارنے کے بجائے انہیں جسمانی موت سے ہمکنار کردیا۔ اسی موت نے بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج بھی نعرہ لگاتی ہے کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ یہ بھٹو کی پھانسی تھی جس نے پیپلز پارٹی کو آج تک سندھ میں مرنے نہیں دیا۔ رہی سہی کسر بے نظیر بھٹو کی المناک موت نے پوری کردی۔
مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد بھٹو پاکستان کے مقبول رہنما بن کر ابھرے تھے۔ وہ 90 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو بھارت کی قید سے چھڑا کر لائے تھے۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی پروگرام اور 1973ء کے آئین کا تحفہ دیا تھا مگر بھٹو ایک وڈیرے تھے اور فسطائیت ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ چناں چہ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو بھی برداشت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو مروایا۔ جیلوں میں ٹھونسا اور انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں بے پناہ دھاندلی کرواکے اپنے سیاسی حریفوں کی سیاسی موت کا سامان کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی اس کوشش نے معاشرے میں شدید ردعمل پیدا کیا اور ملک میں بھٹو کے خلاف ملک کی 9 بڑی جماعتوں نے پی این اے کے نام سے ایک اتحاد کھڑا کردیا۔
بھٹو صاحب جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرتے تو وہ طویل عرصے تک پاکستان پر حکمرانی کرسکتے تھے مگر بھٹو میں ظرف کی کمی تھی۔ چناں چہ انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں کسی ضرورت کے بغیر دھاندلی کرادی۔ بھٹو صاحب یہ دھاندلی نہ کراتے تو بھی وہ بھاری اکثریت سے انتخابات میں فتح یاب ہوجاتے مگر حریفوں کے کٹے ہوئے سیاسی سر دیکھنے کا شوق بھٹو صاحب کو لے ڈوبا۔ الطاف حسین نے بھی سیاست میں حریفوں کو برداشت نہیں کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو شہید کردیا۔ انہوںنے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو مارا۔ انہوں نے ایم کیو ایم حقیقی کو مشق ستم بنایا۔ اب اسٹیبلشمنٹ نواز لیگ، پیپلز پارتی اور جمعیت علمائے اسلام عمران خان کی جسمانی موت کے درپے ہیں اور ثنا اللہ نے اس سلسلے میں کھل کر اپنے مذموم عزائم کا اظہار کردیا ہے۔
موہن داس کرم چندر گاندھی ہندوئوں کے روحانی باپ تھے۔ وہ ان کے سب سے بڑے سیاسی رہنما تھے مگر انتہا پسند ہندوئوں کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی کہ گاندھی نے پاکستان کو نہ صرف یہ کہ قبول کرلیا بلکہ بھارت نے پاکستان کے حصے کی رقم روکی تو گاندھی نے اس کے خلاف مرن برت رکھا۔ چناں چہ نتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کردیا اور آج نتھو رام گوڈسے بی جے پی کا ہیرو ہے۔ اندرا گاندھی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں مگر ان میں اپنے سیاسی حریفوں کو قبول کرنے کا مادہ نہیں تھا۔ چناں چہ انہوں نے 1970ء کی دہائی میں ہندوستان پر ایمرجنسی مسلط کرکے پوری حزب اختلاف کو جیل میں ٹھونس دیا۔ ہندوستان کی سیاست میں گنجائش ہوتی تو اندرا گاندھی اس سے آگے بڑھتیں اور دو چار حریفوں کو مروا دیتیں۔ موجودہ ہندوستان پر مودی اور بی جے پی کا غلبہ ہے اور مودی نے اپنی قوت کے اظہار کے طور پر کانگریس کے رہنما راہُل گاندھی کو نہ صرف لوک سبھا یا پارلیمنٹ سے باہر کردیا ہے بلکہ انہیں ایک ماتحت عدالت سے سزا بھی دلوادی ہے۔ راہُل گاندھی کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے کہا مودی کے خاندانی نام والے تمام افراد مجرم کیوں ہوتے ہیں؟ بنگلادیش میں سیاست بھی ابتدا ہی سے خونیں رہی ہے۔ شیخ مجیب بنگلادیش کے بانی تھے مگر جنرل ضیا الرحمن نے نہ صرف یہ کہ ان کا تختہ الٹ دیا بلکہ شیخ مجیب سمیت ان کے پورے خاندان کو مار ڈالا۔ حسینہ واجد ملک سے باہر تھیں اس لیے بچ گئیں۔ اب شیخ حسینہ واجد نے امریکا، یورپ اور بھارت کی آشیرباد سے جماعت اسلامی بنگلادیش پر پابندی لگادی ہے۔ انہوں نے خالدہ ضیا اور ان کی جماعت بی این پی کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔